مشہور گلوکار اورنعت خواں جنید جمشید (مرحوم ) کی یاد میں

قومی نغمہ ’’دل دل پاکستان‘‘ گا کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے جنید جمشید نے نعت خوانی میں بھی بے پناہ مقبولیت حاصل کی ۔
 مشہور گلوکار اور نعت خواں جنید جمشید 3 ستمبر1964 کو کپٹین اکبرخان کے گھر کر اچی میں پیدا ہوئے ، جنید جمشید کے والد ائر فورس میں کپیٹن تھے اورفوج سے نسبت کی وجہ سے وہ اپنے بیٹے کو ائر فورس میں پا ئلٹ بنانا چاہتے تھے اس مقصد کے لئے جنید جمشید نے لاہور کی یو نیو رسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنا لو جی سے ٹیکنیکل انجینئرکی ڈگری حاصل کی اور بعد میں پاکستان ائر فورس میں سویلین کنٹر یکٹر کے طور پر ملازمت حا صل کی لیکن انہیں شروع سے ہی میوزک اور گلوکاری سے بہت زیادہ لگاؤ تھا اور اسی شوق نے ان کو ایک عام آدمی سے پاکستان کا مشہور گلوکار بنا ڈالا ،جنید جمشید نے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیئے جب 1983 میں پہلی مر تبہ راک سنگر کے طور پر یو ینورسٹی میں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا تو شرکاء نے بہت پسند کیااور پھرچند دوستوں کے ساتھ مل کرانہوں نے ایک میو زیکل گروپ بنایا کچھ سا لوں کی محنت رنگ لے آئی اور 14اگست 1987 ء کو پا کستان کے یو م آزادی کے دن وطن سے محبت کا اظہار’’ دل دل پا کستا ن جا ن جان پا کستا ن‘‘ جیسا سدا بہار ملی نغمہ گا کر کیا ،یہ ملی نغمہ اتنا مشہور ہو ا کہ اس وقت سے لے کر آج تک عوام میں مقبول ہے اور ہر جگہ بہت شوق سے سنا جاتا ہے جبکہ اس قومی نغمے کا شمار دنیا کے بہترین قومی نغموں میں کیا جاتا ہے۔ جنید جمشید کا وائٹل سائنس گروپ مسلسل کا میابیوں کی وجہ سے چھا یا رہا ،جنید جمشید نے اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے اپنے میوزیکل گروپ کے ذریعے پاکستا ن میں پا پ میو زک کو بام عروج تک پہنچانے میں اہم ترین کردار اداکیا۔

نغمہ نگاری اورگلوکاری جنیدجمشید کے رگ رگ میں سمائی ہوئی تھی،کالج کے دنوں میں بھی کیمپس کے شوز میں ہمیشہ حصہ لیا کرتے تھے۔جنیدجمشیدکوشہرت کی بلندی اس وقت نصیب ہوئی جب ان کی ملاقات وائٹل سائنز Vital Signs کے محرک راحیل حیات اور شہزاد حسن سے ہوئی۔ جنید جمشید کی آمد اس گروپ میں لیڈسنگرکی حیثیت سے ہوئی۔اس گروپ کے ذریعے جنیدجمشیدنے اپنی صلاحیتوں سے پاکستان میں پاپ میوزک کو بام عروج تک پہونچا دیا۔ 1987 کے بعد پاکستان کے گھر گھر میں جنید جمشید کا گایا ہوا نغمہ دل دل پاکستان سنا جانے لگا ،ایک طویل عرصہ گزرجانے کے بعد بھی اس نغمے کی مقبولیت میں آج بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

1994 ء میں جنید جمشید نے اپنا پہلا سولو البم نکالا جس نے آتے ہی پا کستا ن کے ساتھ پوری دنیا میں بھی دھو م مچا دی یہ جنید جمشید کی زندگی میں عروج کا آغاز تھا جس کے بعد انہوں نے اپنے میوزیکل گروپ سے الگ ہوکر بہت جلد اپنی ایک علیحدہ شناخت قائم کرلی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ نوجوانوں کے پسندیدہ ترین گلوکار بن گئے ۔دولت ،عزت اور شہرت نے گلوکاری کے میدان میں جنید جمشید کو بہت تیزی کے ساتھ وہ مقام عطا کر ڈالا جسے حاصل کرنے کے لیئے لوگوں مدتوں انتظا ر کرتے ہیں لیکن جنید جمشید اتنی زیادہ شہرت پا نے کے باوجود بھی اپنی زندگی سے مطمئن نہ تھے اور ہمیشہ اس چیز کو محسوس کر تے تھے کے ان کی زندگی میں کسی چیز کی کمی ہے انہوں نے کچھ سال قبل ایک ٹی وی پروگرام میں بتایا تھاجب وہ گلو کاری کے فن میں عروج پر تھے تو وہ گھٹن محسوس کر تے تھے اور اپنی زندگی کو کسی کمی کی وجہ سے ادھورا سمجھتے تھے شاید یہ گھٹن یہ غیر مطمئن ہو نے کی کیفیت اور تڑپ وہ ہد ایت تھی جس نے ان کے دل میں ہدایت کی روشنی پہنچادی اور پھر مو لانا طارق جمیل سے ہو نے والی اتفاقیہ ملاقات نے جنید جمشیدکی دنیا ہی بدل ڈالی اور وہ اچا نک مو سیقی کی دنیا کو خیر باد کہ کر دعوت و تبلیغ کے راستے پرچل نکلے اور آخر کار2004ء کے بعد جنید جمشید تبلیغی جماعت سے وابستہ ہو گئے جنید جمشید کو اچانک اپنا پیشہ( جس کی بنیاد پر ان کو عزت ،شہرت اور دولت ملی تھی) چھو ڑ نے سے مالی پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ،ان پر تنقید کے نشتر بھی چلائے گئے لیکن جنید جمشید نے ہمت نہ ہا ری اور مالی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیئے ایک دوست کے تعاون کے ساتھ مل کر ’’جے جے ‘‘کے نام سے سلے ہوئے کپڑوں کا اپناکاروبار شروع کیا جو جلد ہی فیشن برانڈ بن گیاجس کی شہرت پورے پاکستان میں پھیل گئی اور جے جے کے نام سے ان کے پاکستان کے ہر بڑے شہر میں دکانیں کھل گئیں جنہوں نے انہیں بہت جلد مالی طور پر کافی مستحکم کرڈالا لیکن کاروبار میں کامیابی کے باوجود جنید جمشید مسلسل تبلیغ کی راہ میں چلتے رہے اور اپنے مسلما ن بھا ئیوں کو خدا کی راہ پر لا نے کی جستجو کر تے رہے وہ لوگوں کو اپنی آخرت سنوارنے کے لئے تبلیغ کرنے کے ساتھ غریب نادار اورمفلس بھا ئیوں کی امداد بھی کیا کرتے تھے جبکہ موسیقی و گلوکاری کی دنیا چھوڑنے کے بعد انہوں نے حمد ثناء اور نعتیں پڑھنا شروع کردیں اور ساتھ ہی فلاحی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا شروع کردیا اور مختلف سماجی تنظیموں کے ہمراہ گلیوں اورسڑکوں کے کچرے صاف کرنے کی مہم میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ جنید جمشید کا نام دنیا کی 500با اثر مسلما نوں کی شخصیات میں شا مل تھا جنید جمشید تما م طبقات میں مقبول تھے جس کی وجہ سے ان کادینی علماء کے علاوہ اداکاروں ،کھلاڑیوں ،ٹی وی انیکروں، صحافیوں اورسیاست دانوں سے بھی میل جول بہت اچھا تھا جس طرف بھی جاتے سب میں گھل مل جا تے اور مذہبی اور لبرل طبقے کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتے تھے جس سے وہ درس تبلیغ کا پیغام اس لبرل طبقے تک لے جا تے تھے جسے عام طور پر مذہبی معاملات سے زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی ۔

پاکستانی ایر لائنز کا طیارہ چترال سے اسلام آبادکی طرف پروازکرنے کے بعد حویلیاں کے قریب ایبٹ آباد کی پہاڑیوں سے ٹکڑا کر پاش پاش ہوگیا۔ اس حادثے نے برصغیر ہندوپاک کے لاکھوں دلوں کو مغموم کردیاکہ اس حادثے میں مداح رسول جنید جمشید بھی شہید ہوگئے ہر آنکھ اشکبار ہوگئی، ہر کوئی جنید جمشید کے اخلاق حسنہ کو یاد کرکے رو پڑا، 7دسمبر2016 کو ان کی اچانک فضائی حادثے میں شہادت کی وجہ سے ان کی موت پر ہر آنکھ اشک بار تھی ہر دل غم ذدہ تھا ہر چہرے پر اداسی چھا ئی ہو ئی تھی جس دن جنید جمشیدکی نما ز جنا ز ہ اداکی گئی ااورو تدفین کی گئی تواس دن جنید جمشید کے جنازے کو دیکھ کر رشک آرہا تھاکہ ایسی دھوم دھمام سے اس دنیا سے رخصتی تواﷲ اپنے پیا رے بند وں کو عطاء کرتا ہے اور ایسے نیک لوگ مرنے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں جیسے آج جنیدجمشید دلوں میں زندہ ہے –

