فارمولا کرپشن کے خاتمے کا!

 لیجئے جناب ! پاکستان کا ایک اور بڑا مسئلہ حل ہونے کو ہے،اگر اسے دہشت گردی کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ قرار دیا جائے تو بھی بے جانہ ہوگا۔ اور اگر دہشت گردی بہت حد تک ’’ضربِ عضب‘‘ کی ضربوں کی تاب نہ لاتے ہوئے ختم ہونے کو ہے۔ یا اب ’’رد الفساد‘‘ کے تحت ’رد ‘ہوتی جارہی ہے، تو اِس مسئلے کو ملک کا مسئلہ نمبر ایک بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کو دنیا ’’کرپشن‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔اس کا حل پیش کیا ہے جناب مولانا فضل الرحمن نے، قوم کرپشن کا حل پیش کرنے پر مولانا کی مشکور ہے، انہیں خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔ تحسین و عقیدت کی زیادہ منازل طے کرنے سے قبل بہتر ہے کہ مولانا کے اس فارمولے پر ایک نگاہ ڈال لی جائے، جو انہوں نے کرپشن کے خاتمے کے لئے پیش کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ’’ ․․․ملک میں سرمایہ دار طبقہ اپنے مفاد کی بات کرتا ہے، جن کا کوئی نظریہ نہیں، جو امریکہ اور یورپ سے ہدایات لیتے ہیں․․․ کہا جاتا ہے کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوتا، اگر کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں تو اس کاایک ہی حل ہے، ملک جمعیت العلمائے اسلام کے حوالے کردیا جائے، ہم اسے اسلامی فلاحی ریاست بنا دیں گے، ہم امن کی بات کرتے ہیں، قانون اور آئین کی بات کرتے ہیں۔ افسوس کہ مدارس میں پڑھنے والوں کو دہشت گرد کہا جاتا ہے، سوال تو ہمارا ہے، ہمارے نوجوانوں کے کندھوں پر بندوق کس نے رکھی؟ ملک میں ستّر سال سے مولویوں نے حکمرانی نہیں کی ․․․‘‘۔

مولانا فضل الرحمن اصلی سیاستدان ہیں، وہ سوال کرنے والے کو لاجواب کردیتے ہیں، مدلل گفتگو ان کی تربیت اور وراثت کا حصہ ہے۔یہاں ان کی پوری گفتگو جہاں سوال طلب ہے، وہاں جواب طلب بھی ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ انہوں نے حکومت نہیں ملک مانگا ہے، ورنہ یہی کچھ ہوتا ہے کہ ملک توا پنی جگہ پر موجود ہے، مگر حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ اگر ملک ہی مولانا کے حوالے کردیا جائے تو تب وہ اس سے کرپشن ختم کریں گے اور اگر انہیں حکومت دی جائے تو کرپشن ختم ہونے کی کوئی ضمانت نہیں، کیونکہ انہوں نے حکومت کا تقاضا ہی نہیں کیا۔ یہاں یہ اندازہ لگانا بھی کافی مشکل ہے کہ انہوں نے یہ مطالبہ کس سے کیا ہے؟ اگر حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے تو حکومت اگر ملک مولاناکے حوالے کردے، تو خود کس پر حکومت کرے گی؟ یعنی حکومت کرنے کے لئے اس کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ اور اگریہ مطالبہ عوام سے کیا گیا ہے تو عوام کے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں، ایک ووٹ کا حق ہوتا ہے، وہ بھی اکثریت اپنی مرضی سے نہیں دیتی، کسی دباؤ، کسی لحاظ، کسی لالچ یا کسی مفاد میں ہی ایسا کیا جاتا ہے۔ عوام کے ہاتھ میں تو اشیائے ضرورت کی قیمت بھی نہیں ہوتی۔ نہ وہ روزگار اور وسائل پر قادر ہیں، اس لئے عوام سے ایسی چیز مانگنا جو وہ دے ہی نہ سکیں، کیا فائدہ؟ اگر ملک لینے کی خواہش کسی اور طاقت کی طرف سے ہے تو پھر کچھ کہا نہیں جاسکتا۔

مولانا کی یہ بات درست ہے، کہ ستر سال میں مولویوں کو حکومت نہیں ملی، مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ مولویوں کو جزوی حکومت کئی مرتبہ ملی، مگر نتیجہ وہی روایتی سیاستدانوں والا ہی رہا، کوئی خاص تبدیلی نہ آئی، اگر آئی ہوتی تو اس کے اثرات تادیر برآمد ہوتے رہتے۔ اگر سادگی اختیار کرنے کے لئے ہی کچھ قانون بنائے ہوتے تو بھی بعد میں کام آتے، اگر تعلیمی ادارے قائم کئے ہوتے توشرح خواندگی میں نمایاں فرق ہوتا، اگر فلاحی ریاست بنانے کے اقدامات کئے ہوتے تو اس فلاح میں عوام کو بھی کچھ حصہ ملتا۔ مشرف دور میں خیبر پختونخواہ کی حکومت ایم ایم اے کے پاس تھی، قومی اسمبلی میں بھی علماء حضرات ایک قابلِ ذکر تعداد میں موجود تھے، مگر قوم کے سامنے پیش کرنے کے لئے اپنے دفترمیں کوئی کارکردگی ہے تو سامنے لائی جائے۔ اگر اس دور میں ترقی برق رفتاری سے اپنی منازل طے کر رہی تھی تو اس کے اثرات کیا ہوئے؟ مولانا تو ہمیشہ ہی اپنی سیاسی سوچ اور صلاحیت کی وجہ سے حکومت میں ہی رہے ہیں، خواہ پی پی کا دور ہو یا مسلم لیگ ن کا۔ یہ ہنر بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے کہ وہ ہر جگہ پر فِٹ آجاتے ہیں، مولانا اس ہنر سے خوب آشنا ہیں۔ تو کیا یہ بتایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی وزارتوں کی حد تک کیا اصلاحات کی ہیں، یا اُن کے وزیر بھی نمک کی کان میں نمک ہو جاتے ہیں۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428095 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.