غصے پر قابو رکھئے اس سے پہلے کہ یہ آپ کو قابو کر لے

انسان بظاہر گوشت پوست کا بنا ہوا ہے مگر یہ اپنے ارادے میں چٹانوں سے ذیادہ مضبوط ہے اور ہر آفت ارض وسماوی سے لڑنے کی ہمت اور طاقت رکھتا ہے۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انتہائی طاقتور اور مضبوط انسان جب غصے میں آتا ہے تو وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے اور اسکا جسم اسکے اس رویے سے اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے دماغ اور حواس پر قابو پانے کی تمام تر توانایاں کھو بیٹھتا ہے۔اگر ہم مذہبی طور پر دیکھیں تو غصے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ دنیا کو کوئی نظام غصے کو اچھا نہیں سمجھتا۔ اسی طرح اگر ہم غصے کو معاشرتی زاوئے سے دیکھیں تو معاشرے میں غصے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ نفسیات دان کہتے ہیں کہ غصہ انسان کی اس اندرونی کیفیت کا نام ہے جس سے وہ زخم خوردہ ہو تا ہے اور یہ زخم اسے ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ غصہ اس جذباتی کیفیت کا نام ہے جس کا تعلق اسکے دماغ سے ہوتا ہے یہ کسی بھی انسان کے برتاؤ اور سلوک سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسوقت کس کیفیت میں ہے۔ غصے کو پاگل پن کا نام بھی دیا جاتا ہے کیونکہ انسان بعض اوقات غصے میں اپنے آپے سے اتنا باہر ہو جاتا ہے کہ اسے نہ ہی اپنی اور نہ ہی کسی کی خبر رہتی ہے اور غصے کی یہ حالت انتہائی خطرناک ہوتی ہے۔ غصہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ ہماری دنیا تشدد سے بھری پڑی ہے ہر طرف مار دھاڑ کا بازار گرم ہے ہم ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں، ہم میں نفرتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، ہر طرف جنگیں ہیں، جارحیت اپنی پوری طاقت سے حملہ آور ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا پیدا ہونے والا بچہ جب اسکول جانے کے قابل ہوتا ہے اور ہم اسے اسکول میں داخل کروادیتے ہیں تو یہ اسکے سیکھنے کا عمل ہوتا ہے، اسکی عادات و خصلات اور اسکے کردار کی تعمیر کا وہ پہلا مرحلہ ہوتا ہے جہاں وہ مختلف بچوں اور اساتذہ سے ملتا ہے، ان سے بات چیت کرتا ہے اور اپنی عادات کی ساخت کو قائم کرتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ایک بچہ ماحول کو اپناتا ہے اگر یہ ماحول انتہائی حوصلہ افزا ہے تو عادات میں نرمی، پیار ، محبت، شستگی ، شگفتگی، اخلاق، اخلاص ، شفقت، عزت و احترام کا سلیقہ پایا جائیگا اور اگر ا س بچے کا ماحول انتہائی فرسودہ ہوگا اور اسکے اساتذہ اور ساتھ میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے فرسودگی کا شکار ہونگے تو ایسے بچے شدید ڈپریشن کا شکار ہونگے اور بات بات پر بر انگیختہ ہونگے کہ یہ انکے ماحول کا اثر ہوتا ہے۔ ہم گوناں گوں مسائل کا شکار ہیں، ہمارا وہ حیاتیاتی نظام جس پر ہم قدرت نہیں رکھتے اور ہمارا پہلا کام جو ہماری زندگی کیلئے بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی شناخت کو قائم کرنے کیلئے مربوط کوششیں کریں تاکہ ہم ایک اچھے انسان بن سکیں۔ یہی ہماری پہچان ہوتی ہے جو ہمیں دوسروں سے ممیز کرتی ہے۔ اور جب کوئی ہمیں ہماری اصلیت دکھاتا ہے اور ہمیں ہماری خامیوں کے بارے میں بتاتا ہے تو ہم بجائے ان خامیوں کو درست کرنے کے ان پر ڈٹ جاتے ہیں اور انہیں ماننے کیلئے تیار نہیں ہوتے اور یہ ہمارے غصے کی انتہاء ہوتی ہے ۔جو لوگ خود احتسابی کے عمل سے نہیں گزرتے اور اپنی خامیوں پر نظر رکھ کر انہیں درست کرنے کی کوشش نہیں کرتے وہ لوگ نہ صرف غصے اور جارحیت کا شکار ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنے معاشرے میں اچھی اور قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے۔

غصے میں انسان نہ صرف دوسروں کا بلکہ اپنا نقصان بھی کر لیتا ہے ۔ بعض اوقات قیمتی چیزوں کی توڑ پھوڑ اور کسی کو غصے میں جانی نقصان بھی ہو سکتا ہے جو اسکی موت پر منتج ہو سکتا ہے۔ کچھ انسان غصے میں آ کر نہ صرف دوسروں کو بلکہ خود کو بھی نقصان پہنچا لیتے ہیں۔ غصے میں انسان کسی بھی وقت غلیظ گالیاں دیتاہے، طنز کرتا ہے، دھمکیاں دیتا ہے، دوسروں کے بے عزتی کرتا ہے، مارنے مرنے پر تیار ہوجاتا ہے، چیزوں کی توڑ پھوڑ کرتا ہے، خود کو اذیت پہنچاتا ہے۔ یہانتک کہ وہ غصے میں ماں اور باپ کا احترام اور عزت بھی پس پشت ڈال دیتا ہے اگر ہم دیکھیں تو یہ انتہائی ہیجانی کیفیت ہوتی ہے جس میں وہ اپنے محسنوں کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔

تنگئی حالات، بے روزگاری، بیماری، جہالت، گھریلو ناچاقی، انا پرستی، بھوک، مار دھاڑ سے بھرپور فلمیں دیکھنا، حقوق زنی، معاشرتی و معاشی نا انصافیاں، قانون پر یکساں عملدرامد نہ ہونا، پر تشدد لوگوں سے راہ و رسم، موسم کی تندی اور اسکے اثرات، منفی رجحانات، ارد گرد کا ماحول، مزاج کی مطابقت وغیرہ غصے کی بڑی وجوہات ہیں۔ غصے کی کیفیت کسی پر بھی طاری ہو سکتی ہے خواہ وہ امیر ہو غریب ہو بچہ ہو جوان ہو بوڑھا ہو عورت ہو یا پھر مرد ہو ۔ غصے کو ہر حالت میں رد کیا جانا چاہئے کیونکہ غصے کی حالت میں انسان کی قوت فیصلہ متاثر ہوتی ہے اور وہ کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے ۔ انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے منصفین اور قانون لاگو کرنے والوں کو انکے عہدوں پر فائز کرنے سے پہلے اس بات کا مکمل یقین اور ادراک کر لینا انتہائی ضروری ہے کہ کیا یہ لوگ ان عہدوں سے انصاف کر سکیں گے جن پر انہیں تعینات کیا جا رہا ہے کیونکہ جو شخص اپنے غصے پر قابونہیں پا سکتا اس سے انصاف کی توقع نہیں کی جا سکتی اس سے نہ صرف لوگوں کی حقوق زنی ہوگی بلکہ معاشرے میں افرا تفری اور خوف و حراس پھیلنے کا اندیشہ بھی ہوگا ۔ جب ہم اپنے جذبات پر قابو پانے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو اسے جارحیت کا نام دیا جاتا ہے اور ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص غصے میں ہے یا وہ آپے سے باہر ہے۔کسی کا قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی کو تکلیف پہنچائے بغیر اپنے حقوق کیلئے مطالبہ کرنا بے شک اسکا تفویضی حق ہے ۔ مگر اسکا غصے میں آ کر املاک کو نقصان پہنچانا، مار دھاڑ کرنا، گالم گلوچ کرنا خود سوزی کرنا اور خود کشی کا اقدام چونکہ قانون کے زمرے میں آتے ہیں لہٰذا ہم اسے جارحیت کہینگے بلکہ یہ ایک ایسی علامت ہے جسکا تعلق اسکے حقوق سے ہے۔ غصہ ایک ایسی حالت کا نام ہے جو وقتی طور پر کسی پر بھی طاری ہوتا ہے ہمیں غصے ، بدلے ، انتقام ، عداوت اور دشمنی میں فرق کرنا ہوگا یہ مختلف کیفیات کے نام ہیں اور ان کیفیات کے پیچھے حالات و واقعات کا ایک تانا بانا ہوتا ہے اور منصوبہ بندی کار فرما ہوتی ہے ۔ غصے کی ایک ایسی کیفیت جس میں کسی سے بات نہ کرنا اور خاموش رہنا ، کھانا پینا چھوڑ دینا، کام نہ کرناکسی کا کہنا نہ ماننا، ہر کام کو الٹ کرنا وہ کیفیات ہیں جنکا تعلق کسی بھی انسان کی نفسیات سے ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے دل کی بھڑاس دوسروں پر اپنا غصہ کرکے نکا لیتے ہیں مگر کچھ لوگ انتہائی خاموش رہتے ہوئے خود پر جبر کرکے اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض اوقات انسان غصے کی حالت میں اپنا گھر با ر چھوڑنے پر بھی تیار ہو جاتا ہے جو گھر والوں سے اسکی انتہائی نفرت اور اور خود سے نفرت کا اظہار ہوتا ہے۔وہ خود کو بے بس اور لاچار سمجھتا ہے وہ دوسروں کی ہمدردیاں جیتنا چاہتا ہے، وہ دوسروں کی توجہ چاہتا ہے، اور وہ اپنی غلطیاں ماننے کو ہر گز تیار نہیں ہوتا کیونکہ اسکے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفقود لو کر رہ جاتی ہیں۔

