قرآن حکیم کی روشنی میں اللہ کا علم

آئيے ہم آپ کی توجہ کچھ ایسی باتوں کی طرف مبذول کرواتے ہيں کہ جن کا جاننا ہمارے ليے حقیقتاً بہت ضروری ہے۔ اور یہ ان سچائیوں میں سے ہیں جو ہر وقت ہماری نگاہ میں رہنی چاہئیں۔ بنیادی طور پر اس مضمون میں قرآن حکیم کی وہ آیات پیش کی جا رہی ہیں جن میں اللہ کریم کے علم کا تذکرہ ہے۔ انہی آیات کے ذریعے ہم معرفت حق کا سفر کا ایک حصہ طے کر سکتے ہیں اور اور اپنے خالق ومالک اور اس کے علم کو پہچان کر اپنی اصلاح کر سکتے ہیں۔ ہماری نظر ميں انسانی زندگی، رويے، کردار، اخلاق اور اعمال کے ساتھ جن چيزوں کا گہرا تعلق ہے ان ميں سے بہت ہی بنيادی مسئلہ خدا شناسی کا ہے کيونکہ خدا شناسی ہی خود شناسی ہے اور اس کے برعکس جو خدا سے آگاہ نہيں وہ خود سے بھی آگاہ نہيں:

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ أُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ {19} سورة الحشر (59)
" اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انھیں خود اپنا نفس بھلا دیا، یھی لوگ فاسق ہیں۔"

اور خدا آگاہی کے ليے ضروری ہے کہ ہميں معلوم ہو کہ اللہ ہمیں کتنا قريب سے جانتا ہے اور اس کا علم و قدرت کس طرح ہمارا احاطہ کيے ہوئے ہے۔ آئيے اللہ کے بارے ميں جاننے کے ليے قرآن ہی سے رہنمائی ليتے ہيں کيونکہ:

وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَآء{255} سورة البقرة
"اور اس کے علم میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آ سکتی الا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔"

يقيناً اللہ کا ديا ہوا قرآنی علم إِلاَّ بِمَا شَآء ہی ہے۔

دنيا ميں انسان کی خدا سے غفلت اور نافرمانی کا ايک بڑا ‎سبب يہ ہے کہ وہ جانتا نہيں کہ اس کا خالق و مالک اپنے علم و قدرت سے اس کے کتنا قريب ہے، ہر لمحہ اسے ديکھ رہا ہے، اس کی ہر بات سن رہا ہے، اس کے دل کے وسوسوں اور نگاہوں کی خيانت تک سے واقف ہے اور اس کے ہر عمل کا گواہ ہے۔

جیسا کہ قرآن حکيم ميں رب تعالی نے فرمايا:

سورة ق ( 50 )
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ {16}
ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں اُبھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں۔ ہم اس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اُس سے قریب ہیں۔

سورة غافر (40)
يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ {19}
اللہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور وہ راز تک جانتا ہے جو سینوں نے چُھپا رکھے ہیں۔

سورة الزخرف ( 43)
أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُم بَلَى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ {80}
کیا انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم ان کی راز کی باتیں اور اِن کی سرگوشیاں سنتے نہیں ہیں؟ ہم سب کچھ سن رہے ہیں اور ہمارے فرشتے ان کے پاس ہی لکھ رہے ہیں۔

سورة فاطر (35 )
۔۔۔إِنَّ اللَّهَ بِعِبَادِهِ لَخَبِيرٌ بَصِيرٌ {31}
بے شک اللہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور ہر چیز پر نگاہ رکھنے والا ہے۔
سورة سبأ (34 )
۔۔۔إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ {50} وہ سب کچھ سنتا ہے اور قریب ہی ہے۔

سورة غافر (40)
إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ {56} وہ سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے۔

دلوں ميں اٹکنے والے خيال، نگاہوں کی خيانت، سرگوشياں اور راز کی باتيں۔۔کچھ بھی تو اللہ سے چھپا ہوا نہيں۔ اور يقيناً اسے علم ہونا بھی چاہيے کيونکہ خالق اپنی مخلوق سے ناواقف نہيں ہو سکتا۔ اور جو بےخبر ہو وہ خالق ومعبود کيونکر ہو سکتا ہے اسی ليے فرمايا:

