بینائی سے متعلق چند قدیم غلط فہمیاں اور ان کی حقیقت

اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ دھیمی روشنی میں پڑھنے سے آنکھوں کی بینائی متاثر ہوتی ہے۔ یہ بات معقول بھی لگتی ہے کیوں کہ دھیمی روشنی میں کچھ پڑھنے سے آنکھوں پر زور پڑتا ہے اور جلن بھی شروع ہو جاتی ہے لیکن حقیقت کیا ہے؟

دھیمی روشنی میں کچھ پڑھنے کے بعد آنکھوں میں درد کا احساس اس وجہ سے ہوتا ہے کہ کم روشنی میں آنکھوں کی پُتلیاں پھیل جاتی ہیں اور پڑھائی کے دوران آنکھوں کو سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آنکھوں کی تھکاوٹ درد کا احساس پیدا کرتی ہے۔
 

image

اس حوالے سے جرمن یونیورسٹی بون میں آنکھوں کی کلینک کے ڈائریکٹر فرانک ہولز کہتے ہیں کہ اس طرح آنکھوں میں تو درد ہوتا ہے لیکن اس کا آنکھ کی بینائی پر کوئی اثر نہیں پڑتا، ’’دھیمی روشنی میں پڑھنے سے بینائی متاثر ہوتی ہے، اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کی ایک رات کی نیند کے بعد آنکھیں دوبارہ نارمل حالت میں آ جاتی ہیں۔‘‘ تاہم وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ اگر روزانہ کی بنیاد پر ایک یا دو گھنٹے دھیمی روشنی میں پڑھائی کی جائے تو اس کا آنکھوں کی صحت پر اثر ضرور پڑتا ہے، خاص طور پر بچوں کی آنکھوں پر۔ ان کے مطابق اس طرح بچوں کی دور کی نظر خراب ہو جاتی ہے۔

قریب سے پڑھنے کا اثر
کیا نزدیک یا قریب سے پڑھنے کا بھی آنکھوں کی بینائی پر اثر پڑتا ہے؟ اس حوالے سے ڈاکٹر ہولز کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نزدیک سے پڑھنے یا کام کرنے سے آنکھوں کی بینائی متاثر ہوتی ہے، ’’اس طرح دور کی نظر خراب ہونے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔‘‘

اعداد و شمار کے مطابق جرمنی کے چالیس فیصد نوجوانوں کی بینائی متاثر ہے اور اس کی وجہ یہی بیان کی جاتی ہے۔ خاتون محقق کیٹی ایم ویلیمز کی یورپی جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ہر تیسرے یورپی شہری کی دور کی نظر کمزور ہے۔ اس تحقیق کا حیران کن نتیجہ یہ ہے کہ 25 سے 29 برس کے افراد میں یہ شرح 47 فیصد ہے جبکہ 65 سے 69 برس کے افراد میں یہ شرح محض 16 فیصد ہے۔
 

image


اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ آنکھوں کی بینائی پر بچپن میں اختیار کیے جانے والے رویے کا بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔ اگر بچہ شروع ہی میں نزدیک کے کام، جیسے کہ کتاب پڑھنا، موبائل اور ٹیبلیٹ کا استعمال شروع کر دے گا تو اس کی دور کی نظر کمزور ہونے کا خطرہ بھی بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔

میونخ کی محقق اور ماہر امراضِ چشم ڈاکٹر بیٹینا فان لیونیس کہتی ہیں، ’’بچوں کی نظر کمزور ہونے کی ایک وجہ دن میں سورج کی مناسب روشنی کا نہ ہونا بھی ہے۔ اس وجہ سے جب بھی بچے پڑھنے لگیں تو ان کے لیے روشنی کا انتظام لازمی کیجیے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ کتابوں کے عادی بچوں کو دن میں کم از کم تین دن گھنٹے سورج کی روشنی میں لازمی بھیجیے کیوں کہ دن کی روشنی سے بچوں کی دور کی نظر بہتر ہوتی ہے۔

چین میں چھ سالہ بچوں پر ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر اسکول کے اوقات میں بچوں کو روزانہ چالیس منٹ تک کھیلنے کودنے دیا جائے تو آنے والے تین برسوں میں دور کی نظر خراب ہونے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔
 

image

چین میں بچوں پر پڑھائی کا بوجھ دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہے اور وہاں بعض اوقات بچے بارہ بارہ گھنٹے مسلسل ایک کمرے میں بیٹھ کر پڑھتے رہتے ہیں۔ چین کے بعض علاقوں میں نوے فیصد نوجوانوں کی دور کی نظر کمزور ہے۔

(بشکریہ ڈوئچے ویلے)

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE:

There are times when we are so absorbed in a good book that we do not notice that the light has faded. Or we read books while travelling in a dimly lit bus or train. With the availability of tablets and e-readers, many people now have the habit of reading at bedtime with the lights off.