جنید جمشید کے پہلے سولوالبم نے پاکستان کے میوزک گروپ اور موسیقی کے دلدادہ افراد کے دلوں میں ہلچل پیدا کردی ۔ایک زمانہ تک نوجوان دلوں کی دھڑکن بنے رہنے والے جنید جمشید کے دل کی دنیا اس وقت بدل گئی جب اْن کی اتفاقیہ ملاقات مولانا طارق جمیل سے ہوئی۔ میڈیا پر چھا جانے والے جنیدجمشید اچانک منظر سے اوجھل ہوگئے، اسلام کی لذت حاصل ہوئی پھرانہوں نے کبھی دوبارہ عارضی دنیا کی فانی خوشی کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا،2004 کے بعد تبلیغی جماعت سے وابستگی نے انہیں بالکل بدل کررکھ دیا ، راستہ بدلنے کے بعد پیش آنے والی تمام تر پریشانیوں اور تنقید کے باوجود انہوں نے اسلامی تعلیمات اور علما سے اپنا تعلق ختم نہیں کیا ۔علماء سے اس قدر لگاؤاور تعلق تھا کہ وہ اکثر یہ بات کہا کرتے تھے کہ:’’ عوام جب تک علماء سے نہیں ملے گی تعلق نہیں بنائے گی، معاملہ حل ہونے والا نہیں ہے‘‘۔

جنید جمشید نے ایک گلوکار کے طور پر ملک گیر بلکہ بین الاقوامی شہرت حاصل کرکے بے پناہ عزت ،شہرت اور دولت کمائی ۔’دل دل پاکستان، جاں جاں پاکستان‘، نغمے نے جنیدجمشید کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا،ہر جانب اس نغمے کی دھوم تھی۔ جنیدجمشید کا وائیٹل سائنز گروپ اختلافات کے باعث ٹوٹ گیا لیکن جنید جمشید دھن کے پکے تھے ، اب وہ اکیلے ہی گانے گانے لگے ، ان کے گائے ہوئے نغمے اور گانے مقبول ہوتے رہے۔ اسی دوران ان کا ایک اور گانا’ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتیں گے‘ آیا جس نے جنیدجمشید کو مقبولیت کے اعلیٰ درجہ پر پہنچا دیا۔ ان کا پہلا ایلبم ’’اس راہ پر‘‘ جاری ہوا، سولو ایلبم ’’تنہائی‘‘ 1995میں جاری ہوا۔ 2000نے جنید جمشید کے دل میں مختلف انداز سے دستک دی،ان کا دل مغربی موسیقی سے اچاٹ ہو گیا تھا وقت گزرتا رہا حتیٰ کہ 2004 آگیا ، اور وہ میوزک کو چھوڑ کر مذہب کی جانب راغب ہوگئے۔ بے چینی کی کیفیت اور پریشانی انہیں ایک ایسی تبدیلی کے جانب لے جارہی تھی کہ جس سے انہیں سکون ملا، راحت ملی، شہرت ملی، ان کا یہ عمل اوروں کے لیے قابل تقلید مثال بنا اور وہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جانے لگے۔ وہ موسیقی سے تائب ہوگئے، اورتبلیغ کی راہ اپنا لی، انہوں نے اپنا حلیہ بھی مجسم تبدیل کر لیا تھا ، موسیقی اور گلوکاری سے دلچسپی ان کے اندر موجود رہی لیکن انہوں نے اپنے اس شوق کی تکمیل کے لیے اس بار نعت گوئی کا سہارا لیا اور وہ نعتیں پڑھنے لگے، جیسے ان کے گانے اور نغمے مقبول ہوئے تھے اسی طرح ان کی نعتیں بھی مقبول ہوئیں۔ ان کی پہلی نعت ’محمد کا روضہ قریب آرہا ہے ‘ تھی جسے بہت زیادہ پسند کیا گیا، اس کے ساتھ ہی ان کی نعت ’جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے‘، ’اے رسول امین خاتم المرسلین‘،’ قصیدہ بردہ شریف ‘ اور دیگر نعتیں بھی بے حد مقبول ہوئیں اسی دوران انہوں نے بوتیک کا کاروبار شروع کیا اور ’’جے جے ‘‘ کے نام سے بوتیک متعارف کرایا، ان کی بوتیک کے کپڑے بہت معیاری ہونے کے ساتھ مہنگے بھی ہوتے ہیں لیکن ان کو صاحب ثروت لوگ بہت شوق سے خریدتے ہیں،یہ ان کا کاروبار تھا،جنید جمشید نعتیں پڑھنے کے ساتھ مختلف ٹی وی چینلز پر مختلف مذہبی پروگرام بھی کرنے لگے ، وہاں بھی انہیں پذیرائی ملی اور وہ ایک مقبول ٹی وی میزبان کے طور پرپہچانے جانے لگے، خاص طور پر رمضان المبارک میں سحری اور افطار کی نشریات اور مختلف مذہبی تہواروں پر خاص پروگرام کیا کرتا تھے۔جنید جمشید کی خدمات پر حکومت پاکستان نے انہیں تمغہ امتیاز سے بھی نوازا تھا۔جنید جمشید خدا داد صلاحتوں کے مالک انسان تھے۔ موسیقی اور گلوکاری کی دنیا چھوڑ کر پرہیز گاری کی جانب ان کا سفر آسان نہیں تھالیکن وہ نیکی کے راستے پر اپنے آخری لمحات تک گامزن رہے۔

