میں سلمان ہوں ( قسط 15)

آج جس دوراہے پر میں کھڑا ہوں نا تو میرے کندھے اس بوجھ کے سنبھال پا رہے ہیں نا ہی میری ٹانگیں ان پتریلی راستوں کے عادی ہے میری پاس بس کھونا کھونا ہی ہے--- رہ دے کے صرف ماں باپ کی دولت ہی رہ گئی ہیں --- فیملی اب پھر سے خاندان نہیں بن پائے گا --- بس اب ہم ان میں سے ہے جو اپنی طعبی عمر پوری کرتے ہیں ---- جو کھانا پورا کرنے کے لیے سبزی یا گوشت کے بجائے پانی کا استعمال کرتے ہے--- جو سب صرف ایک ساتھ ایک ٹائم اس لیے کھانا کھاتے ہیں کہ کہے کھانا ختم ہوا تو وہ بھوکا رہ جائے گا--- آپ لوگوں کی گاڑی بہت آگے نکل گئی ہے--- اور اگر ہم ایک ہی گاڑی کے مسافر ہے تو میں 3rd کلاس کا اور آپ لوگ Buisness Class کے مسافر ہے --- جب میرا سفر ختم ہوگا تو میں اتنا گرد آلود ہو چکا ہوگا کہ کوئی اپنا بھی نہیں پہچان پائے گا-- آپ لوگ کالونی سے Society میں آگئے ہوں --- میں اس لباس اور پیدل ہوجانے کی وجہ سے یہاں Unfit ہوں-- یہاں تو Public Transport پر اتنی دور سے ملتی ہے کہ بندہ بس میں لٹکنے سے پہلے ہی تھک جاتا ہے --- جہاں تک لکھنے کا تعلق ہے -- میں بھوک کی وجہ سے لکھتا ہوں -- لفظ روٹی بن کے مجھے پالتے ہے -- ہاں یہ میرا کریئر نہیں ہے مگر جب تک کشتی نہیں مل جاتی --- مجھے اس لکڑی کے ٹکڑے کو ہی سہارا بنا کر خود کو ڈوبنے سے بچانا ہے مجھے زندگی گزارنی نہیں بلکہ اپنی زندگی بچھانی ہے ہو سکتا ہے میرا کل ایسا ہوں کہ مجھے گول مٹول سا چاند بھی روٹی نظر آئے -- میرا گھر روٹی کی وجہ سے تقسیم ہو رہا ہے --- میں جانتا ہوں پیار تقسیم کرنے کے لیے نہیں ہوتا --- پیار کو تو ضرب دیا جاتا ہے آپ نے اپنے عید کے ٹائم میں سے جتنا ٹائم مجھے دیا میں اس کے لیے مشکور ہوں --- آپ نے صرف اپنی زبان کی وجہ سے اپنے آپ کو اتنا بوجھ میں رکھا -- میں اس قابل بھی نہیں تھا --- میرے طرف سے آپ اپنے فیصلے میں آزاد ہیں جس طرح میں کسی کے مرضی یا فیصلے کا غلام نہیں ایسی طرح آپ لوگ تو اب دوسروں کے فیصلے بھی کر سکتے ہیں -- بھلا آپ کو اپنے فیصلوں کے لیے کوئی کیسے پابند کر سکتے ہے۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے)
 

hukhan
About the Author: hukhan Read More Articles by hukhan: 28 Articles with 38238 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.