جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن

یہ مصرعہ توغالباً شاعر نے اپنی بے پناہ مصروفیت کے سبب کہاتھاکہ عملی زندگی میں انسان کوسرکھجانے کی فرصت بھی کم ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس مشینی دور میں روبوٹ کی مانند جیتے انسان بس اک دوڑ میں لگے ہیں اورچلتے چلے جارہے ہیں۔ لیکن موجودہ حالات میں یہ مصرعہ ہمارے ان نونہالان پربھی صادق آتاہے جوابھی عملی زندگی توکجاسن شعور تک بھی نہیں پہنچے ہوتے ہیں لیکن فراغت ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتی۔

عرف عام میں سکول جانے والے پرائمری یااس سے اوپر مڈل اوربالخصوص ہائی حصہ کے طلباکے معمولات زندگی کا جائزہ لیں توشاید گمان ہوتاہے کہ ان کی مصروفیت کسی بھی بڑے آدمی سے کمترنہ ہے۔

صبح سویرے اٹھ کر مسجد ،پھر سکول ،واپس آتے ہی اکیڈمی اور رات میں سکول اور اکیڈمی کا دیاگیا ہوم ورک۔۔۔۔۔۔رہ گئی اتوار تووہ بے چاری ٹیسٹوں کے کھاتے میں پڑ جاتی ہے۔یوں فراغت ان بے چاروں کو نصیب ہی کہاں ہوتی ہے۔ اسی دوران اگر امتحانات آجائیں توبچے شاید سکھ کاسانس لیتے ہیں کہ اب تعطیلات ہوں گی اور ہم لیکن شومئی قسمت کہ امتحانات ابھی ختم نہیں ہوتے اور اگلی جماعت کے لیے پری کلاسز شروع ہوجاتی ہیں۔

درجہ ہشتم کے امتحانات ابھی ختم نہیں ہوئے اور پری 9th کے اشتہار اوربینرپورے شہرمیں آویزاں نظر آتے ہیں۔ جماعت دہم کے امتحانات سے فراغت بعد میں نصیب ہوتی ہے ۔پری FSc کی کلاسز پہلے سے منہ کھولے کھڑی ہیں کہ ان طلباکوجلد ازجلد نگل لیاجائے۔ اس دوڑ میں طلبا کے لیے کچھ تخلیق کرنایااپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاناممکن ہی نہیں رہا۔

ماضی میں طلبا چھٹیوں میں طرح طرح کے منصوبے بناتے اور اپنی صلاحیتوں کابھرپوراظہار کرتے۔ کھیل کے میدان یامحلے میں رونق دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوجاتا کہ آج بچوں کو چھٹی ہے لیکن اب ایسے مناظر خال نظرآتے ہیں۔

والدین اوراساتذہ کی طرف سے بچوں کو مسلسل مصروف رکھنے کی اس روش کے باعث بچوں کی جسمانی صلاحیتیں دبنا شروع ہوجاتی ہیں اورنتیجتاًایک تنومند جسم کی بجائے لاغر اور کمزور جسم وجودمیں آتاہے۔ ایسے طالب علم کوبیماریاں بھی جلد گھیرتی ہیں۔

راقم الحروف نے بہت سے والدین سے اس بارے میں سوال کیا کہ بچوں کو اس قدر مصروف کیوں رکھا جارہاہے تو جواب عموماً کچھ یوں ملتے ہیں:''پڑھائی میں مقابلہ بہت ہے۔'' نمبر زیادہ آنے چاہئیں۔'' فارغ رہے گا توشیطانیاں کرے گا۔'' ،''فارغ رہے تو باہر جاکر کھیلے گااور خراب ہوگا۔''

اب تمام جوابات کو بالترتیب دیکھ لیتے ہیں۔ پڑھائی میں ''مقابلے'' کے شوقین والدین اپنے بچوں کو صرف اس لیے اس قدر مصروف رکھتے ہیں کہ نتیجے کے دن وہ سارے خاندان میں فخر سے بتاسکیں کہ ہمارے بچے نے اتنے زیادہ نمبرحاصل کیے ہیں۔ اپنی صرف اس ایک دن کی خوشی کے لیے بچے کا اس قدر استحصال کیوں ہوتاہے،یہ سمجھ سے بالاترہے۔ ویسے بھی نمبروں کی دوڑ میں طالب علم کے پاس کچھ علم نہیں آتابلکہ بس نمبر وں کی دوڑ میں ہی لگارہتاہے۔ ذہن میں یہی دھن سوار رہتی ہے کہ فلاں سے نمبرزیادہ آنے چاہئیں۔ فلاں سے کم نمبر توہرگز نہیں ہونے چاہئیں۔ اسی دباؤ کے باعث بہت سے طالب علموں کو کم سنی میں ہی نفسیاتی بیماریاں گھیر لیتی ہیں اور ذہنی دباؤ کے باعث بچوں کی خودکشیاں بھی منظرعام پرآئی ہیں۔

