بچوں کی تربیت اور ہمارا مستقبل

آئے روز معصوم بچوں کے ساتھ زیادتیوں کی خبر پڑھتا ہو ں تو دل دکھتا ہے کہ کیسے بھیڑیے نما انسان معصوم بچوں کو پل بھر میں مسل دیتے ہیں بچے کبھی انتقام کا نشانہ بن جاتے ہیں تو کبھی کسی کی ہوس کا شکار بن جاتے ہیں اور تو اور معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم ،بے راہ روی اور بلخصوص نوجوان نسل کا اپنی منزل سے ہٹ جانہ بھی ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے ہاں بچہ ان تمام برائیوں اور بے راہ رویوں سے محفوظ رہ سکتا ہے اگر والدین بچے کی تربیت بہتر اور اچھے ماحول میں کریں اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین بچوں کوو قت دیں ان سے دوستی رکھیں اپنی بیٹیوں سے پیار سے بات کیا کریں اپنے بیٹوں کے ساتھ کھیلا کریں اور ثابت کریں کہ آپ ہی انکے بہترین اوراچھے دوست ہیں اگر آپ یہ نہ کرسکے تو پھر یاد رکھیں کہ بچوں نے دوست بنانے ہی ہوتے ہیں اور ہمارا یہ معاشرہ ان بچوں کو بہت برے دوست پیش کرتا ہے جو اچھے کام تو تنہائی میں کرتے ہیں اور برے کام مل بیٹھ کر سرانجام دیتے ہیں بچے چونکہ معصوم ہوتے ہیں اور جس طرف انکا ذہن ایک بار لگ جائے پھر ان میں تبدیلی بڑی مشکل سے پیدا ہوتی ہے اس لیے والدین بچے کی نشونما سمیت اسکی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اگر والدین بچوں سے پیار اور دوستی نہیں رکھیں گے تو پھر بچوں کی تربیت کسی اور ہاتھ میں چلی جائیگی اور یہ ہاتھ ایسے ہوتے ہیں جو بچوں کے اخلاقی بگاڑ کے ساتھ ساتھ انہیں گھر والوں سے بھی دور کرنے میں اہم کردار اداکرتے ہیں غربت کو بہانہ بناکر بچوں سے دوری ،مار کٹائی اور طعنہ زنی بزدل اور کمزور والدین کی نشانی ہوتی ہے جو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بچوں میں محرومی اور احساس کمتری پیدا کرتی ہے پھر ایسے بچوں کا دل اور دماغ ایک ساتھ کام نہیں کرتا پڑھائی سے عاری اور کند ذہن بن جاتے ہیں والدین کی عدم توجہ اور مارپیٹ میں جوان ہونے والا بچہ کبھی بھی معاشرے کا مفید شہری ثابت نہیں ہوتا اور بلخصوص ایسے والدین کی اولاد جو ہر وقت اپنی محرومیوں کا ذکرکرتے رہتے ہوں اور ناجائز دولت اکٹھی کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہوں اور پھرانکے بچوں کی دوستیاں بھی باہر ہوں تو پھر ایسے بچے کسی نہ کسی کے ہاتھوں کھلونا بن کر خوفناک انجام سے دوچار ہوجاتے ہیں اس لیے اپنے بچوں کے بہتر مستقبل اور انہیں ایک اچھا انسان بنانے کے لیے انہیں اپنے ماں باپ کی شکل میں بہترین دوست مل جانے چاہیے کیونکہ بچوں کی کردار سازی میں سب سے بڑا کردار والدین کا ہے اور جب معاشرے میں ایک بچہ تہذیب ،ادب اور شائستگی کے ساتھ اعلی پوزیشن حاصل کرکے کامیاب زندگی کی شروعات کرتا ہے تو یہ اس بچے کی کامیابی نہیں ہوتی بلکہ ان والدین کی کامیابی ہوتی ہے جن کی تربیت کی وجہ سے بچہ کامیاب انسان بنا ہمارے معاشرے میں بھی واضح تفریق ہے ایک وہ طبقہ ہے جو پڑھا لکھا ہونے کے ساتھ ساتھ باشعور بھی ہے جو سمجھتا ہے کہ بچے کی تربیت کیسے کرنی ہے دوسرا طبقہ وہ ہے جو پیسے کے بل بوتے پر اپنے بچوں کی تربیت کرنا چاہتے ہیں ،تیسرا طبقہ غربت میں اپنے بچوں کی تربیت کرتا ہے ،چوتھا طبقہ جہالت میں اپنے بچوں کو پروان چڑھاتا ہے اور پانچوں طبقہ کم تعلیم یافتہ اور محدود وسائل کی بدولت اپنے بچوں کی پرورش