اپنے غصے پر قابو رکھنے کیلئے کوششیں کرنا ہمارے سوچنے کے انداز، ہماری محسوسات، ہمارا رویہ، ہماری صحت اور ہماری شخصیت کیلئے بہت ضروری ہے تاکہ معاشرے میں ہمیں اچھی اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جا سکے کیونکہ جو لوگ غصے میں بہت ذیادہ بر انگیختہ ہو جاتے ہیں وہ نہ صرف اپنے عزیز و اقاب، ماں باپ ، بہن بھائیوں کی نظروں میں گر کر ان سے کٹ جاتے ہیں بلکہ وہ معاشرے میں بری نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور لوگ ان سے ملنے سے جھجکتے ہیں اور ایسے لوگوں سے دور رہتے ہیں اور انکی یہ ہیجانی کیفیت نہ صرف لوگوں کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے بلکہ یہ ہیجانی کیفیت انکے بیوی بچوں کی زندگی پر اثر انداز ہوکر انکی شخصیت کو متاثر کرتی ہے جو انتہائی خطرناک ہوتی ہے اس سے انکے بچوں کی شخصیت متاثر ہو کر انمیں بھی یہ اثرات چھوڑتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی شخصیت کو مسمار کر لیتے ہیں اور اس بات کا یہ قوی امکان اور نتیجہ ہو سکتا ہے کہ انکا یہ غصہ انکی آنے والی اولاد در اولا د میں منتقل ہوتا رہے جو انتہائی خطرے کی گھنٹی ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ جس ماحول میں بچہ پل کر بڑا ہوتا ہے وہ اسکے اثرات کو قبول کرکے ویسا یہ رویہ اختیار کرلیتا ہے۔

