وزیر اعلی چڑیا گھر میں

ٹی وی کے مختلف چنلز پر خبر آئی اور پھر آتی ہی چلی گئی کہ سندھ کے محترم وزیر اعلی جناب مراد علی شاہ صاحب نے کراچی کے چڑیا گھر کا دورہ کیا اور چڑیا گھر کے جانوروں کے حالات جاننے کے لئے ان کے ساتھ براہ راست گفتگو کی اور ان کے ساتھ گھل مل گئے۔ انہوں نے چڑیا گھر کے ملازمین کے حیوانوں کے ساتھ حورانی سلوک کا بھی نوٹس لیا۔ مزید براں انھوں نے کراچی کے ناظم اعلی کو ہدایت کی کہ وہ چڑیا گھر کے جانوروں کا خصوصی خیال رکھنے کا بندوبست کریں اور ہو سکے تو اپنا ذیلی دفتر بھی چڑیا گھر کے کسی کٹہرے میں قائم کر لیں۔ بلکہ زیادہ مناسب شاید یہی ہو گا کہ مستقل دفتر چڑیا گھر میں اور ذیلی دفتر ۔۔۔ خیر یہ فیصلہ ناظم اعلی موصوف کی صوابدید پر چھوڑ دیتے ہیں۔

مجھے ٹی وی چینلز کی اس غیر ذمہ داری پر بلکہ جانبداری پر غصہ بھی آیا کہ انھوں نے محترم وزیر اعلی کی مختلف جانوروں کے ساتھ خیرسگالی کے طور پر جگالی کرتے ہوئے اور ڈارون کے رشتہ داروں کے ساتھ کیلے اور مونگ پھلی کھاتے ہوئے سیلفی بنواتے وقت کی رکارڈنگ براہ راست نشر نہیں کیں جبکہ کسی بچہ کی گندے نالے میں لاش تلاش کرنے تک کی کوریج براہ راست دکھاتے رہتے ہیں۔ امید ہے پیمرا ان کے وزیر اعلی کے ساتھ اس ناروا اور جانبدارانہ رویے پر ان کےخلاف بے ضابطہ کروائی کرتے ہوئے ان کے لائسنس منسوخ کر دے گا۔اور محترم وزیر اعلی صاحب اسمبلی میں جانوروں کے استحقاق کے مجروح ہونے کی قرارداد پیش کر کے متفقہ طور پر منظور کرالیں گے۔

خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا لیکن ایساضرور ہو کر رہے گا چاہے جلنے والے کتنا ہی اعتراض کریں۔ میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ اس دور میں بھی جانوروں سےاس درجہ محبت رکھنے والے ہمدرد لوگ پائے جاتے ہیں جو دوکروڑ کی آبادی کے اس شہر میں کچرے کے ڈھیروں اور گٹروں کے ابلتے ہوئے نالوں اور سڑکو ں کے نام پر بنے کھنڈرات کو پھلانگتے ہوئے بھی ڈارون کے کزنز کی فوج کے ساتھ جانوروں کی احوال پرسی کے لیے کشاں کشاں دوڑے آتے ہیں اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے اس قدر فکرمند رہتے ہیں۔ میں پوری دیانتداری کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے ڈارون سے لے کر آج تک کی پوری حیوانی تاریخ میں ایسا کوئی کردار ان کے پاسنگ بھی نہیں دیکھا۔

لوگ اکثر انسان دوستی کو ایک بڑاوصف قرار دیتے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کو اصل بڑائی تو حیوان دوستی میں ہے۔انسان کو تو جس قدر بھی آسانیاں فراہم کردو وہ ذرا سی کمی پر شکوے شکایت شروع کردیتا ہے ، ذرا پینے کا صاف پانی نہ ملے فوراً ڈھنڈورا پیٹنے لگتا ہے۔ذرا کچرا صاف نہ ہو فوراً میڈیا پر آکر تقریریں کرنے لگتا ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ ہو یا دوائوں میں ملاوٹ، ذرا سے گٹر ابل جائیں یا سڑکیں ادھڑ جائیں فوراًشور مچانا شروع کردیتا ہے، اک ذرا دس گھنٹے کے لیے بجلی بند ہو جائے یا گیس کی لوڈ شیڈنگ ہو جائے تو قیامت برپا کر دیتا ہے۔ نرا ناشکرا ہے حالانکہ وزیر اعلی موصوف نے تو حلف اٹھانے کے دوسرے ہی دن چینلز والوں کو بلا کر اسمبلی سے ملحق آرٹس کونسل کے سامنے پانی کھڑا ہونے پر سخت ناراضی کا اظہار کیا اور ٹی وی کیمروں کے سامنے اس وقت تک کھڑے رہے جبتک کہ سڑک صاف نہ ہو گئی۔ اور تو اور نھوں نے کھڑے گھاٹ یہ حکمنامہ بھی جاری فرمادیا کہ کلفٹن اور ڈیفینس کے علاقوں سے کچرا فوراً اٹھایا جائے خواہ اس کے لیے چین سے ہی لوگ بلوانے پڑیں۔ کچرے کے لیے اتنے بڑے شہر میں کیا صرف ڈیفینس اور کلفٹن کے علاقے ہی رہ گئے ہیں؟ جبکہ بےزبان جانوروں کو جس کٹہرے میں رکھو کوئی احتجاج نہیں کرتے نہ تو کبھی انھوں نے بجلی نہ ہونے کا رونا رویا نہ منرل واٹر کی ڈیمانڈ کی ، گٹر ابلنے کی انھیں پروا نہیں ہوتی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے انھیں سروکار نہیں ہےبلکہ ان کے ساتھ تو سیلفیاں بناؤ تو خوش ہوتے ہیں اور شکرگذار نظر آتے ہیں۔اورہمارے محترم وزیر اعلیٰ نے اس نکتہ کو خوب اچھی طرح سمجھا ہے اور اس کے مطابق اپنی حیوان دوستی کوپروان چڑھا کر اپنا زیادہ سے زیادہ وقت جانوروں کی فلاح وبہبود کے لیے وقف کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ امید ہے کہ دوسرے ذمہ داران بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہفتے کے ساتوں دن باری باری چڑیا گھر میں اپنے ڈاروینین کزنز کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گذارنے کی کوشش کریں گے۔
 

قیصر مصطفی
About the Author: قیصر مصطفی Read More Articles by قیصر مصطفی: 2 Articles with 1394 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.