ملک چلانے والے پاکستان کی قدر کریں!

قائد اعظم نے سرکاری تنخواہیں پانے والوں کو عوام کا خادم قرار دیا تھا۔لیکن بدقسمتی سے سرکاری تنخواہیں پانے والوں نے اپنے لئے شاندار زندگی اورتابناک مستقبل کو یقینی بناتے ہوئے عوام کو دوسرے ،تیسرے درجے کی مخلوق بنا رکھا ہے۔ ملک کو چلانے والوں کو پاکستان کی قدر کرنی چاہئے اور ایسی راہ اپنانی چاہئے جس سے غلطیوں کا اعتراف اورملک کو حقیقی طور پر مضبوط و مستحکم کرنے کا انتخاب کیا جا سکے۔

ایک عالمی ادارے کی نئی رپورٹ میں پاکستان میں سرکاری سطح پہ کرپشن ،بد انتظامی کی بھیانک لیکن حقیقت سے قریب صورتحال بیان کی گئی ہے۔رپورٹ میں عوامی رائے عامہ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں پولیس، عدالتوں اور یوٹیلٹی سے متعلق محکموں میں بدترین کرپشن اور بد انتظامی پائی جاتی ہے۔اسی طرح پاکستان میں نچلی سطح سے اوپر تک سیاسی افراد کو بھی بدعنوان قرار دیا گیا ہے۔اسی طرح اس عالمی رپورٹ میں پاکستانی تاجر وں اور مذہبی رہنمائوں کی کرپشن کی بھی ایک اہم گواہی پیش کی ہے۔افسوسناک طور پر ایشیا پیسفک کے تمام ممالک میں پاکستان کے شہری سب سے زیادہ تعداد میں خود کو بے اختیار تصور کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رشوت دینے والوں میں 64 فیصد غریب اور 26 فیصد امیر افراد شامل ہیں۔