سورة الملك ( 67 )
وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ {13} أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ {14}
تم خواہ چپکے سے بات کرو یا اُونچی آواز سے (اللہ کے لیے یکساں ہے)، وہ تو دلوں کا حال تک جانتا ہے۔ کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے؟ حالانکہ وہ باریک بیں اور باخبر ہے۔

ہم آخرت کی عدالت ميں جس جج کے سامنے پيش ہوں گے وہ خود ہی ہر معاملے کا پہلا گواہ ہے۔

سورة سبأ (34 )
۔۔۔وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ {47}اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔

اور ہر عمل کے پيچھے کارفرما محرکات اور نيتوں تک سے واقف ہے اور وہ قیامت کی عدالت اس ليے نہيں برپا کر رہا کہ جانتا نہيں اور دنيا کی عدالتوں کی طرح گواہيوں کی روشنی ميں حقيقت جاننا چاہتا ہے بلکہ اس ليے برپا کر رہا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کيے جائيں، قضيہ ‌زمين برسرزمين چکايا جائے، باطل کے پيروکاروں کو برسر عدالت جھوٹا ثابت کيا جائے، انسانيت ميں ہونے والے اختلافات کا فيصلہ کر ديا جائے اور تمام انسانيت پر ثابت کيا جائے کہ انبيا‎ء عليہم السلام اور ان کے پيروکار ہی اللہ کی طرف سے ہدايت، کامیابی کے راستے اور سچائی پر تھے:

لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّهُمْ كَانُواْ كَاذِبِينَ {39} سورة النحل (16)
"(اور یہ قیامت اس لیے آئے گی) تاکہ اللہ ان کے سامنے اس حقیقت کو کھول دے جس کے بارے میں یہ اختلاف کر رہے ہیں اور منکرين حق کو معلوم ہو جائے کہ وہ جھو ٹے تھے۔"

اور سب جان جائيں کہ کون ہارا کون جيتا، کس نے اللہ کی نافرمانی کی اور سب کچھ کھو کر ذلت کا عذاب کمايا اور کس نے اللہ کی بندگی کا راستہ اختيار کر کے ابدی نعمتيں و کاميابی حاصل کر لی۔ جيسا کہ خود رب تعالیٰ نے فرمايا:

سورة الأعراف ( 7 )
فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِينَ {6} فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِم بِعِلْمٍ وَمَا كُنَّا غَآئِبِينَ {7}
پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے کہ ہم اُن لوگوں سے باز پرس کریں، جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں اور پیغمبروں سے پوچھیں (کہ انہوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انہیں اس کا کیا جواب ملا) پھر ہم خود پورے علم کے ساتھ ساری سرگزشت ان کے آگے پیش کر دیں گے، آخر ہم کہیں غائب تو نہیں تھے۔

تو گويا انبيا‎ء عليہم السلام کی اطاعت ميں بندگی رب ہی کاميابی کی ضمانت ہے اور جس نے اس کے خلاف کيا وہ اس عدالت ميں ناکام اور خسارے والا ثابت ہو گا۔

انسان اللہ کی تخليق اور اسی کا ساختہ پرداختہ ہے اور انسان کی زندگی کا کو‏ئی ايک لمحہ بھی اللہ سے اوجھل نہيں۔

سورة الحديد ( 57 )
۔۔۔وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ {4}
وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو۔ جو کام بھی تم کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے۔

والدين کا رشتہ دنيا ميں انسان کا اہم ترين رشتہ ہے اور کوئی اس کی اہميت سے انکار نہيں کر سکتا ليکن ايک تعلق اس رشتے سے بہت زيادہ اہم ہے اور سچ يہ ہے کہ خالق کا تعلق اولين ہے اور بہت گہرا ہے کيونکہ والدين نے توليد کيا جبکہ خالق نے تخليق کيا۔ والدين نے تو اس وقت سے جانا جب ہم دنيا ميں آئے ليکن اللہ تو يہ فرماتا ہے کہ:

سورة النجم ( 53 )
إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى {32}
بلاشبہ تیرے رب کا دامنِ مغفرت بہت وسیع ہے۔ وہ تمہیں اُس وقت سے خوب جانتا ہے، جب اُس نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں ابھی جَنین ہی تھے۔ پس اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو، وہی بہتر جانتا ہے کہ واقعی متقی کون ہے۔

