سونے کا وزن٬ جھاڑو اور عاقبت اندیشی

امام جلال الدین رومی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک شخص زرگر کے پاس گیا اور اسے کہا کہ مجھے ترازو دو میں نے سونے کا وزن کرنا ہے زرگر نے کہا کہ میرے پاس چھلنی نہیں ہے اس آدمی نے کہا کہ دیکھو مذاق مت کرو میں نے ترازو مانگا ہے چھلنی نہیں مانگی میں نے اپنے سونے کا وزن کرنا ہے مجھے ترازو دو ۔

زرگر نے اس پر جواب دیا کہ میرے پاس جھاڑو نہیں ہے آپ چلے جائیں اس پر اس آدمی نے پیچ و تاب کھاتے ہوئے کہا کہ میں نے جھاڑو کب مانگا ہے میں تو ترازو مانگ رہا ہوں تم بہرے ہو یا مسخرے ہو میرے ساتھ مذاق کیوں کر رہے ہو-

اس پر زرگر نے جواب دیا جناب میں نہ تو بہرہ ہوں اور نہ ہی مسخرہ میں تو آپ کی حالت دیکھ کر انجام کے مطابق جواب دے رہا ہوں ۔ عاقبت اندیشی کا تقاضا یہی ہے ۔ زرگر نے مزید کہا کہ آپ کے ہاتھ میں رعشہ ہے آپ جب اپنے سونے کے زرات ترازو پر رکھیں گے تو وہ ہاتھ کانپنے کی وجہ سے زمین پر مٹی میں گریں گے۔ ان کو سمیٹنے کے لئے آپ کو جھاڑو درکار ہو گی پھر اس مٹی کو اکٹھا کرنے اور سونے کے زرات کو مٹی سے علیحدہ کرنے کے لئے آپ کو چھلنی چاہیے ہو گی۔

چونکہ یہ دونوں چیزیں یعنی جھاڑو اور چھلنی میرے پاس نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ میں آپ کو ترازو دینے سے پس و پیش کر رہا ہوں عقل مند انسان عاقبت پر نگاہ رکھتا ہے اور آنے والے حالات کو نظر میں رکھتے ہوئے انجام کے بارے میں رائے قائم کر لیتا ہے ۔

YOU MAY ALSO LIKE: