کب ہوش آئے گی؟

ضربِ عضب آپریشن شروع ہونے کے بعدپہلی مرتبہ دس دنوں میں نو دہشتگردی کے حملوں نے ساری قوم کوایک مرتبہ پھرہلا کررکھ دیاہے اوردشمن قوتوں نے اس مرتبہ ملک کے تمام صوبوں میں ننگی جارحیت کاارتکاب کرتے ہوئے ڈیڑھ سوسے زائدمعصوم شہریوں کوشہیداورسینکڑوں کوزخمی کردیاہے ۔ان اندہناک حملوں کاآغازپاکستان کے دل لاہورمیں خون کی ہولی کھیلتے ہوئے پولیس کے دواعلیٰ آفیسرڈی آئی جی ٹریفک احمد متین اورایس ایس آپریشن زاہدگوندل سمیت متعددپولیس اہلکاروں کی جان لے لی۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق افغانستان میں بیٹھے ہوئے احرارنامی جماعت کے خوارجی درندوں نے اپنے بیرونی آقاؤں اور اپنے پاکستانی سہولت کاروں کی مددسے افغان خودکش حملوں کوبھیج کر یہ ناپاک کاروائی سرانجام دی ہے۔یادرہے کہ ان درندوں کی ویب سائٹ ملک دشمن بھارت سے چلائی جارہی ہے اوراسی سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ان کی ڈور کہاں سے ہلتی ہے۔دہشتگردی کے ان واقعات کے بعدفوری طورپر سارے ملک میں ضربِ عضب کے ساتھ ساتھ ''ردّ الفساد''آپریشن بھی شروع کردیاگیاہے جس نے ابتدائی دنوں میں ہی افغانستان کے اندر سرجیکل حملے کے بعددہشتگردوں کے درجن سے زائدٹھکانوں اورسوسے زائددہشتگردوں کوجہنم واصل کردیاہے جس میں لاہور دہشتگردی واقعے کے ماسٹرمائنڈ اوربراہِ راست بھارتی سہولت کاربھی مارے گئے ہیں۔

لاہورکے اہم ترین چوراہے چیئرنگ کراس،جس کی ایک جانب صوبائی اسمبلی کی قدیم عمارت ایستادہ ہے جہاں نئے نئے قوانین بنائے اورپرانے ختم کئے جاتے ہیں۔اسی اسمبلی میں بنائے گئے حالیہ قوانین کے خلاف صوبے بھرمیں ہربل سے ادویہ سازی کرنے والے اطباءاورادویات کی خریدوفروخت سے متعلق تاجر حضرات احتجاج کیلئے اسی قانون سازادارے کے سامنے جمع تھے۔اس چوراہے کی ایک جانب عالی شان واپڈااوردوسری جانب الفلاح کی عمارتیں ہیں اوران کے بالمقابل قیام پاکستان سے پہلے کی تعمیرشدہ قدیمی لاہورکی شان،شاہ دین بلڈنگ اوراس کے سامنے تیسری مرتبہ منتخب وزیراعلیٰ کااعزازپانے والے میاں شہباز شریف کاسیکرٹریٹ ہے۔چوراہے کے بیچ میں پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس کی یاددلانے والاخوبصورت مینارایستادہ ہے جس کے دامن میں قرآن کریم جلوہ ٔ افروزہے۔اس سے چندقدم دوراربوں روپے کی لاگت سے ایم پی ایزکانیاہاسٹل بھی موجودہے جہاں قوم کے نمائندے بڑی ٹھاٹ سے آرام فرماتے ہیں۔

