فیصلے بول رہے ہیں

نائن الیون کے واقعے کے بعداس وقت کی غیرمنتخب مشرف حکومت ایک امریکی فون کال پر ڈھیرہوگئی تھی جس کی سزا ساری قوم ابھی تک بھگت رہی ہے اور فاسق کمانڈو کواب تک ان گنت صلواتیں سننے کومل رہی ہیں لیکن موجودہ جمہوری منتخب حکومت نے تواس سے بھی کہیں زیادہ کمزوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ سوچنے پرمجبورکردیاہے کہ ہم ابھی تک غلام ہیں۔ قصرسفیدکے نئے فرعون ڈونلڈٹرمپ نے جونہی حلف اٹھایاہماری موجودہ حکومت نے فوری طورپرامریکی وبھارتی آشاؤں کے تحت فیصلے کرنے کی شروعات کردی ہیں اوراپنی وفاداری کاعملی ثبوت دیتے ہوئے جماعتہ الدعوةپرپابندی لگاتے ہوئے حافظ سعیداوران کے دیگرساتھیوں کو گھروں میں نظربند کرکے جماعت کی تمام فلاحی کاموں پر پابندی لگادی گئی ہے۔ان شروعات میں یہ پاکستان میں ایک بڑاواقعہ ہے کہ بھاری عوامی مینڈیٹ رکھنے والی اوراپوزیشن کے تمام ہنگاموں کے باوجود عوام میں اپنی ہردلعزیزی،ہرضمنی انتخاب کے دوران ثابت کرتی چلی آنے والی حکومت بھی تقریباً اسی طرح امریکی دباؤ کے سامنے ڈھیرہوگئی ہے لیکن اب کی باریہ فیصلہ بظاہر اعلیٰ سطحی کے حکومتی رابطوں کے نتیجے میں بلکہ امریکامیں پاکستانی سفیرجلیل عباس جیلانی کے حالیہ دنوں میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ہونے والے وزٹ کے دوران پاکستان ڈیسک کے امریکی سربراہ کی طرف سے مطالبات کی روشنی میں کرناپڑاہے۔یہ بھی معلوم ہواہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے جہاں پروفیسر حافظ محمدسعیدکے بارے میں اپنے غم وغصے کااظہارکیاوہیں پاکستان کے غدارشکیل آفریدی کوعدالتی احکامات کو مقدمات کے باوجودرہاکرنے اور افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی کواشرف غنی حکومت کے مفادات اوراطمینان کے تابع کرنے پرزوردیا۔

اس تناظرمیں پاکستان پرمختلف حوالوں سے امریکی دباؤ اوراس کے نتیجے میں فیصلوں کی تاریخ بلاشبہ طویل ہے،اگرماضی قریب کوہی دیکھاجائے تو نائن الیون کے بعدکے فیصلوں میں قوم کے محسن اورہیروڈاکٹرعبدالقدیرخان کی نظر بندی کی وجہ بھی اسی طرح کادباؤ بنااورباربارحافظ سعیداور بعض دوسرے پاکستانیوں کونظربندکیاجاتارہاہے تاہم اس مرتبہ حافظ سعید کے علاوہ ان کے چار دیگرساتھیوں کی نظربندی حفاظتی تحویل میں لیے جانااوران کے گھرکوسب جیل قراردیا جانا مختلف اندازمیں ہواہے۔کہاجارہاہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ایشیاپیسفک سے متعلق فورم کے پاکستان سے مطالبات کو بھی دباؤ کیلئے خوب استعمال کیاہے اورپاکستان کواقتصادی پابندیوں کی بھی ایسی دہمکی دی گئی جو کارگرہوتی نظر آتی ہے۔ امریکی دباؤ کے اس مرتبہ بااندازدیگرمؤثرہونے کاسب سے اورفوری فائدہ بھارت اوربھارت کی مودی سرکارکوہوگاکہ ایک جانب مسئلہ کشمیرکے حل کیلئے اورکشمیری عوام کے حق میں حافظ سعیدمسلسل ایک توانا آوازبلندکرنے والی شخصیت کی شہرت رکھتے ہیں،اس پس منظرمیں حافظ سعید اوران کی جماعت بھارت کوکانٹے کی طرح کھٹکتی اورچبھتی رہی ہے اورآج بھی بھارت اس کواپنے لئے باعث تکلیف اورخطرہ سمجھتاہے۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ حافظ سعید کشمیراوراہل کشمیرکیلئے غیرمعمولی اورغیرمتزلزل کمٹمنٹ رکھتے ہیں جو بھارتی قابض فوج کے مظالم کوبے نقاب کرنے کااذریعہ بنتی ہے ۔اس لئے بھارت کو کشمیرمیں اپنے اندھادھند مظالم کے خلاف ایک آوازکودبانے میں امریکانے مدددی ہے۔اس سے بھارتی فوج کامکروہ چہرہ بھی اب نسبتاًکم سامنے لائے جانے کی بھارتی خواہش بھی پوری ہوسکے گی کہ حافظ سعیداوران کے چاراہم ساتھی آزادنہیں رہے ہیں جبکہ خودجماعت الدعوة کوکئی سال زیر نگراانی رکھنے کے بعددہشتگردی کے شواہدپائے بغیراس کی نگرانی مزیدسخت کردی گئی ہے۔