کرتا ہے مگر ان میں کامیاب وہی طبقہ ہے جو اپنے بچوں کی تربیت دوستی کے دائرہ میں رہ کرے زیادہ سختی اور مار پیٹ بچوں کو باغی بنا دیتی ہے بلخصوص تعلیم کے معاملہ میں والدین کی اکثریت بچوں پر سختی کرکے انہیں ذہین اور سمجھدار بنانے کی بجائے رٹا لگانے والا طالبعلم بنادیتے ہیں ہمارے دیہاتوں اور شہروں میں بچوں کی تربیت کے حوالہ سے زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے جبکہ بعض گھروں میں بچوں پر اپنے فیصلے مسلط کرنے کے لیے تشد د بھی کیا جاتا ہے ہمارے اکثر گھروں میں معمولی معمولی غلطیوں پر بچے کو طعنے دیے جاتے ہیں اور اسکی خامیاں دوسرے کے سامنے بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہیں ہم اپنی دانست میں یہ ایک اچھا اقدام کررہے ہوتے ہیں کہ بچہ اپنی بے عزتی محسوس کرکے غلط کاموں سے باز آجائیگا مگر ہم یہ بہت براکررہے ہوتے ہیں بچے اس کا ہمیشہ الٹ اثر لیتے ہیں ہمیں بچوں کی غلطیوں کو سدھارنے کے لیے پیار ،محبت اور مثالوں سے کام لینا چاہیے بلکہ انکی تعلیمی سرگرمیاں تیزاور بہتر بنانے کے لیے انہیں انعام کالالچ دیں اور انعام میں ہمیشہ وہ چیز رکھیں جو بچے کو پسند ہو اس طرح بچے کے اندر شوق بھی پیداہوگا اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اسے انعام کی اہمیت کا بھی اندازہ ہو گابچے کی ہر اچھے کام میں تعریف اور کھل کر حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اس سے بچے میں کام کی دلچسپی اور آگے بڑھنے کی لگن پیدا ہوتی ہے والدین کو چاہیے کہ بچے کے رول ماڈل خود بنیں نہ کہ دوسروں کے والدین کی مثالیں پیش کریں مگر ایسے والدین جو اپنے بچوں کی تربیت بہتر نہیں کررہے انہیں چاہیے کہ وہ ایسے بچوں کے والدین کو اپنا رول ماڈل بنائیں جن کے بچے اعتماد کی دولت سے مالا مال اور سکول میں بہتر پوزیشن پر آتے ہوں یہاں میں ایک بات سب کے گوش گذار کردوں کہ والدین بننا کوئی بڑی اور بہادری کی بات نہیں ہوتی اصل میں بہادری اور کارنامے والی بات یہ ہے کہ آپ نے اپنے بچوں کی تربیت کتنے اچھے ماحول میں کی ہے کیاآپ نے اپنے بچوں کو معاشرے کا مفید شہری بنانے میں بھی کوئی کردار اداکیا ہے یا پھر وہ خود ہی کسی خود رو جنگلی جھاڑی کی طرح بڑھتا رہا اور معاشرے کے ناسوروں کو اپنا رول ماڈل بناکرانکے نقش قدم پر چل کر اپنی راہیں خود ہی متعین کرے کبھی خود تکلیف میں تو کبھی کسی کو تکلیف میں رکھے اور پھر انجام وہی ہوجو ہمارے معاشرے میں برے لوگوں کا ہورہا ہے اس لیے والدین اپنے بچوں کی تربیت میں بھر پور کردار اداکریں انہیں پیار دیں ان سے دوستی کی پینگیں چڑھائیں یہ والدین کی سب سے بڑی اور پہلی ذمہ داری تاکہ آنے والے وقت میں انکے بچے بھر پور اور مفید شہری کے طور پر اپنی زندگی گذار سکیں جو والدین ان باتوں سے آشنا نہیں انہیں چاہیے کہ وہ کسی سے سیکھیں اور جن کو یہ باتیں معلوم ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنے اردگرد کے لوگوں اپنے دوستوں،عزیزوں اور رشتہ داروں کو سمجھائیں بچے ہمارا آنے والا کل ہیں جن کے مستقبل سے ہم نے بڑی امیدیں وابسطہ کررکھی ہیں ماضی تو ہم نے روتے پیٹتے گذار ہی لیا اب ہمیں اپنے مستقبل کی فکرکرنی چاہیے اور آج کے بچے ہمارا مستقبل ہیں ۔

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 503648 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.