سیدناصدیق اکبررضی اﷲ عنہاکی سیاسی پالیسیوں میں خدمت خلق کے اعلیٰ نمونے

حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی چار پشتیں شرف صحابیت سے مشرف ہوئیں،یہ فضیلت اور کسی خاندان کو حاصل نہیں

حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کا اسم گرامی عبداﷲ تھا بعض مورخین نے لکھا ہے کہ والدین نے آپ کا نام عبدالکعبہ رکھا تھا اسلام لانے کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ سلم نے یہ نام بدل کر عبداﷲ رکھ دیا، آپ کی کنیت ابوبکر ہے۔آپ کے القاب میں عتیق، صدیق،اصدق الصادقین اور سید المتقین وغیرہ ہیں۔آپ کے والد کا نام عثمان اور کنیت ابوقحافہ ہے۔آپ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت میں مرہ بن کعب پر حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کے شجرۂ نسب سے مل جاتا ہے۔آپ کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ صحابہ ، آپ کے والد ابو قحافہ صحابی ، آپ کے صاحبزادے عبدالرحمن صحابی اور ان کے صاحبزادے ابو عتیق محمد صحابی یعنی آپ کی چار نسل صحابی ہیں۔یہ فضیلت اور کسی خاندان کو حاصل نہیں ہوئی۔آپ کی تعریف و توصیف میں قرآن مجید کی بہت سی آیات کریمہ نازل ہوئی ہیں۔ بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے کی سعادت آپ کو نصیب ہوئی۔ آپ نے اسلام قبول بھی کیا اور اس کا اعلان بھی کیا۔(ضیاء النبی ،۲؍۲۲۸)قبول اسلام کے وقت آپ کی عمر شریف ۳۸؍ سال تھی۔ جس عظیم ہستی کے زیر سایہ سیدناصدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے زندگی کے اکثر ایام گزارے اس معلم کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے آپ کو علم وعمل کا پیکر بنادیاتھا، علم وحکمت، فہم وفراست، تقویٰ وورع اور عزیمت واستقلال یہ سارے اوصاف اسی بارگاہ سے ملے تھے ۔ صحابہ کرام میں آپ ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ آپ حافظ قرآن ، کاتب وحی اور مفسر قرآن تھے ۔ آپ سے کئی احادیث مروی ہیں۔غریب نوازی اور سخاوت میں بھی آپ پیش پیش تھے اور یہ سب رضائے الٰہی کی خاطر تھا۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر آپ نے سخاوت کی جو مثال قائم کی اسے کون بھلا سکتا ہے۔خوف وخشیت ربانی سے آپ ہر وقت لرزاں رہتے تھے اور کیوں نہ ہو کہ یہ بھی قرب خداوندی کے ذرائع میں سے ہے ۔خداکا خوف ایسا تھا کہ پڑھ کر اور سن کر رقت طاری ہوجائے۔رزق حلال اور صدق مقال آپ کی امتیازی خوبیاں تھیں ۔حرام چیزوں کا استعمال تو کجا لاعلمی میں مشکوک چیز بھی کھالیتے تو آپ کا معدہ اسے قبول نہ کرتا فوراً قے کردیتے ، نفس کشی اور احتساب نفس آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد مجمع عام میں سب سے پہلے آپ نے جو تقریرفرمائی وہ اپنی سادگی ، اثر اندازی اور جامعیت میں بے مثال ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ ایک مومن حاکم کی حکومت کی پالیسی کیا ہونا چاہیے۔ آپ نے فرمایا : ’’ اے لوگو ! واﷲ میں نے کبھی خفیہ یا اعلانیہ حکومت کی تمنا نہیں کی۔ میں تم پر حاکم بنایا گیا ہوں ، در آنحا لیکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اب تمہارا فرض یہ ہوگا کہ اگر میں اچھا کام کروں تو میری اطاعت کرو۔ لیکن اگر میں ٹیڑھا ہوجاؤں تو مجھے سیدھا کردو ، یاد رکھو ، سچائی امانت ہے اور جھوٹ بد دیانتی ہے۔ تم میں سے کمزور ترین آدمی بھی میرے نزدیک طاقتور ہے جب تک کہ میں اس کا حق دلوا نہ دوں اور تم میں سے قوی ترین شخص بھی میرے نزدیک کمزور تر ہے جب کہ میں دوسروں کا حق اس سے حاصل نہ کرلوں۔ یادرکھو ! جو قوم اﷲ کی راہ میں جہاد کرنا چھوڑ دیتی ہے اﷲ اسے ذلیل و خوار کرتا ہے اور جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے۔ خدا اسے کسی عام مصیبت میں گرفتار کرادیتا ہے۔ اْٹھو ! اﷲ تم پر رحم کرے۔ اْٹھو نماز کی تیاری کرو۔ ‘‘

حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے جب حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما کے لشکر کو روانہ کیا توخودپا پیادہ مدینہ شریف سے باہر تک اسے رخصت کرنے کے لیے تشریف لائے۔ حضرت اسامہ رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا:’’ حضرت ! آپ سوار ہوجائیں یا مجھے پیدل ہوجانے کی اجازت دیں ، تو فرمانے لگے بیٹا نہ میں سوار ہوں گا اورنہ تم پیدل ہوگے،تم راہِ جہاد میں جا رہے ہو،میں چاہتا ہوں تمہارے گھوڑوں کا اُڑایا ہوا غبار مجھ پر پڑجائے اور میں بھی تمہارے اجر میں شامل ہوجاؤں۔ ‘‘ جب لشکر کو رخصت کرنے لگے تو فرمایا ’’ اﷲ کا نام لے کر راہِ خدا میں جاؤ۔ امانت میں خیانت نہ کرنا ، مال غنیمت کو مت چھپانا،بد عہدی اور بے وفائی سے پرہیز کرنا، دشمنوں کے مُردوں کا حلیہ مت بگاڑنا،بوڑھوں بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا، سر سبز اور پھل دار درختوں کو مت کاٹنا اور کھانے کی ضرورت کے سوا جانوروں کو ذبح مت کرنا۔ ‘‘

حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نہایت متواضع اور سادہ مزاج تھے نہ صرف یہ کہ اپنے تمام کام خود ہی سر انجام دینے کی کوشش کرتے بلکہ گلی محلے والوں تک کے کام کرنے میں عار محسوس نہ فرماتے تھے ،ہمسایوں کی خدمت گزاری کا جذبہ یہاں تک تھا کہ بعض دفعہ ان کے مویشی تک چراتے اور دودھ دوہ دیتے تھے۔ جب خلیفہ ہوئے تو آپ کے پڑوس میں ایک خاتون جس کی بکری کا دودھ آپ دوہا کرتے تھے ، بہت متفکر ہوئی کہ اب ہماری بکری کا دودھ کون نکالے گا ؟ آپ کو معلوم ہوا تو فرمایا ’’ خلافت مجھے خلق خدا کی خدمت سے باز نہیں رکھ سکتی ، یہ کام اب بھی میں ہی سر انجام دیا کروں گا۔ ‘‘

۲۲؍ جمادی الآخرہ ۱۳ھ مطابق ۲۳ ؍اگست ۶۳۴ء بروز منگل مغرب وعشاء کے درمیان ۶۳ سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوا وصیت کے مطابق آپ کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے آپ کو غسل دیا اور امیر المومنین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے نمازجنازہ پڑھائی ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کو فنا فی الرسول کا وہ درجہ حاصل تھا کہ آپ کی وفات بھی حضور انور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کا نمونہ ہے پیر کے دن حضور کی وفات اور پیر کا دن گزار کر شب میں حضرت صدیق کی وفات، حضور کے وفات کے دن شب کو چراغ میں تیل نہ تھا اور حضرت صدیق کی وفات کے وقت گھر میں کفن کے لئے پیسے نہ تھے یہ ہے فنا۔(مراۃ المناجیح ۸؍۲۹۵)
٭٭٭

Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 669976 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More