نظام عدل کے اسٹیک ہولڈزاور نیا مصالحتی نظام

عدلیہ میں ججز اور وکلاء دو اہم ستون ہیں اور سائیلین اِس میں مرکزی حثیت کے حامل ہیں ۔ بدقسمتی سے حکمران اشرافیہ خود تو کسی قانون کو خاطر میں نہیں لاتی لیکن وہ عوام سے یہ امیدیں وابستہ رکھتی ہے کہ وہ قانون کے مطابق چلیں۔ گھر کا سربراہ ہی اگر قانون شکن ہوگا تو نظام کیسے پنپ پائے گا۔ نبی پاکﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے کہ تم سے پہلے کی قومیں اِس لیے برباد ہوئیں کہ جب کو بااثر شخص جرم کرتا تو اُسے چھوڑ دیا جاتا اور کمزور جرم کرتا تو اُسے سزا ملتی۔ پاکستان میں حکومت خود تو پراسیکیوشن کے عمل میں روایتی سستی کا مظاہر کرتی ہے اور سارا ملبہ پھر عدلیہ پر پڑ جاتا ہے۔ نظام کی خرابی کی وجہ سے ججز اور وکلاء کے درمیان مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ درمیان میں سائل بے چارہ سینڈوچ بن جاتا ہے۔ موجودہ دور میں مصالحتی نظام کی طرف پیش قدمی کی جارہی ہے لیکن جس طرح کا رویہ معاشرے میں ہے کیا ایسا نظام چل سکتا ہے۔ صرف روپے مل جانے سے اور بیرونی امداد مل جانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ پورے نظام کی اور ہالنگ کی ضرورت ہے۔ موجودہ چیف جسٹس ہائی کورٹ انتہائی فعال کام کر رہے ہیں اور اور وہ ایک انتہائی دیانتدار جج ہیں پنجاب میں عدالتوں سے ہٹ کر مصالحت کے ذریعہ سے چھوٹے موٹے مسائل حل کرنے کی طرف پیش قدمی کی گئی ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ منصور علی شاہ نے کہا کہ جب سے پنجاب کی عدلیہ میں اصلاحات کا عمل شروع کیا ہے بین الاقوامی ڈونرز ہماری مدد کر رہے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ وکلاء کی پیشہ وارانہ قیادت ہمارے شانہ بشانہ ہے۔ ہم سب متفق ہیں کہ ہم نے اس نظام کو تبدیل کرنا ہے۔ صوبہ بھر میں ہڑتالوں کو کنٹرول کرنا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اپنے معاملات کو عدالتی اوقات کار کے بعد بیٹھ کر گفت و شنید سے حل کرنا ہے۔ کوئی بھی ایسا معاملہ نہیں جو ہم بیٹھ کر حل نہ کر سکیں۔ سیشن کورٹ لاہور میں پہلے مصالحتی سینٹر کے افتتاح کے بعد پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں ججز اور وکلا سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ کسی بھی ایشو کی صورت میں متعلقہ ضلعی و تحصیل بار ایسوسی ایشن فوری طور پر پنجاب بار کونسل کو مطلع کرے۔ ہم پنجاب بار کونسل کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ہر معاملہ کو مل بیٹھ کر حل کرنے کیلئے تیار ہیں۔ صرف پنجاب بار کونسل کی اپیل پر کی جانے والے ہڑتال منظور ہوگی۔ علاوہ ازیں عدالتیں کام کرتی رہیں گی۔ وکیل آئے یا نہ آئے عدالتیں فیصلہ کرتی رہیں گی۔ جس طرح غلط شہرت کے حامل ججز کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں ایسے ہی نان پروفیشنل وکلاء کے خلاف بھی کارروائی کی امید کرتے ہیں۔ ہمیں عدالتوں کو فنکشنل کرنے کے ساتھ انکے تقدس کا بھی خیال رکھنا ہے۔ چھتیس اضلاع میں یکم ستمبر 2016 سے 28 فروری 2017 تک 1474 دن ہڑتال کی گئی۔ سرگودھا میں 143 میں سے 79 روز ہڑتال رہی صرف 64 دن عدالتوں نے کام کیا، جھنگ میں 143 میں 78 دن ہڑتال میں گزرے، ڈیرہ غازی خان میں 72، گوجرانوالہ اور میانوالی میں 70، 70 دن ہڑتال کی گئی، فیصل آباد میں 69 روز، راجن پور میں چھیاسٹھ، گجرات میں اکسٹھ، خوشاب میں انسٹھ، چنیوٹ میں اٹھاون، مظفر گڑھ میں ستاون، ٹوبہ ٹیک سنگھ میں باون روز، پاکپتن میں پینتالیس، ملتان اور اوکاڑہ میں 43/43 دن، حافظ آباد اور لیہ میں چالیس, 40روز وکلاء کی جانب سے ہڑتال رہی۔ ساہیوال میں انتالیس، رحیم یار خان میں تینتیس، بہاولنگر اور نارووال میں 31,31 دن، چکوال میں تیس روز، اٹک میں انتیس، بہاولپور، بھکر، خانیوال اور شیخوپورہ میں 28,28 دن، منڈی بہاؤالدین اور سیالکوٹ میں 27,27 روز، لودھراں میں پچیس، جہلم میں بیس، وہاڑی میں بیس، راولپنڈی میں پندرہ دن، لاہور میں چودہ، قصور میں گیارہ جبکہ ضلعی عدلیہ ننکانہ صاحب میں سب سے کم صرف آٹھ دن ہڑتال کی گئی۔ ضلعی عدلیہ میں اوسطاً 41 دن ہڑتال کی گئی جس کی شرح29 فیصد بنتی ہے جبکہ بعض اضلاع میں یہ شرح پچپن فیصد تک ہے۔ پنجاب کے تمام اضلاع میں اے ڈی آر کا نظام شروع کیا جارہا ہے۔ ہر ضلع سے دو دو ججز کو نامزد کر دیا گیا۔ ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ شروع میں مسائل کا سامنا رہے گا، اکیڈمی کے دروازے وکلاء کے بھی کھلے ہیں، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور لاہور بار کے صدور کسی بھی طرح کی ٹریننگ پلان کو لے کر آئیں اور وکلا کو ٹریننگ کروائیں۔ عدالت اور مصالحتی مرکز میں ماحول کے بعد سب سے بڑا فرق سوچ کا ہے، ہمیں اپنی سوچ کو وسیع کرنا ہوگا تاکہ کھلے دل کے ساتھ لوگوں کے معاملات کو سلجھایا جا سکے۔ لاہور چیمبر آف کامرس میں قائم مصالحتی مرکز کامیابی سے کام کر رہا ہے، لاہور ہائی کورٹ اور ضلعی عدلیہ سے مقدمات وہاں بھجوانے کے حوالے سے سسٹم بنا لیا ہے۔ پنجاب کی عدلیہ میں پندرہ لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں۔ جنہیں روایتی انداز سے نمٹانا ناممکن ہے۔ اے ڈی آر سسٹم ہمارے لئے بہت مدد گار ثابت ہو گا۔ جدید ترین آٹومیشن سسٹم اور اضلاع میں بھی کیس مینجمنٹ پلان شروع کیا جارہا ہے۔ انہوں نے بار نمائندوں سے مخاطب ہوئے کہا کہ ہم سب نے مل جل کر ان اصلاحات کو کامیاب بنانا ہے، میں اکیلا اس نظام کو تبدیل نہیں کر سکتا، ہمیں نیک نیتی اور مثبت سوچ کے ساتھ کام کرنا ہے، سارے پاکستان کی نظریں پنجاب پر ہیں اور پنجاب پورے پاکستان کیلئے چینج ایجنٹ ثابت ہو گا۔ نظام کو تبدیل کرنے کیلئے تیزی سے کام کرنا ہوگا، ہم سب متفق ہیں کہ ہمیں اپنے سسٹم کو فنکشنل رکھنا ہے، اے ڈی آر سسٹم عدلیہ کیلئے گیم چینجر ثابت ہوگا، ہمیں ہڑتال کلچر کو ختم کرنا ہے کیونکہ عدالتوں کو فنکشنل کئے بغیر جدید سے جدید تر نظام بھی کامیاب نہیں ہو سکتا، میں اپنے گھر کو صاف کر رہا ہوں، 44 ججز کو او ایس ڈی بنایا اور انکے خلاف انکوائری ہو رہی ہے، ججز سے بد تمیزی برداشت نہیں کی جائے گی، ڈکشنری میں دباؤ کا لفظ نہیں، پہلے دباؤ قبول کیا ہے اور نہ آئندہ کریں گے-

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 382807 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More