سورة آل عمران ( 3 )
إِنَّ اللّهَ لاَ يَخْفَىَ عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الأَرْضِ وَلاَ فِي السَّمَاء {5} هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاء لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ {6}
زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ وہی تو ہے جو تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تمہاری صورتیں جیسی چاہتا ہے، بناتا ہے۔ اُس زبردست حکمت والے کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔

اور پھر انسان دنيا ميں زندگی اللہ ہی کے رحم و کرم پر گزارتا ہے کبھی بھی اس کے علم، قدرت و اختيار سے باہر نہيں جاتا۔ اس کی کائنات سے بھاگ کر کہيں جا نہيں سکتا:

يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُوا لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ {33} سورة الرحمن (55)
"اے گروہ جن و انس اگر تم زمین و آسمانوں کی سرحدوں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ دیکھو ۔ نھیں بھاگ سکتے ۔ اس کے لیے بڑا زور چاہیے"

اسی ليے رب اپنے باغيوں کو بھی ڈھيل ديتا ہے تاکہ شايد سمجھ کر سدھر جائيں يا بصورت ديگر خبيثوں کی ساری خباثتيں سامنے آ جائيں اور ان کے خلاف کيس مضبوط ہو جائيں۔ پکڑنے کی جلدی اسے نہيں کيونکہ باطل کی طاقت سے اس کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہيں اور پھو نکوں سے يہ چراغ بجھنے والا نہيں۔ اس کی گرفت سے کوئی بھاگ نہيں سکتا۔ جسے جب اور جہاں وہ پکڑنا چاہے پکڑ لے کيونکہ:

سورة هود ( 11 )
۔۔۔مَّا مِن دَآبَّةٍ إِلاَّ هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا ۔۔۔ {56}
کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو۔

وہ تو فرماتا ہے کہ ميں آدمی اور اس کے دل کے درميان حائل ہوں اور اس کی شہ رگ سے زيادہ اس سے قريب ہوں:

سورة الأنفال ( 8 )
۔۔۔ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ {24}
اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔

سورة ق ( 50 )
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ {16}
ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں اُبھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں۔ ہم اس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اُس سے قریب ہیں۔

آج ہم آنکھ کی پتلیوں کو بھی کمپیوٹر سے انسانوں کی شناخت کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اللہ یہ فرماتا ہے کہ کہيں کوئی ايک نگاہ اور کسی ایک آنکھ کی پتلی بھی تو اللہ سے چھپی ہوئی نہيں:

سورة الأنعام ( 6 )
لاَّ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ {103}
نگاہیں اُس کو نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے، وہ نہایت باریک بیں اور باخبر ہے۔

ہر جاندار کا رزق اللہ کے ذمہ ہے اور کوئی ايک جاندار بھی اس سے اوجھل نہيں اور خدا کی زمين پر وہ کہاں رہتا ہے اور کہاں سونپا جاتا ہے سب اس کے علم ميں ہے:

سورة هود ( 11 )
وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الأَرْضِ إِلاَّ عَلَى اللّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ {6}
زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمّے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے، سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے۔

انسان چاہے ان حقائق سے جتنا بے خبر ہو اس کی بے خبری سے حقائق تو بدلنے والے نہيں اور سچ تو يہ ہے:

سورة المجادلة ( 58 )
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِن ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ {7}
کیا تم کو خبر نہیں ہے کہ زمین اور آسمان کی ہر چیز کا اللہ کو علم ہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان کے درمیان چوتھا اللہ نہ ہو یا پانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان کے اندر چھٹا اللہ نہ ہو۔ خفیہ بات کرنے والے خواہ اس سے کم ہوں یا زیادہ، جہاں کہیں بھی وہ ہوں، اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ پھر قیامت کے روز وہ ان کو بتا دے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

کائنات کی کل مخلوق اس کے شمار ميں ہے اور اسی کی سکيم کا حصہ ہے۔ جو گزر گئے اس نے ديکھ رکھے ہيں ان کے جسموں ميں سے جو زمين نے کھايا اسے معلوم ہے اور آنے والے بھی اس کی نگاہ ميں ہیں، اور وہ بھولتا نہیں ہے۔ اس موقع پر ڈی اين اے اور انسانی جينوم (Genome)نگاہ ميں رہے تو بات سمجھنا آسان ہے:

سورة ق ( 50 )
ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ {1} بَلْ عَجِبُوا أَن جَاءهُمْ مُنذِرٌ مِّنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ {2} أَئِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ذَلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ {3}قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ وَعِندَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ {4}
ق، قسم ہے قران مجید کی_____ بلکہ اِن لوگوں کو تعجب اس بات پر ہوا کہ ایک خبردار کرنے والا خود انہی میں سے اِن کے پاس آگیا۔ "پھر منکرین کہنے لگے" یہ تو عجیب بات ہے، کیا جب ہم مر جائیں گے اور خاک ہو جائیں گے(تو دوبارہ اُٹھائے جائیں گے)؟ یہ واپسی تو عقل سے بعید ہے"۔ (حالانکہ)زمین ان کے جسم میں سے جو کچھ کھاتی ہے وہ سب ہمارے علم میں ہے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جس میں سب کچھ محفوظ ہے۔

سورة مريم ( 19 )
۔۔۔لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَلِكَ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا {64}
جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے ہر چیز کا مالک وہی ہے اور تمہارا رب بھولنے والا نہیں ہے۔

سورة الحجر ( 15 )
وَإنَّا لَنَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ {23} وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ {24} وَإِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَحْشُرُهُمْ إِنَّهُ حَكِيمٌ عَلِيمٌ {25}
زندگی اور موت ہم دیتے ہیں، اور ہم ہی سب کے وارث ہونے والے ہیں۔ پہلے جو لوگ تم میں سے ہو گزرے ہیں اُن کو بھی ہم نے دیکھ رکھا ہے، اور بعد کے آنے والے بھی ہماری نگاہ میں ہیں۔ یقیناً تمہارا رب ان سب کو اکھٹا کرے گا، وہ حکیم بھی ہے اور علیم بھی۔

سورة مريم ( 19 )
إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا {93} لَقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا {94} وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا {95}
زمین اور آسمانوں کے اندر جو بھی ہیں سب اُس کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں۔ سب پر وہ محیط ہے اور اس نے اُن کو شمار کر رکھا ہے۔ سب قیامت کے روز فرداً فرداً اُس کے سامنے حاضر ہونگے۔

آج جب انسان سائنسی ترقی کے عروج پر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس قابل ہوا کہ کمپيوٹر کی مدد سے شناخت کے ليے فنگر پرنٹس اور آنکھ کی پتلیوں کا استعمال کرتا ہے ليکن افسوس يہ نہيں سوچتا کہ جس نے اس شناخت کے ساتھ پيدا کيا ہے کيا وہ ہم سے غافل ہو سکتا ہے۔۔۔؟کيا يہ شناخت بےمقصد ہے۔۔۔؟ کيا ہم کسی کے شمار،حساب اور کسی کے منصوبے کا حصہ نہیں ہیں۔۔۔؟ ہم آج اکيسويں صدی ميں اس قابل ہوئے اور اس نے صديوں پہلے بتا ديا تھا کہ قيامت کے دن اسی شناخت کے ساتھ اٹھانے پر قادر ہے:
سورة القيامة ( 75 )
أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَلَّن نَجْمَعَ عِظَامَهُ {3} بَلَى قَادِرِينَ عَلَى أَن نُّسَوِّيَ بَنَانَهُ {4}
کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے؟کیوں نہیں؟ ہم تو اس کی انگلیوں کی پور پور تک ٹھیک بنا دینے پر قادر ہیں۔ (قیامہ3-4)

کسی کا عمر پانا، اس کی کمائی اور موت سب اس کے علم ميں ہے کيونکہ:

هُوَ قَآئِمٌ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ {33} سورة الرعد (13)
"وہ ایک ایک متنفس کی کمائی پر نظر رکھتا ہے"

ذيل کی آيات ملاحظہ ہو ں:

سورة لقمان (31 )
إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ {34}
اُس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پا رہا ہے، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کو موت آنی ہے۔ اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔

سورة الأنعام ( 6 )
وَهُوَ اللّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الأَرْضِ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ {3}
وہی ایک خدا آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی، تمھارے کھلے اور چھپے سب حال جانتا ہے اور جو بُرائی یا بَھلائی تم کماتے ہو اس سے خوب واقف ہے۔