یہ چوراہالاہورشہرکاانتہائی اہم اورحساس سمجھاجاتاہے کہ اسی چوراہے کے قریب ملک کے انتہائی اہم ترین حساس اداروں کے دفاترسے ذرا پہلے پولیس کے ایک اہم مرکز سے ہلال احمربھی متصل ہے جبکہ دوسری جانب مال روڈپر پنج تارے ہوٹلوں کے درمیان پڑنے والاگورنرہاؤس ہے، شہر کی اسٹاک ایکسچینج اورالحمراہال کے نام سے ثقافتی مرکز بھی ساتھ ساتھ جڑے ہوئے ہیں جن کے برابرمیں عالیشان ایوان اقبال ہے،گویایہ سب اہم عمارتوں کے سبب اس چوک کو لاہورکاقلب کہاجاتاہے جوانتہائی اہمیت کاحامل ہے۔اسی اہم پس منظرکی بناء پر دہشتگردوں نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے منتخب کیا لیکن کیا سب اچانک تھا؟خودصوبائی حکومت کے ذمہ دارلوگ اس حوالے سے ریکارڈپرہیں کہ گورنرہاؤس سے چیئرنگ کراس تک دہشتگردی کے خطرے کاپیشگی علم ہوچکا تھاکہ دہشتگرداس علاقے میں خون کی ہولی کھیلنے کیلئے حملہ آورہوسکتے ہیں۔

حساس اداروں کے ذرائع اس امرکی نشاندہی کرتے ہیںکہ پچھلے بیس پچیس دنوں سے کم ازکم تین مرتبہ خطرے کے الرٹ جاری کئے گئے تاکہ حکومت اور پولیس سیکورٹی کے انتظامات کوبہتربنالیں۔اس دوران مختلف مقامات پرچھاپے بھی مارے گئے ،کئی گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں لیکن انہونی کونہ روکاجا سکا۔ حساس اداروں کے ذرائع کایہ بھی کہناہے کہ ایسے دہشتگردوں کے شہرمیں داخل ہونے اورشہرمیں تباہی پھیلانے کی منصوبہ بندی کازیر حراست دہشتگردوں نے دورانِ تفتیش بھی انکشاف کیاتھاجس کے بعداہم مقامات، شخصیات اور عمارات کی سیکورٹی بڑھانے کیلئے الرٹ جاری کیاگیا۔ بعدازاں اس الرٹ کے حوالے سے یاددہانی بھی کرائی جاتی رہی لیکن عین مال روڈ پراسمبلی کے سامنے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے قریب مبینہ خودکش حملہ آورنے پولیس افسران کے قریب جاکرخودکوبم سے اڑاکردودرجن افرادکو شہید کردیا۔

آپریشن ضربِ عضب کے باعث دہشتگردوں کاکافی حدتک صفایاہوجانا، کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی مسلسل جاری کاروائیوں اورنیشنل ایکشن پلان پر یکسوئی سے عمل کے دعوؤں کے ہوتے ہوئے لاہورمیں پیشگی اطلاعات کے باوجود ایسی دہشتگردی خودسیکورٹی اداروں کی کارکردگی پرایک بڑاسوال ہے۔بلاشبہ دشمن کے ہاتھوں کھیلنے والے دہشتگردموقع کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن ان سے بھی زیادہ مکاردشمن جس کی پاکستان کے خلاف کھلے عام سازشوں کی ایک مکمل تاریخ ہے،اس سے چشم پوشی کرنا،درگزرکرناحتیٰ کہ خودکوعملاًاس کے رحم وکرم پرآمادہ تیاررہناسمجھ سے بالاترہے۔سی پیک کی وجہ سے بھارت ،اس کے سرپرست اورنئے اتحادی کس کیفیت سے گزررہے ہیں،کیاعزائم رکھتے ہیں اورکس حدتک جانے کوتیارہیں،یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن ہمارے ارباب بست وکشاداس امرسے ایک شعوری غفلت کاارتکاب کرنے سے عاری کیوں ہوتے جارہے ہیں۔