جنید جمشیدجنہوں نے تقریبا 20سال قبل اپنی جوانی کے عروج پرموسیقی کی دنیا کو چھوڑ کر انسانوں کی فلاح او دعوت وتبلیغ کا راستہ چنا۔ میوزک کو چھوڑ نے کے باعث ان کی کمائی کا ذریعہ نہ رہا لیکن اﷲ نے انہیں گارمنٹس کے کام میں بے پناہ برکت دی ۔ جنید جمشید 10دن کیلئے چترال گئے تھے۔ واپسی پر شہادت نصیب ہوئی۔ جنید جمشید نے 2007ء سے 2016ء تک 10 سے زائدحج کئے۔ اﷲ تعالی ٰنے انہیں دین اور دنیا میں وہ مقام عطافرمایا جو رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔ جنید جمشیدکی شہادت کی اچانک خبر پورے ملک کو سوگوار کر گئی جنید جمشید بہت ہی اچھے انسان تھے گلوکاری ترک کرنے کے بعد مذہبی خدمات سر انجام دینے کے ساتھ جنید جمشید نے فرقہ واریت کے خاتمے کا مشن بھی جاری رکھااور اسلام کی تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیا اور تمام مسلمانوں اور پاکستانیوں کو متحد کرنے کی کوشش کرتے رہے ، وہ بہت اچھی اور دلوں کو مسحور کرنے والی آواز میں نعتیں پیش کیا کرتے تھے۔ بروز بدھ تین بجکر چالیس منٹ پر گلگت ائر پورٹ سے PK661 نے اڑان بھری تو کسے پتہ تھا کہ یہ اڑان ان مسافروں کی آخری اڑان ثابت ہوگی ، جنید جمشیدجواسلام و پاکستان کی آن اور شان تھے ،تباہ ہونے والے ہوائی جہاز میں وہ اپنی بیوی اور سسر کے ساتھ سوار تھے جو ان کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا اور وہ ہزاروں سوگواروں کو روتا ہوا چھوڑ کراس دارفانی کی طرف کوچ کرگئے جہاں سے کوئی لوٹ کر واپس نہیں آتا۔