ايک ايک حاملہ کے پيٹ سے واقف ہے، ماؤں کے پيٹ ميں کيا پل رہا ہے، اس ميں کيا کمی بيشی ہوتی ہے وہ کون ہے اور کیا کچھ کرے گا سب سے وہ واقف ہے۔ دن کا اجالا اور رات کی تاریکی اس کے لیے یکساں ہیں۔

سورة فاطر (35 )
وَاللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَى وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ {11}
اللہ نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے بنا دیے (یعنی مرد اور عورت) کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی اور نہ بچہ جنتی ہے مگر یہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ کوئی عمر پانے والا عمر نہیں پاتا اور نہ کسی کی عمر میں کچھ کمی ہوتی ہے مگر یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھا ہوتا ہے۔ اللہ کے لیے یہ بہت آسان کام ہے۔

سورة الرعد ( 13 )
اللّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنثَى وَمَا تَغِيضُ الأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَكُلُّ شَيْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ {8} عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ {9} سَوَاء مِّنكُم مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَن جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ {10}
اللہ ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے۔ جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے۔ ہر چیز کے لیے اُس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے۔ وہ پوشیدہ اور ظاہر، ہر چیز کا عالم ہے۔ وہ بزرگ ہے اور ہر حال میں بالاتر رہنے والا ہے۔ تم میں سے کوئی شخص خواہ زور سے بات کرے یا آہستہ، اور کوئی رات کی تاریکی میں چُھپا ہوا ہو یا دن کی روشنی میں چل رہا ہو، اس کے لیے سب یکساں ہے۔

بحروبر ميں جو کچھ ہے سب اسے معلوم ہے۔ کائنات ميں کوئی ايک ذرہ بھی اس سے چھپا ہوا نہيں اور کہيں کسی درخت سے گرنے والا کوئی ايک پتہ بھی ايسا نہيں جس کا اسے علم نہ ہو ۔ ہر کلی، ہر پھول، ہر پھل اور ہر شگوفے سے واقف ہے:

سورة الأنعام ( 6 )
وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الأَرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ {59}
اُسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بحر و بر میں جو کچھ ہے سب سے وہ واقف ہے۔ درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں جس کا اُسے علم نہ ہو۔ زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں جس سے وہ باخبر نہ ہو۔ خشک و تر سب کچھ ایک کھلی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔

سورة يونس ( 10 )
۔۔۔وَمَا يَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الأَرْضِ وَلاَ فِي السَّمَاء وَلاَ أَصْغَرَ مِن ذَلِكَ وَلا أَكْبَرَ إِلاَّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ {61}
کوئی ذرہ برابر چیز آسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے، نہ چھوٹی نہ بڑی، جو تیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو۔

سورة فصلت (41)
إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ وَمَا تَخْرُجُ مِن ثَمَرَاتٍ مِّنْ أَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَى وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۔۔۔۔ {47}
اُس ساعت کا علم اللہ ہی کی طرف راجع ہوتا ہے، وہی اُن سارے پھلوں کو جانتا ہے جو اپنے شگوفوں میں سے نکلتے ہیں، اسی کو معلوم ہے کون سی مادہ حاملہ ہوئی ہے اور کس نے بچہ جنا ہے۔

سورة سبأ (34 )
۔۔۔ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِن ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ {3}
اُس سے ذرّہ برابر کوئی چیز نہ آسمانوں میں چھپی ہوئی ہے نہ زمین میں نہ ذرّے سے بڑی اور نہ اُس سے چھوٹی، سب کچھ ایک نمایاں دفتر میں درج ہے۔

ايک صاحب علم حکيم ہستی کی اپنے بيٹے کو کی گئی نصيحتوں ميں سے ايک ملاحظہ ہو :

سورة لقمان (31 )
يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ {16}
(اور لقمان نے کہا تھا) " بیٹا، کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو، اللہ اُسے نکال لائے گا۔ وہ باریک بیں اور باخبر ہے۔

اس کا علم ہر چيز کا احاطہ کيے ہوئے ہے:

وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا {12} سورة الطلاق (65)
"اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔"

وہ ہر صاحب علم سے بالاتر ہے:

وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ {76} سورة يوسف (12)
"اور ایک علم رکھنے والا ایسا ہے جو ہر صاحب علم سے بالاتر ہے"

ہر چيز کا خالق اور اس کا نگہبان و محافظ ہے:

اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ {62} سورة الزمر(39) "اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے۔"

إِنَّ رَبِّي عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ {57} سورة هود (11)
"یقیناً میرا رب ہر چیز پر نگران ہے۔"

سچا معبود، غائب اور ظاہر سب کا جاننے والا ہے۔
سورة الأنعام ( 6 )
وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ ۔۔۔ {59}
اُسی کےپاس غیب کی کنجیاں ہیں جنھیں اس کےسوا کوئی نہیں جانتا۔

سورة فاطر (35 )
إِنَّ اللَّهَ عَالِمُ غَيْبِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ {38}
بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کی ہر پوشیدہ چیز سے واقف ہے۔ وہ سینوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔

سورة الحشر ( 59 )
هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ {22}
وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، غائب اور ظاہر ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ وہی رحمٰن اور رحیم ہے۔

زندہ و جاويد ہستی جسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نيند:

اللّهُ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لاَ تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلاَ نَوْمٌ {255} سورة البقرة
" اللہ وہ زندہ و جاويد ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ وہ نہ سوتا ہے نہ اسے اونگھ لگتی ہے"

جو ساری کائناتوں کا انتظام چلا رہا ہے اور يہ اس کے ليے تھکا دينے والا کام نہيں:

وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ وَلاَ يَؤُودُهُ حِفْظُهُمَا {255} سورة البقرة
"اس کی حکومت آسمانوں و زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔"

زمين و آسمان کی ہر چيز کا خالق، مالک اور اس کا جاننے والا:

سورة طه ( 20 )
لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَى {6} وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى {7} اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْأَسْمَاء الْحُسْنَى {8}
مالک ہے اُن سب چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور جو زمین و آسمان کے درمیان ہیں اور جو مٹی کے نیچے ہیں۔ تم چاہے اپنی بات پکار کر کہو، وہ تو چپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے مخفی تر بات بھی جانتا ہے۔ وہ اللہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کے لیے بہترین نام ہیں۔

بارش کے ايک ايک قطرے، ايک ايک بيج اور گھاس کے ايک ايک تنکے، ایک ایک ذی روح سے واقف:

يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاء وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ الرَّحِيمُ الْغَفُورُ {2} سورة سبأ (34)
"جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے، ہر چیز کو وہ جانتا ہے، وہ رحیم اور غفور ہے۔"

آئيے اب ايک اور پہلو کی طرف توجہ فرمائيے اور وہ يہ کہ:

إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ {61} سورة هود (11)
"یقیناً میرا رب قریب ہے اور وہ دعاؤں کا جواب دینے والا ہے۔"

ہمارا رب ہم سے فرماتا ہے کہ ہم اسے پکاريں وہ ہماری پکار کا جواب دے گا اور دعائيں قبول فرمائے گا:

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ {60} سورة غافر (40)
" تمھارا رب کہتا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔"

قرآن حکيم ميں خود پوچھتا ہے کہ کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے اور اس کی تکليف دور کرتا ہے:

سورة النمل ( 27 )
أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاء الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَّعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ {62}
کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جب کہ وہ اُسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟ اور( کون ہے جو) تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی(یہ کام کرنے والا) ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو۔

آج کی دنيا کا کوئی معمولی سا بادشاہ اگر آپ کو يہ پيغام بھيجے تو آپ اسے کتنی اہميت ديں گے۔ ان آيات ميں ديکھيے کہ آپ کے ليے فرمانروائے کائنات کی طرف سے کتنا بڑا اور حوصلہ افزاء پيغام ہے:

سورة البقرة ( 2 )
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِ {152}
تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا، اور میرا شکر ادا کرو اور کفر نہ کرو۔

غور کيجئے ان جملوں ميں کتنی محبت ہے ہمارے لیے:

سورة البقرة ( 2 )
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِي وَلْيُؤْمِنُواْ بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ {186}
اور اے نبی ﷺ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو انھیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ یہ بات تم انہیں سنا دو، شاید کہ وہ راہ راست پالیں۔