ایک اہم عالمی ادارہ کی یہ رپورٹ پاکستان میں سرکاری سطح کی کارکردگی اور عوام کی بری حالت کی تصویر پیش کر رہی ہے۔ملک کا اتحکام اور ترقی اسی صورت ممکن ہے کہ ملک میں آئین و قانون کی حقیقی بالادستی کو یقینی بنانے کی راہ اپنائی جائے،سرکاری سطح کی کارکردگی کو شہریوں کے مفاد میں کرپشن اور بد انتظامی سے پاک کرنے کے اقدامات کئے جائیں، خاندانی،علاقائی اور فرقہ وارانہ گروپوں پر مشتمل سیاسی جماعتوں میں مفاداتی چلن کی حوصلہ شکنی اور حقیقی سیاسی تقاضوں کو پورا کیا جائے تا کہ ہماری سیاسی جماعتیں طاقت کے سامنے سرنگوں ہو کر '' بار گینگ'' کرتے ہوئے عوامی اور ملکی مفادات کا سودا بار بار نہ کرتی رہیں اور ملک د عوام کے مفاد میں پارلیمنٹ کی حقیقی بالادستی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے قابل ہو سکیں۔ملک میں یکساں معیار کی معیاری تعلیم اور علاج کی اچھی سہولیات فراہم کی جائیں،پر تعیش، شاہانہ سرکاری مراعات کے چلن کا خاتمہ کیا جائے،پاکستان کے ہر علاقے کے شہریوں کے حقوق کو یکساں اہمیت دی جائے،ملک سے طبقاتی بنیادوں پر مفادات کی تقسیم کو ختم کیا جائے(میرے خیال میں یہ ملک کے لئے مہلک ترین خطرات کا ایک بڑا موجب ہے)۔پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی باکردار ،پرفخر قیادت میں عوامی جدوجہد سے معرض وجود میں آیا اور قائد اعظم نے سرکاری تنخواہیں پانے والوں کو عوام کا خادم قرار دیا تھا۔لیکن بدقسمتی سے سرکاری تنخواہیں پانے والوں نے اپنے لئے شاندار زندگی اورتابناک مستقبل کو یقینی بناتے ہوئے عوام کو دوسرے ،تیسرے درجے کی مخلوق بنا رکھا ہے۔ ملک کو چلانے والوں کو پاکستان کی قدر کرنی چاہئے اور ایسی راہ اپنانی چاہئے جس سے غلطیوں کا اعتراف اورملک کو حقیقی طور پر مضبوط و مستحکم کرنے کا انتخاب کیا جا سکے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل برلن کے گلوبل کرپشن بیرومیٹر سروے برائے ایشیا پیسفک ممالک 2016 کے مطابق 70 فیصد پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ ان کا جب پولیس اور عدلیہ سے واسطہ پڑا تو انہیں رشوت دینی پڑی۔ عوامی رائے عامہ کے جائزے کی بنیاد پر جاری ہونے والی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر پاکستان میں رشوت کی شرح 40 فیصد ہے۔ پاکستان میں خدمات استعمال کرنے والے اداروں کو جو رشوت دیتے ہیں اس کے مطابق 75 فیصد افراد پولیس کو، 68 فیصد عدالتوں کو، 61 فیصد سرکاری پانی، صفائی یا بجلی کے محکموں کو، 38 فیصد شناختی دستاویزات ، ووٹرز کارڈ، حکومت کے پرمٹ بنانے والے اداروں کو، 11 فیصد سرکاری کلینک یا اسپتالوں اور 9 فیصد افراد سرکاری اسکولوں کو دیتے ہیں۔اداروں میں رشوت کے حوالے سے تاثر کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 76 فیصد افراد کے خیال میں پولیس بدعنوان ہے، 62 فیصد کا کہنا ہے کہ ٹیکس حکام، 59 فیصد کا کہنا ہے کہ سرکاری افسران، 54 فیصد کے خیال میں ارکان پارلیمنٹ کرپٹ ہیں، 52 فیصد کا خیال ہے کہ مقامی بلدیات کے کونسلرز کرپٹ ہیں، یہی خیال وزیراعظم کے دفتر کے بارے میں 44 فیصد افراد کا ہے، 44 فیصد کے ہی خیال میں کاروباری افراد کرپٹ ہیں،42 فیصد روایتی رہنمائوں کو کرپٹ کہتے ہیں، 41 فیصد کا کہنا ہے کہ ججز اور مجسٹریٹ کرپٹ ہیں اور 35 فیصد کے خیال میں مذہبی رہنما کرپٹ ہیں۔ رپورٹ کہتی ہے کہ گزشتہ برس بدعنوانی کی سطح کے بارے میں تصورات کی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان میں 35 فیصد افراد کا خیال تھا کہ اس میں اضافہ ہوا ہے، 31 فیصد کے خیال میں بدعنوانی کی سطح وہی ہے جو گزشتہ برس تھی جبکہ 29 فیصد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بدعنوانی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ 2013 کی رپورٹ سے مقابلہ کیا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت صرف 8 فیصد افراد کا خیال تھا کہ بدعنوانی میں کمی ہوئی ہے، 19 فیصد کا خیال تھا کہ یہ بدعنوانی کی سطح جوں کی توں ہے جبکہ 72 فیصد افراد کا خیال تھا کہ 2012 کے مقابلے میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔ رائے عامہ کا جائزہ لیتے ہوئے لوگوں سے سروے میں سوال کیا گیا کہ حکومت میں کرپشن کے خلاف موجودہ حکومت کی کارکردگی اچھی ہے یا بری؟ تو 45 فیصد کا خیال تھا کہ حکومت کی کارکردگی اچھی ہے جبکہ 54 فیصد کا کہنا تھا کہ کرپشن کے خلاف حکومتی جدوجہد اچھی نہیں۔ پاکستان میں 40 فیصد لوگوں کو رشوت دینی پڑتی ہے جس سے سب سے زیادہ غریب متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں رشوت دینے والوں میں 64 فیصد غریب اور 26 فیصد امیر افراد شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مختلف ممالک میں جب لوگوں سے پوچھا گیا کہ کیا وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ کرپشن کے خلاف جنگ میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں تو ایشیا پیسفک کے خطے کے لوگوں کی اکثریت نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو بااختیار محسوس کرتے ہیں اور کرپشن کے خلاف جنگ میں فرق پیدا کر سکتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستانی شہریوں کی بہت کم تعداد خود کو بااختیار محسوس کرتی ہے جو 33فیصد ہے۔ یہ شرح سروے کیے جانے والے تمام ممالک کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 768 Articles with 609560 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More