ہمیں غصہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ غصے سے جہاں ہم اپنے ارد گرد کے ماحول پر اثر انداز ہوکر اس سے کٹ جاتے ہیں وہیں ہم اپنے لئے زہنی، جسمانی اور اپنے کردار کی شکست و ریخت کا شکا ر بھی ہو رہے ہوتے ہیں جو ہم اپنے لئے خود پید اکر رہے ہوتے ہیں اور ہم اپنی صحت ، خوبصورتی اور دماغ پر اسکے برے اثرات انتہائی تیزی سے چھوڑ رہے ہوتے ہیں جو آہستہ آہستہ ہماری زندگی کو متاثر کرکے اسے کھوکھلا کر رہے ہوتے ہیں اور اسکا انجام انتہائی ذہنی ، دماغی اور دلی امراض کی صورت میں نکلتا ہے اور پھر اسکا علاج مشکل اور پیچہدہ ہو جاتا ہے جو ہماری زندگی کے لمحات کو مختصر کرتے ہوئے ہمیں موت کی جانب لے جاتا ہے ۔ اور ہر دو صورتوں میں ہم بے دھیانی اور بے خیالی میں غصے کی بھینٹ چڑھ کر اپنی تباہی کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں غصے کو تھوک کر اپنی صحت اور زندگی کو کم ہونے سے بچانا چاہئے کہ یہ ہمارے لئے ، ہمارے خاندان کیلئے اور اپنے بیوی بچوں کی زندگی کو خوشگوار بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

ہمیشہ جب بھی آپ غصے میں ہوں تو اپنے دماغ کو ٹھنڈا رکھئے، جلد بازی سے کام مت لیں، بولنے سے پہلے سوچیں ضرور کہ کیا آپکے بولنے سے کسی کی بے عزتی تو نہیں ہو رہی اور کوئی آپکے غصے سے متاثر تو نہیں ہوگا۔ اپنی سوچوں کو ایک جگہ پر جمع کرکے ایک بار سوچیں ضرور کہ کیا جو کچھ آ پ سوچ رہے ہیں وہ کہیں غلط تو نہیں جس سے تمہارا دماغ اتنا آگ بگولہ ہو رہا ہے۔ اپنی جگہ کو تبدیل کرلیں، پانی پئیں، جس بات پر غصہ آ رہاہے اسکے برے پہلوؤں کے بارے میں سوچیں اور اسکے خطرناک نتائج پر غور کریں کہ کہیں آپکی ذرا سی بے و قوفی آپکو زندگی بھر نقصان پہنچانے کا باعث ہی نہ بن جائے۔

جب آپ ان تمام باتوں پر غور کر لینگے تو آپکے لئے چیزوں کو سمجھنا آسان ہو جائیگا اور بجائے منفی پہلوؤں کے مثبت پہلوؤں پر غور کرینگے اور آپکے غصے میں میں کمی واقع ہو گی۔

جب انسان کو غصہ آتا ہے تو اسکی ذہنی اور جسمانی کیفیت متاثر ہوتی ہے اسکے لئے اسے چاہئے کہ جونہی اس غصہ آئے وہ اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر لمبے لمبے سانس لے اور اگر ٹی وی ہے تو اسے ٹی وی دیکھ کر اپنا دھیان بٹا نا چاہئے جو اسکے لئے بہت ضروری ہے۔ اس سے کافی حد تک غصے کی شدت میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

اپنے آپکو ایسے لوگوں کے بارے میں جنہیں آپ پسند نہیں کرتے منفی رجحانات سے دور رکھیں اور انکے بارے میں مثبت سوچ رکھیں۔ اسطرح آپ کافی حد تک غصے کی کیفیت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جو آپکی صھت کیلئے بہت ضروری ہے۔

بجائے اس بارے میں سوچیں جو آپکے غصے کا باعث بنا ہے اسے ایک طرف رکھ کر اسکے پہلوؤں پر غور کریں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ ہی غلط ہوں یا پھر و ہ شخص جو آپکو کسی کے بارے میں بھڑکا رہا ہے یا طیش میں لا رہا ہے وہ کسی طرح اپنے مذموم مقصد کو پورا کرنا چاہ رہا ہو۔ بچوں کی باتوں میں ہرگز مت آئیں اور نہ ہی انکی باتوں پر کان دھریں۔ یہ چیز انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے ۔ بعض اوقات بچوں کی لڑائی میں بڑوں کی قتل و غار ت گری ہو جاتی ہے۔ جو انتہائی خطرناک ہو تی ہے اس سے ہمیشہ بچیں۔ بچوں کا خیال رکھنا ان سے محبت کرنا ہمارے جذبات سے وابسطہ ہے مگر بچوں کی لڑائی ہمیشہ بڑوں کیلئے خطرے سے خالی نہیں ہو ا کرتی لہٰذا اس پہلو پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔

ہمیشہ دوسروں پر طعنہ زنی یا پھر انکی خامیاں نکالنے سے پہلے ان پہلوؤں پر غور کر لیں کہ کیا وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں کہیں کوئی غلط فہمی تو نہیں یا پھر کسی بات کو کرنے سے پہلے یہ غور کر لینا کہ آپ جس شخص پر الزام عائد کر رہے ہیں کہیں وہ کسی کی آپکے خلاف سازش تو نہیں جسکی بھینٹ آپکو چڑھایا جا رہا ہے۔ ہمیشہ دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کرنا سیکھیں۔ آپکے پاس اس سے بڑا ہتھیار کوئی نہیں کہ آپ بجائے اس کے کہ انتہائی غصے میں آ جائیں بلکہ کسی کو اسکی غلطی کو نظر انداز کرکے اپنے روئے میں لچک پیدا کرنا اور دوسرے کو محسوس کروانا ایک ایسا ہتھیار ہے جو اسے نہ صرف شرمندہ کر دیگا بلکہ اسکا ضمیر اسے ملامت کریگا اور وہ آپ سے معافی مانگنے پر مجبور ہو جائیگا۔ کم از کم وہ اپنے دل میں یہ ضرور سوچے گا کہ اس نے ذیادتی کی ہے اوریہ تمہاری کامیابی ہے۔ ہمیشہ اپنے غصے پر قابو پانا سیکھیں جو لوگ غصے پر قابو پا لیتے ہیں وہ نہ صرف مشکلات سے بچ جاتے ہیں بلکہ وہ لوگ اپنی صحت ، خوبصورتی اور اپنی زندگی کو بڑھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اپنی زندگی میں خوش و خرم رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو دوستوں، عزیز و اقارب اور معاشرے میں رہنے والے اردگرد کے لوگوں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ہمیں چاہئے کہ ایسے لوگوں سے محبت کریں جو اپنے حالات کی وجہ سے غصے کے مرض میں مبتلا ہیں جہاں ایسے لوگوں سے ہمیں انتہائی نرم مزاجی سے پیش آنا ہوتا ہے وہیں ہمیں انہیں اس بات کا احساس بھی دلانا ہے کہ انکا یہ رویہ قابل مذمت ہے اور انکے رویے میں تبدیلی کے احساس کو اجاگر کروایا جانا بھی انتہای ضروری ہے ۔ ایسے لوگ جہاں معاشرے میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے وہیں یہ لوگ قابل رحم بھی ہوتے ہیں ۔ یہ کسی بھی شخص کے حالات پر منحصر ہوتا ہے مگر اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ایسے لوگ اپنے حالات کی رو میں بہہ کر غصے میں دوسروں کو نقصان پہنچاتے پھریں۔ اسکے سد باب کیلئے جہاں ان سے ہمدردی رکھنا بہت ضروری ہے وہیں انہیں احساس دلایا جانا بھی ضروری ہے تاکہ وہ اپنے غصے پر قابو رکھ سکیں اور یہی انکے حق میں بہتر ہے۔ غصہ انسان کی انسانیت چھین کر اسے حیوان بنا دیتا ہے جو اسے ماں، باپ، بہن، بھائی ، بیٹی اور بیوی کے علاوہ دوستوں اور عزیز و اقارب میں نفرت کی وجہ بنتا ہے ۔ حتیٰ الوسیٰ اپنے دل میں لوگوں کیلئے محبت کے جذبات رکھیں، دوسروں کی عزت اور وقار کو محترم سمجھنے میں ہی کامیابی ہے غصہ تھوکیں ، اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں اور اپنی زندگی کو خوشگوار بنائیں کہ یہی نرم رویہ اور اچھا طرز عمل ہماری پہچان ہے۔ آئیں ہم سب مل کر اپنے معاشرے میں پیار اور محبتیں بانٹیں غصہ انسان کیلئے انتہائی خطرناک ہے جو معاشرے میں منفی رجحانات کو جنم دیتا ہے ۔
Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 138388 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.