جنید جمشید کا دین سے محبت اور لگاؤ اتنا زیادہ تھا کہ اس راستے پر چلنے کے لیئے انہوں نے باقاعدہ جدوجہدکی اور اپنے نفس سے جہاد کیا ۔ کہاں مغربی ثقافت کا دلدادہ جنید جمشید، ہاتھوں میں گٹار، جینز اور شرٹ، گلیمر کی زندگی، رنگینوں کا دور دورہ اور کہاں سنتِ رسول سے روشن چہرہ، درس و تدریس کی محافل، چٹائی کا بستر اور دین اسلام کی تبلیغ کی زندگی بسر کرنے والا جنید جمشید۔یہی وہ چیز تھی جو جنید جمشید کو باقی مسافروں سے ممتاز کرتی ہے، حالانکہ تباہ ہونے والے ہوائی جہاز میں بہت سے نامور اور اہم انسان سوار تھے ،لیکن صرف جنید جمشید کا نام سب سے نمایاں ہونا اِس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص اپنے آپکو اﷲ ا ور اسکے دین کیلئے وقف کر دے پھر دنیا کی ساری عزتیں، توقیریں اور عظمتیں اْسکے گرد حصار بنا کر کھڑی ہو جاتی ہیں، خواہ وہ زندہ ہو یا موت کی دہلیز پار کر چکا ہو۔ جب ان کا انتقال ہواتو وہ اﷲ کی راہ میں نکلے ہوئے تھے۔ سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت حاصل کرنے والے خوش قسمت انسان جنید جمشیدکی شہادت کی اچانک خبر پورے ملک کو سوگوار کر گئی ،جنید جمشید اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔ اﷲ تعالیٰ انکو جنت الفر دوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور طیارہ حادثہ میں شہید ہونے والے تمام مسلمانوں کی مغفرت فرمائے۔(آمین)

بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار اورنعت خواں جنید جمشید کی خواہش تھی کہ انھیں جامعہ دارلعلوم کراچی کے قبرستان میں دفن کیا جائے اور شہیدکی خواہش کے مطابق انھیں اسی جگہ دفن کیا گیا۔ ان کے جنازے اور تدفین میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد میں شرکت یہ بات ثابت کرتی ہے کہ وہ ایک اچھے انسان تھے جن کے یوں اچانک شہید ہوجانے کا غم ہر پاکستانی نے محسوس کیا جس کی وجہ سے ان کا جنازہ کراچی لوگوں کی شرکت کے لحاظ سے ایک بہت بڑا جنازہ تھااور یہ اعزاز شاید جنید جمشید کو اﷲ تعالیٰ نے ان کو گناہ کی دنیا سے نیکی کی دنیا کی طرف ہجرت کرنے اور پھراس ہجرت پر اپنی موت تک قائم رہنے کی وجہ سے عطافرمایا ۔ جنید جمشید موسیقی کی دنیا سے بیزار ہو چکے تھے یہی وجہ تھی کہ وہ دعوت وتبلیغ کے پلیٹ فارم سے نوجوانوں کو دین اسلام کی شب وروز دعوت دینے میں مصروف رہا کرتے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے پاکستان سمیت دنیا بھرکے تبلیغی دوروں کیئے جس کے دوران ہزاروں لوگوں نے جنید جمشیدکے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور لاکھوں مسلمان نوجو انوں نے آپ کی دعوت سے متاثر ہو کر گناہ کی دنیا کو ترک کیا۔

جنید جمشیدایک بہترین انسان ، بہترین گلوکاراوربہترین نعت خواں ہونے کے ساتھ اخلاق حسنہ کاایسا پیکرتھے جن کو دیکھ کر بہت سے لوگوں نے ہدایت کی روشنی حاصل کی، وہ اتنی جلدی ہم سے جدا ہوجائیں گے یہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا ، ’’دل دل پاکستان‘‘ سے شروع ہونے والاجنید جمشید کا سفر’’ محمد کا روضہ قریب آرہا ہے ‘‘پرآکریوں اچانک ختم ہوجائے گاکسی نے سوچا نہیں تھا لیکن زندگی اور موت کے فیصلے اﷲ کے ہاتھ میں ہیں اور وہ بہتر فیصلے کرنے والا ہے۔ آج جنید جمشید ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن ان کی یادیں کیسے فراموش کی جاسکتی ہیں کہ انہوں نے جس طرح کی زندگی بسر کی ہے وہ ہمارے لئے اخلاق حسنہ کا بہترین نمونہ ہے کہ دنیاکی تمام ترنعمتوں کو ٹھکرا کردعوت وتبلیغ کے راستے میں نکل کر مسجدوں کی چٹائیوں اور مدرسوں کی تپائیوں پر بیٹھ کر قران وحدیث کی باتیں کرنا ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا اور نہ ہی لوگ اس ثابت قدمی کے ساتھ نیکی کے راستے پر گامزن رہتے ہیں جس طرح جنید جمشید موسیقی کی دنیا کو خیر باد کہنے کے بعد دعوت وتبلیغ کے راستے پر اپنی شہادت تک چلتے رہے۔یہ سعادت اور ایسی شہادت دنیا میں کم لوگوں کوملتی ہے۔ آخر میں دعاء ہے کہ اﷲ تعالیٰ جنید جمشید کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (آمین)
Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 125615 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More