ماھی بے آب (٢٧)

بستر پر لیٹے لیٹے مسلسل اس کی نظریں سائیڈ ٹیبل پر رکھی فوٹو فریم پرتھی‘‘ جس میں وہ پاپا کے ساتھ کھڑی تھی‘‘ایسا ہی ایک فوٹو فریم پاپا کے کمرے میں تھا‘‘ سوچ نے اڑان لی‘‘اور یک دم اسے گزرے دنوں میں پہنچا دیا‘‘
مایا کروٹ لے کر اٹھ بیٹھی‘‘اب تک تو سب جا چکے ہو گے؟؟؟ اس نے ٹائم دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا‘‘ جیسے اسی کے انتظار میں ہو‘‘کہ سب جائیں‘‘تو وہ اٹھے‘‘ حالانکہ حقیقت میں تو اسے انتظار تھا‘‘ کہ کوئی اسے ناشتےکے لیے بلانے آئے‘‘ فریش ہوکر وہ باہر نکل آئی‘‘کوئی نظر نہیں آرہا تھا‘‘وہ سیدھی لان میں چلی آئی‘‘
سوچیں پھر ایک بار اسے پاپا کے ساتھ گزارے دنوں میں لے گئیں‘‘ وہ دھیرے دھیرے مسکراتے ہوئے‘‘واک کرنے لگی‘‘
سناٹا جب روح میں شامل ہو جائے‘‘تو اردگرد کی رونقیں بھی انسان پر اثر نہیں کرتیں‘‘ہزاروں رونقیں ہوں‘‘تب بھی انسان اکیلا ہی رہتا ہے‘‘سوچوں کے محور میں پھنسا رہتا ہے‘‘سوچ تو زنگ لگا دیتی ہے‘‘عقل کو‘‘
بھابھی!!!پہلے تو کبھی انہوں نے کبھی کوئی رابطہ نہیں رکھا‘‘اب اچانک سے انہیں بھانجی کیسے یاد آگئی‘‘آواز سے وہ چونک گئی‘‘ کچن کی پچھلی کھڑکی جو لان میں کھلتی تھی آواز وہیں سے آرہی تھی‘‘
ہاں‘‘اس میں غلطی احمد کی ہی تھی‘‘ مایاکی امی جب فوت ہوئیں‘‘تب بھی وہ آئے تھے‘‘مایا کو لے جانے‘‘پر احمد نے انکار کر دیا‘‘پھر سنا تھا‘‘وہ لوگ باہر شفٹ ہوگئے‘‘اب بہت عرصہ بعد انہوں نے رابطہ کیا ہے‘‘مایا کو اپنے پاس بلانا چاہ رہے ہیں‘‘اب دیکھو کیا ہو تا ہے‘‘بڑی امی نے ثنا چاچی کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا‘‘
باہرمایا سے کھڑے ہونا محال تھا‘‘کس کی بات کررہے ہیں وہ لوگ؟؟؟ کچن سے اب بھی آوازیں آرہی تھی‘‘پر وہ انہیں سن نہیں پائی‘‘
‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘
تو پھر کیا ڈیسائیڈ کیا ہے‘‘تو نے؟؟؟اس بار چھٹیوں میں جا رہا ہے پاکستان؟؟؟ شفیق نے فرصت سے سوال کیا‘‘
باسط نے ناگواری سے اسے دیکھا‘‘
جانتے ہو مجھے‘‘اس سوال سے چڑ ہے‘‘پھر بھی بار بار کیوں پوچھتے ہوں ہوں‘‘باسط نے ناراضگی سے کہا‘‘
اچھا معاف کرو بھائی‘‘اب نہیں پوچھتا‘‘پتا نہیں تم جیسے لوگوں کا کیا بنے گا؟؟؟جہاں پیدا ہوئے‘‘جس دھرتی نے اتنے سال تم جیسوں کا بوجھ برداشت کیا‘‘تمہیں شناخت دی‘‘ اس کے بارے میں ایسے خیالات‘‘کہ نام تک سننا گنوارہ نہیں‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘ایسا کچھ نہیں ہے‘‘باسط نے شفیق کی بات کاٹتے ہوئے کہا‘‘
اچھا‘‘ایسا نہیں تو پھر کیسا ہے‘‘شفیق باقاعدہ لڑائی پر اتر آیا‘‘
مجھے اپنے ملک سے کوئی شکوہ نہیں‘‘پر اس کے باشندوں سے ہے‘‘میں یہاں خوشی سے نہیں رہ رہا‘‘میرا بھی دل کرتا ھے واپس جانے کو‘‘تم سب چھٹیوں میں پاکستان جاتے ہو‘‘میں اتنے سالوں میں کبھی نہیں گیا‘‘ کسی اور ملک گھومنے چلا جاتا ہوں‘‘یہ بہانہ کر کے کہ مجھے گھو منے پھرنے کا شوق ہے‘‘ مجھے تواب ڈر ہے‘‘میں اپنے گھر کا ہی رستہ نہ بھول جاؤں‘‘ میرے اپنے مجھے یاد تو کرتے ہیں‘‘پر ضرورتوں کے وقت‘‘ ہر سال یہی کہتے رہے‘‘ اس سال بہنوں کی شادی کے لیے کچھ جمع کر لو‘‘ اگلے سال آجانا‘‘پھر آگلے سال گھر بنانا پڑ گیا‘‘ ہر بار کوئی نہ کوئی مجبوری‘‘ان کی مجبوریاں ختم نہیں ہوئی میری حسرت ختم ہو گئی واپس جانے کی‘‘ باسط کہتے ہوئے‘‘تیزی سے اٹھ کر باہر چلا گیا‘‘کہ کہیں شفیق اسکے آنسوں نے دیکھ لے‘‘ شفیق نے بھی اپنے آنسو گرتے محسوس کیے‘‘(جاری ہے)
 

Mini
About the Author: Mini Read More Articles by Mini: 57 Articles with 49033 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.