کیاسی پیک کوایک گیم چینجرقراردے دینا،اس کی بنیادپرخطہ ہی نہیں دنیامیں معاشی اورسیاسی حرکیات کے تبدیل ہو جانے کی نویدسنانااورپاکستان پرہن برسنے کے امکانات کی نویدیں سنادیناہی ہمارے ارباب بست وکشادکی ذمہ داری ہے،جن ملکوں کے پیٹ میں مروڑاٹھ رہے ہیں اورامکانی طورپرسی پیک کی وجہ سے پاکستان کے طفیلی بننے والے ہوں گے ان کی زہر ناکیوں کوسمجھتے ہوئے اس کے پیشگی تدارک کی ضرورت اورذمہ داری کا احساس کیاجاناکیا ضروری نہیں ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ سی پیک کواپنی بڑی کامیابی کے طورپر عوامی حمائت کیلئے کیش کرانے کی سعی میں لگی حکومت اوراس کے کار پردازان کم ازکم اس جانب ہرگزمتوجہ نظرنہیں آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جہاں وہ ملک کے اندراس بڑی کامیابی کواپنی کامیابیوں کاطومارباندھنے کیلئے پیش کرنا کافی سمجھتے ہیں توپاکستان کی اس عظیم کامیابی کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ اسے دیرپابنیادوں پرپاکستان اوراہل پاکستان کیلئے مفید تر بنائے رکھنے کیلئے کسی جامع حکمت عملی کے ساتھ ساتھ دشمنوں کی چالوں کاتوڑکرنے کیلئے ہمہ پہلوپالیسی یااقدامات پربھی توجہ ہونی چاہئے۔

جس طرح طاقت کے ساتھ ذمہ داری لازم ہے،اسی طرح دولت اورخوشحالی کے ساتھ سمجھ داری کی اہمیت بھی دوچند ہے لیکن عجیب رسم ہے کہ ہمارے بڑے اپنی ذاتی دولت اورمعاشی پالیسیوں کیلئے توسمجھ داری کے درجہ کمال کوچھو لینے کی کوشش میں رہتے ہیں لیکن اجتماعی اورملکی دولت وسائل کی نگہداشت ،دیکھ بھال اورپرداخت کااہتمام کاملہ یکسوئی سے عاری ہے۔اللہ کی طرف سے پاکستان کو قدرتی وسائل سے مالامال کئے جانے کاشکراپنی جگہ لیکن ان وسائل کومحض اپنی کامیابیوں کی فہرست طویل کرنے کیلئے اس طرح بیان کرناکہ دشمن وقت سے پہلے ہوشیارہوجائے اورہم دشمن کی چالوںکاتوڑکرنے میں بہت پیچھے رہ جائیں ،یہ مناسب حکمت عملی نہیں ہوسکتی۔اس معاملے میں بھارت اوراس کے سرپرستوں کودکھی کرنے یاردّ ِعمل کی طرف مائل کرنے میں ہماری اس طرح کی نالائقیوں کابھی عمل دخل ہے۔بعض حلقے تویہ بھی کہتے ہیں کہ حکومتیں ریاستی کامیابیوں کومحض اپنی سیاسی وانتخابی کامیابیوں کیلئے زینے کے طورپراستعمال کرنے کیلئے سرگرم رہتی ہیں۔وہ عام طورپرریاستی کامیابیوں کواپنے لئے ایندھن کے طورپراستعمال کرتی ہیں جبکہ اپنی کوتاہ کاریوں کو ریاستی ناکامیوں کانام دیتی ہیں جبکہ ریاستی دشمنوں کومیرٹ پر دیکھنے کی بجائے اپنے ذاتی نفع ونقصان کے ترازومیں تولتے ہوئے ریاست کے دشمنوں کے ساتھ بھی ذاتی دوستیاں گانٹھنے کی کوشش کرتی ہیں۔اگرچہ واقعات وحالات یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ معاملہ بھی یکطرفہ ہی رہتاہے۔پاکستان کے دشمنوں کا پاکستان کیلئے کینہ اورغضب میں کوئی کمی نہیں ہوتی جیساکہ بھارت کے مودی کی مثال ہے۔۔۔۔جاری ہے

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 349968 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.