شہاب ثاقب

ڈاکٹر مشاہدرضوی کی مطبوعہ تالیف ''ستاروں پر کمند '' سے ماخوذ

گرمیوں کی صاف راتوں میں کبھی کبھار آپ نے دیکھا ہوگا کہ آسمان سے ایک تارا ٹوٹا اور ایک طرف روشنی کی تیز لکیر چھوڑتا ہوا غائب ہوگیا۔ یہ روشنی کی لکیر بنانے والی چیز شہاب ثاقب یا میٹیور ہے۔ شہاب کے معینی ہیں ٹوٹنے والا ستارہ اور ثاقب کے معنی ہیں روشن۔ گویا شہاب ثاقب کے معنی ہوئے ٹوٹنے والا روشن ستارہ، دراصل شہاب ثاقب ستارے نہیں اور نہ یہ ستاروں کی طرح خود سے روشن ہیں بلکہ جب یہ ہوا سے رگڑ کھا کر جل اٹھتے ہیں تو روشنی دیتے ہیں، جو شہاب ثاقب ارجی فضا میں سے گزر کر زمین پر آگریں‘ انہیں شہابیے یا میٹیورائٹ کہتے ہیں۔

زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور اگر کوئی شہاب ثاقب اس کے پاس سے گزرتا ہے تو وہ اسے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ جیسے ہی یہ زمین کی طرف گرتا ہے تو ہوا سے رگڑ کھا کر چالیس میل کی بلندی پر ہی جل کر راکھ ہوجاتا ہے، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ یہ مکمل طور پر جل کر راکھ نہیں ہوتے اور زمین پر آگرتے ہیں۔
دنیا کے بہت سے عجائب گھروں میں شہاب ثاقب موجود ہیں جو دنیا کے مختلف ملکوں میں پڑے پائے گئے ہیں۔ سائنسدانوں نے انہیں دیکھا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ شہاب ثاقب میں تقریباً وہی دھاتیں اور چٹانیں مادہ ملتا ہے جو ہماری زمین پر پایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات میں ہماری زمین جیسی اور دنیائیں بھی موجود ہیں۔

ہمیں رات کے وقت جو ٹوٹا ہوا ستارہ نظر آتا ہے۔ وہ دراصل شہاب ثاقب کے جلنے سے پیدا ہونے والی تیز روشنی ہوتی ہے جو ہم سے تقریباً ستر میل دور دو ہزار سات سو میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ اس زبردست رفتار کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شہاب ثاقب ہوا کے ساتھ رگڑ کھا کر جل بھن کر راکھ ہوجاتا ہے کیوں کہ اس کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔ بہت کم شہاب ثاقب ہماری زمین پر صحیح سالم پہنچتے ہیں، اگر آتے بھی ہیں تو ٹکڑے ہو کر۔

انیس سو ترانوے میں کینیڈا اور امریکا میں اتنے شہاب ثاقب گرے کہ ان کا شور دور دور تک سنائی دیا اور لوگ خوف و حیرت سے دم بخود ہوگئے۔ اس سے پہلے اٹھارہ سو چھیتر میں شروپ شائر میں ایک بہت بڑا شہاب ثاقب گرا جو اس وقت برطانیہ کے عجائب گھر میں موجود ہے۔ یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ انسان نے سب سے پہلے شہابیوں کا لوہا بھی استعمال کیا تھا۔ زمین سے لوہا نکالنے کا فن تو انسان نے بعد میں سیکھا، چھوٹے شہابیوں میں پتھر ک علاوہ تقریباً دس فیصد لوہا بھی شامل ہوتا ہے اور کچھ نکل بھی، بعض اوقات ان میں پلاٹینم، سونا اور ہیرا بھی موجود ہوتا ہے۔ امریکا میں سب سے بڑا شہاب ثاقب انیس سو دو میں دریافت کیا گیا تھا۔ اس کا وزن چودہ ٹن سے زیادہ تھا۔ ایک اور بڑے شہاب ثاقب کا نام ہوا ویٹ ہے جو جنوبی افریقا میں گرا تھا، اس کی شکل مربع جیسی تھی، اس کا طول نو فٹ اور وزن ساٹھ ٹن تھا لیکن اندازہ ہے کہ شروع مین اس کا وزن سو ٹن سے کم نہ رہا ہوگا۔

تیس جون انیس سو آٹھ کو سائبریا (روس) میں انسانی معلومات کی حد تک دنیا کا سب سے بڑا تباہ کن شہابیہ گرا تھا۔ آگ میں لپٹا ہوا ایک بہت بڑا برق رفتار گولا ٹیگا کے جنگلات میں گرا۔ ٹرانس سائبیرین ریلوے لائن کے متعدد مسافروں نے اس کا نظارہ کیا، حالاں کہ وہ اس جگہ سے سینکڑوں میل دور تھا، شہبایے کے گرتے ہی قیامت خیز دھماکوں نے ریل گاڑی کو جھجوڑ کر رکھ دیا۔ دور دور تک زلزلہ پیما آلات نے ایک عظیم زلزلہ ریکارڈ کیا۔ دھماکوں کی آواز سوا چھ میل کے دائرے میں سنی گئی۔ سائبیریا میں ہزاروں رینڈئر (قطبی نسل کے پالتو ہرن) ہلاک ہوگئے اور سینکڑوں خانہ بدوش اپنے خیموں سمیت اڑ کر دور دور جاگرے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ شہابیے کا ملبہ کہیں نہ ملا، تاہم جہاں گولہ گرا تھا، وہاں دلدلی زمین میں سینکڑوں بڑے بڑے سوراخ تھے بعض لوگ یہاں شہابیے کا گرنا تسلیم نہیں کرتے بلکہ بعض تو اسے ایٹم بم کی تباہ کاری خیال کرتے ہیں حالاں کہ انیس سو آٹھ میں انسان ابھی ایٹمی سائنس کی ایجاد سے بھی واقف نہیں تھا۔ شاید سارے کا سارا شہابیہ زمین پر گرنے کے باوجود جل کر راکھ ہوگیا تھا۔ ٭٭٭

Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 594060 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More