آئيے اب اس کا بھی ايک نظر جائزہ لے ليں کہ ہم اتنی بڑی کائنات ميں کہاں رہتے ہيں اور ہماری حيثيت کيا ہے۔ ہمارا نظام شمسی ہماری کہکشاں(ملکی وے) کے ايک کونے پر پڑا ہے اور ايک نقطہ کی مانند ہے۔ ہمارا سورج زمين سے اتنا بڑا ہے کہ اگر زمين جيسے تقريباً 109 کرے ساتھ ساتھ (side by side) رکھے جائيں تو سورج کی چوڑائی بنتی ہے۔ اور سورج ميں تقريباً 13 لاکھ زمينيں سما سکتی ہيں۔ سورج کا حجم زمين سے 1.3 million times زیادہ ہے اور کمیت 330000 گنا ہے۔ ہماری کہکشاں ميں سائنسدانوں کے اندازے کے مطابق سورج جيسے اور اس سے بڑے تقريباً ايک کھرب سے زیادہ ستارے ہيں۔ جن میں سے صرف ایک بڑا ستارہVY Canis Majoris (Red Hypergiant) کا ڈایا میٹر 2800000000کلومیٹر ہے(زمین کا ڈایا میٹر 12756کلومیٹر اور سورج کا 1391000کلومیٹرہے)۔ اور اس ستارے کے گرد ایک مسافر ہوائی جہاز کو 900 کلومیٹر فی گھنٹہ کے حساب سے ایک چکر لگانے کے لیے 1100 سال چاہئیں۔ اور یہ ستارہ کھربوں ستاروں میں سے ایک ہے۔

سائنسدان اب چار متوازی طبقات عوالم کی بات کر رہے ہيں(Four layers of parallel universes) ہر عالم ميں اربوں کہکشائيں ہيں اور ہر کہکشاں ميں اربوں کھربوں ستارے ہيں۔ انھی کہکشاؤں ميں سے ايک ہمارا مسکن ہے جس ميں ہماری زمين کی حيثيت ايک ذرے سے زيادہ نہيں۔ اور يہ کوئی ہم نے کائنات کی آخری حدوں کا سراغ نہيں پا ليا بس کچھ اندازے ہيں محض آسمان دنيا کے بارے ميں۔

إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاء الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ {6} سورة الصافات (37)
"ہم نے آسمان دنیا کو تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے۔"

کيونکہ اينٹی کلاک وائز حرکت کرتے ہوئے يہ ساری کائناتيں بہت تيزی سے اپنے نقطء آغاز یعنی(Big Bang)سے دور بھاگی جا رہی ہيں اور پھيل رہی ہیں:

وَالسَّمَاء بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ {47} سورة الذاريات (51)
"آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنايا ہے اور ہم اس کو پھیلا رہے ہیں۔"

اب ذرا کہکشاوں والے اس آسمان میں:

وَالسَّمَاء ذَاتِ الْحُبُكِ {7} سورة الذاريات (51)
"قسم ہے متفرق (گھنگھریالے) شکلوں والے آسمان کی"

فاصلوں پر نگاہ ڈالیے۔ سورج کا زمین سے فاصلہ 150 ملین کلومیٹر ہے، سورج اور زمین کا فاصلہ بہت زیادہ لگتا ہے ليکن فی الحقیقت اس سے million times کے فاصلے میں(exist a handful of stars) مٹھی بھر ستارے واقع ہیں ہمیں تو ستاروں کے جھرمٹ نظر آتے ہیں لیکن ان کے درمیان فاصلے اس قدر زیادہ ہیں کہ سورج کے بعد قریب ترین ستارہ سورج کی نسبت زمین سے 3 لاکھ گنا زیادہ دور ہے اور اس کی روشنی اور حرارت کسی بھی صورت سورج کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ واضح رہے کہ ایک نوری سال 6 کھرب میل کے برابر ہے۔ ہماری کہکشاں سے قریب ترین دوسری کہکشاں کا فاصلہ ایک ملین نوری سال سے زیادہ ہے اور سائنسدان اربوں نوری سال کی مسافتوں پر واقع روشنی کے sources کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

اب آپ خدا کی اس وسيع و عريض کائنات ميں اپنی حیثيت کا اندازہ لگا ليجيے اور ہم تو قرآن کی زبان ميں بس اتنا پوچھتےہيں کہ:

فَمَا ظَنُّكُم بِرَبِّ الْعَالَمِينَ {87} سورة الصافات (37)
"آخر رب العالمین کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے؟"