ایک اور اہم وجہ جووالدین بتاتے ہیں کہ بچوں کو اس قدر مصروف رکھاجاتاہے کہ اگروہ فارغ رہیں گے توباہرجاکر کھیلیں گے اور خراب ہوجائیں گے۔ اس کاحل یہ ہے کہ بچوں کو اتنی فرصت ہی نہ ملے۔ گویا اس بچے نے ساری عمر گھر ہی رہنا ہے اور کبھی معاشرے کاسامنانہیں کرنا۔ایسے طالب علم جب بلوغت کے بعدمعاشرے میں قدم رکھتے ہیں توسب سے زیادہ یہی کمزور واقع ہوتے ہیں۔ان طلبا کی حالت اس کبوتر کی ہے کہ جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتاہے اور اپنابچاؤ کرنانہیں جانتا۔نتیجتاً شکار ہوجاتاہے۔ ان طلبا کو اگر درست اورغلط کی تمیز دے کر شروع دن سے ہی معاشرے کاسامناکرنے پرتیارکیا جائے تو یہ معاشرے میں اصلاح کاباعث بنتے ہیں اورکسی بھی طالب علم کے لیے توفرصت ہی وہ وقت ہے کہ جب وہ کسی تخلیقی سرگرمی کے لیے کوشش کرے گا۔اس وقت میں وہ اپنی صلاحیتوں کاجلوہ دکھائے گا کہ جس کی مدد سے اس طالب علم کے مستقبل کاتعین کرنے میں آسانی ہوگی۔

اساتذہ کے حوالے سے اگربات کی جائے کہ وہ بچوں کو اس قدر مصروف رکھنے کی تگ ودو کیوں کرتے ہیں کہ صبح سکول،شام اکیڈمی اور پھر اس کے بعد بھی بس چلے تو رات انہیں ادھر ہی سلالیں۔

راقم الحروف کوگزشتہ دنوں ایک معروف کالج میں جانے کااتفاق ہوا۔کالج کی انتظامیہ کے ایک اہم عہدیدار بڑے فخرسے بتارہے تھے کہ اس ادارے کے طلبا وطالبات نے حالیہ امتحانات میں اس قدر نمبرلیے ہیں ۔نصابی تعلیم کے علاوہ کسی بھی غیرنصابی یاہم نصابی سرگرمی کے متعلق استفسار پرجواب حیران کن تھا۔۔۔۔۔۔کہ ان کے لیے وقت کہاں ملتاہے۔بس سال میں اک آدھ دن کے لیے سپورٹس یاکوئی ایسی تقریب کا انعقاد ہوتاہے۔باقی سارا سال بچے نمبروں کے لیے دوڑ لگاتے ہیں۔اسی باعث ہمارے تعلیمی اداروں میں بچوں میں تخلیقی صلاحیتیں مفقود ہیں اور بس نگلنے اورا گلنے کاسلسلہ جاری ہے۔ طلبا سارا نصاب نگل لیتے ہیں اور وقت امتحان اس کواگل آتے ہیں۔ یقین نہ ہو توکسی بھی طالب علم کو اسی کاحل کیاگیا سوالیہ پرچہ دے کر دوبارہ حل کرنے کوکہیں۔۔۔۔۔۔وہ کبھی بھی حل نہیں کرسکے گا۔کیونکہ اس نے نصاب کو نگلا تھااور بعدمیں اگل دیا، جذب توکیانہیں تھا کہ اس کو دوبارہ پیش کر سکے۔چنانچہ اب دوبارہ سے نگلے تواگلے گا۔ تمثیل اگر غیرمناسب ہو تو اس کے لیے معذرت لیکن حقیقت یہی ہے۔

ان حالات میں والدین سے اور اساتذہ سے گزارش ہے کہ طلبا کو کچھ وقت فراغت مہیاکریں۔ ان کی صلاحیتوں کوسامنے آنے دیں۔بچوں میں کسی جسمانی سرگرمی کوفروغ دیں۔انہیں کھیل کے کسی میدان میں جانے کی ترغیب دیں۔یہ سب یقیناایک صحت مند قوم کے لیے بہت ضروری ہے۔ بصورت دیگر ہم اپنے مستقبل کو اپنے ہاتھوں اپاہج اوربیماربنانے پرتلے ہیں۔

Hanzla Ammad
About the Author: Hanzla Ammad Read More Articles by Hanzla Ammad: 24 Articles with 19439 views Doing M-Phil from Punjab University
A Student of Islamic Studies
.. View More