خون اور پانی - 5

٭ آج کل ہر جگہ پاکستان سپر لیگ کا شور ہے اور اس شور میں گزشتہ دنوں ہونے میں خودکش حملوں کی آہیں اور سسکیاں بھی شاید دب گئی ہیں۔ پاکستانی قوم سپرلیگ کا فائنل لاہور میں ہونے کا جشن منا رہی ہے اور اسی قوم کے لوگ اپنے خودکش حملوں میں شہید ہونے والوں کو یاد کرکے رو بھی رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سب دہشت گردی اور حملے صرف سپر لیگ کا فائنل لاہور میں ہونے سے روکنے کیلئے تھے۔
٭ اگر یہ بات سچ ہے تو پھر کیا فائنل میچ کے بعد پاکستان میں ایک دم امن قائم ہوجائے گا؟ دہشت گردی ختم ہوجائے گی؟ خودکش حملہ آور اپنی اپنی بمبار جیکٹیں اُتار کر پھینک دیں گے کہ اب ان کا کوئی فائدہ نہیں؟ پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں ہونے پر فتح کا جشن منانے والوں سے سوال ہے کہ کیا اُن بیواؤں کو سکون مل سکے گا جن کے اپنے ان خودکش حملوں میں شہید ہوگئے؟ کیا اُن یتیم بچوں کو قرار آجائے گا جن کو تاحیات باپ کی شفقت نصیب نہیں ہوگی؟ کیا اُن ماؤں کے دلوں کو قرار آجائے گا جن کی آنکھوں کا تارا اب اس دنیا میں نہیں رہا؟

٭ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کروڑوں روپے سیکیورٹی کے نام پر لگا کر، ہزاروں سیکورٹی اہلکاروں کو سٹیڈیم کے گرد تعینات کرکے اور کھلاڑیوں کو صدارتی پروٹول فراہم کرکے اور پورے شہر کو سیل بند کرکے ہم کیا دنیا کو امن کا پیغام دے رہے ہیں اور کیا ہم یہ پیغام دے رہے ہیں کہ پاکستان اب دہشت گردی سے پاک ملک ہے اور یہاں پر بلا خوف و خطر کھیلا جاسکتا ہے۔ پاکستان سپر لیگ کے فائنل میں صرف 8 غیر ملکی کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں اور آخری اطلاعات تک ان میں سے 3 غیر ملکی کھلاڑی پاکستان آنے سے انکار کرچکے ہیں۔ اگر فائنل میچ ہونے تک صرف ایک یا دو غیر ملکی کھلاڑی رہ جائے گا تو پھر اس تماشے کا کیا فائدہ؟ پھر یہ سیکورٹی تو صرف اور صرف اُن کھلاڑیوں کیلئے ہے بیچاری عوام تو پھر خدا کے رحم و کرم پر ہوگی۔

٭ سپرلیگ کا فائنل پاکستان میں ہونے سے نہیں بلکہ پاکستا ن کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے سے ہی دنیا میں امن کا پیغام جائے گا۔ جب یہاں پر امن قائم ہوگا تو خود ہی تمام ٹیمیں پاکستان آئیں گے کسی کو زبردستی اور بھاری لالچ دے کر یہاں نہیں بلانا پڑے گا۔ آپریشن راہ راست سے آپریشن خیبر ٹو تک اور آپریشن ضرب عضب سے لیکر آپریشن رد الفساد تک کئی آپریشن کئے گئے لیکن وقتی طور پر تو امن قائم ہوا لیکن پھر اس دہشت گردی کے ناسور نے سر اُٹھا لیا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم دہشت گردی کے درخت کی شاخیں کاٹتے ہیں اور پھر وہ شاخیں دو بارہ نکل آتی ہیں۔ جب تک ہم دہشت گردی کو جڑ سے ختم نہیں کریں گے جتنے مرضی آپریشن کرلیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ دہشت گردی کے درخت کو صرف اور صرف وقت ہی ختم کیا جاسکتا ہے جب ا س درخت کی آبیاری کرنے والے ہاتھوں کو ہاتھ دیا جائے اور یہ تب ممکن ہے جب ہم اس دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے والے لوگوں کو نہیں پکڑیں گے اور سزا نہیں دیں گے۔ دہشت گردی کے فروغ کی سب سے بڑی وجہ اُس کی مالی سرپرستی ہے۔ چاہے یہ مالی سرپرستی مقامی لوگ کررہے ہیں یا غیر ملکی ایجنسیاں ان کو روکے بغیر دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ طالبان، داعش یا دوسری دہشت گردی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے لوگ نہ تو کوئی کاروبار کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی نوکریاں کرتے ہیں تو پھر اُن کے پاس اتنا جدید ترین اسلحہ، جدید ترین مواصلاتی نظام اور تربیت کیلئے پیسے کہاں سے آتے ہیں؟ جس دن دہشت گردی کی یہ مالی معاونت ختم ہوجائے گی اُس دن دہشت گردی کا درخت خود ہی سوکھ کر گرجائے گا۔

٭ ہر دھماکے کے بعد سہولت کار پکڑے جاتے ہیں، نیٹ ورک کا پتہ چل جاتا ہے ۔ یہ پتہ چل جاتا ہے کہ یہ حملہ کس کے کہنے پر کیا گیا، کہاں سے کنٹرول کیا گیا لیکن پھر دو چار دن اخبارات میں خبر آتی ہے اور پھر بس ختم شد۔ اُن سہولت کاروں کا کیا بنتا ہے کچھ پتا نہیں۔ جس نے یہ حملہ کیا ہوتا ہے اُن کو کیا سزا ملتی ہے کچھ پتہ نہیں۔ بس ہر بار اُس ملک کے سفیر کو دفتر خارجہ بلا کر ایک بنی بنایا احتجاجی خط اُس کے ہاتھ میں پکڑا دیا جاتا ہے اور حکومت کا فرض ختم ہوجاتا ہے۔

٭ ہمیں بحیثیت قوم چاہئے کہ ہم اپنے اردگرد نظر رکھیں اور اپنے آس پاس موجود دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں کو پہچانیں اور اُن کو کفیر کردار تک پہنچانے میں حکومت اور فوج کا ساتھ دیں۔ ہم سپرلیگ کا جشن تو خوب منائیں لیکن پاکستان کو پُرامن ملک بنانے کیلئے بھی کچھ کریں تاکہ ہمیں دوسروں کی منتیں نہ کرنی پڑیں کہ وہ ہمارے ملک میں آکر کھیلیں بلکہ وہ خود ہماری منتیں کریں کہ ہم آپ کے ملک میں کھیلنا چاہتے ہیں۔

Kashif Shahzad
About the Author: Kashif Shahzad Read More Articles by Kashif Shahzad: 7 Articles with 4183 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.