اتنی بڑی کائنات کے خالق اور اس عظيم و جليل ہستی کے بارے ميں کہ جس کی طاقت و عظمت و کبريائی کا تصور بھی نہيں کيا جا سکتا اس کی کائنات کے ايک ذرے يعنی زمين پر رينگنے والا چند فٹ کا يہ حيوان ناطق اس کے مقابلے ميں کيسی کچھ جسارتيں کر رہا ہے:

مَّا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا {13} سورة نوح (71)
"تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کے لیے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے؟"

اس کے مقابلے میں کن کو اس کا شريک ٹھہراتا ہے۔ بھلا ايک نظر کائنات کی وسعتوں پر ڈال کر دل پر ہاتھ رکھ کر بتلائیے کہ کس ہستی ميں ايسی طاقت ہو سکتی ہے کہ اللہ کی ذات و صفات، اس کے ارادے و اختيار، اس کے علم و حکم و ملک اور اس کے حقوق بندگـی ميں شريک ہو سکے۔ بے شک:

إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ {13} سورة لقمان (31)
"بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔"

اللہ کی کبريائی کا کچھ تصور اپنے دل ميں لائيے اور فيصلہ کيجيے کہ کيا اس کا علم ايسا ہی نہيں ہونا چاہيے جيسا خود اس نے بيان فرمايا ہے- يقيناً دل" بَلَى" پکار اٹھے گا۔

اب اس نا قدری کو بھی ديکھيے جو انسان اپنے اتنے جليل القدر خالق و مالک کی کر رہا ہے:

وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّماوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ {67} سورة الزمر (39)
" ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔(اس کی قدرت کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ) قیامت کے روز پوری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دست راست میں لپٹے ہوں گے۔ پاک اور بالاتر ہے وہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں"

قرآن سچ فرماتا ہے:

مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ {74} سورة الحج (22)
"ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیسا کہ اس کے پہچاننے کا حق ہے، واقعہ یہ ہے کہ قوت اور عزت والا تو اللہ ہی ہے۔"

ہم مکمل طور پر خدا ہی کے ساختہ پرداختہ ہیں اور کسی ایک لمحے کے لیے بھی اس سے اوجھل نہیں ہیں۔ زندگی کی ایک ایک گھڑی خالص اسی کی عطا اور کرم ہے۔ وہی ہمارا خالق، مالک، رب، رازق اور اکیلا سچا لاشریک معبود ہے اور اس سے کائنات کا کوئی ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں۔ وہ ہر لمحے ہمیں دیکھتا اور سنتا ہے۔ وہ ہمارے دلوں کے خیالات، سوچوں، گمانوں، ارادوں، وسوسوں، نگاہوں کی خیانت تک کو جانتا ہے۔ ہماری شہ رگ سے زیادہ ہم سے قریب، ہمارے اور ہمارے دل کے درمیان حائل اور ہماری نیتوں سے آگاہ ہے۔ وہ ہم سے اتنا واقف ہے جتنا ہم خود بھی اپنے آپ سے واقف نہیں۔ آئیے اس سے پہلے کہ پروردگار کائنات کے بارے میں ہمارا غلط گمان ہمیں لے ڈوبے آئیے اللہ کے بارے ميں اپنا گمان درست کر ليں اور اسے پہچان کر اس کی قدر کرلیں کہيں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی خسارہ اٹھانے والے انھی لوگوں ميں شامل ہوں کہ جن کو قیامت کے دن ایک موقع پر اس دن پکار کر کہا جائے گا کہ:

سورة فصلت (41)
وَمَا كُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَكِن ظَنَنتُمْ أَنَّ اللَّهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِّمَّا تَعْمَلُونَ {22} وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنتُم بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُم مِّنْ الْخَاسِرِينَ {23}
تم دنیا میں جب جرائم کرتے وقت چُھپتے تھے تو تمہیں یہ خیال نہ تھا کہ کبھی تمہارے اپنے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے جسم کی کھالیں تم پر گواہی دیں گے۔ بلکہ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ تمہارے بہت سے اعمال کی اللہ کو بھی خبر نہیں ہے۔ تمہارا یہی گمان جو تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا تھا، تمہیں لے ڈوبا اور اسی کی بدولت تم خسارے میں پڑ گئے۔
Aurangzeb Yousaf
About the Author: Aurangzeb Yousaf Read More Articles by Aurangzeb Yousaf: 23 Articles with 45474 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.