امریکی دباؤ میں کئے گئے اس فیصلے کاایک فائدہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اوران کی جماعت کواس تناظرمیں ہوگاکہ بعض بھارتی ریاستوں میں متوقع انتخابات میں اسے نریندرمودی کی ایک بڑی کامیابی منوایاجاسکے گا۔کل جماعتی حریت کانفرنس کے بزرگ رہنماءسیدعلی گیلانی نے اس پابندی کی افواہوں کے ماحول میں پاکستان میں میڈیاسے بات کرتے ہوئے کہاہے کہ اس عمل سے بھارت کی خدمت سرانجام دی گئی ہے۔ان کایہ بھی فرماناتھاکہ اس عمل کیلئے دباؤ بھارتی ایجنڈہ ہے اورٹرمپ انتظامیہ اپنی انتخابی مہم میں ہندو انتہاء پسندوں کی خدمت کے معاوضے کے طورپرپاکستان میں ایسا اقدام چاہتی ہیں لیکن ہم امید رکھتے ہیں کہ پاکستان کی منتخب حکومت ایسے کسی اقدام سے گریزکرے گی۔ حافظ سعیدکاجرم اس کے سواکچھ نہیں ہے کہ یہ مردِدرویش اسلام،اسلامی اقدار، مظلوم کشمیری اورکشمیرمیں بھارتی افواج کی طرف سے کئے جانے والے قتل عام کے خلاف آوازاٹھاتا ہے۔پاکستان کی منتخب قیادت کوچاہئے کہ امریکی ڈکٹیشن پرعمل کرنے کی بجائے پاکستان کی حقیقی قوتوں اوراپنے عوام پراعتمادکریں لیکن خدانخواستہ امریکی دباؤ مانا گیاتوپھرڈومورکاایساراستہ کھلے گاکہ کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔حکومت پاکستان نے ماضی میں نظربندی ، سولہ ایم پی او کے تحت کی جاتی رہی جو عدالت سے ختم کردی جاتی رہی۔اس سارے عرصے میں حافظ سعیدکے وکیل رہنے والے اے کے ڈوگرکاکہناہے کہ ماضی میں توان پرکوئی جرم ثابت ہوا نہ ان کی گرفتاری یانظربندی کاجوازثابت ہوسکا۔ان کایہ بھی کہناتھااب حافظ سعید کے خلاف جوانسداددہشتگردی ایکٹ کی دفعہ لگائی گئی ہے بادیٔ النظر میں تواس کاکوئی جوازنہیں ہے کہ ان پرکبھی کوئی ایساجرم ثابت نہیں ہوالیکن ابھی میرے سامنے دستاویزات نہیں ہیں اس لئے جب متعلقہ ریکارڈملے گا توتب ہی اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے دی جا سکے گی۔

ابھی اس معاملے کے مزیدپرت کھلنے میں وقت لگے گاجیساکہ وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے بھی عندیہ دیاہے اورآئی ایس پی آرکے سربراہ میجر جنرل آصف غفورنے اپنی پہلی میڈیابریفنگ میں یہی کہاہے کہ اس سلسلے میں تفصیلات متعلقہ حکام کی طرف سے سامنے آجائیں گی،گویاآئی ایس پی آر نے اس تاثرکوبڑے اچھے اندازمیں دورکرنے کی کوشش کی ہے کہ حافظ سعیدکی نظر بندی کوئی اچانک یابغیرسوچے سمجھے کیاگیااقدام نہیں ہے بلکہ اسے ریاستی پالیسی کانتیجہ قراردیاگیاہے۔حافظ سعیدکی نظربندی سے بعض لوگ یہ سوال بھی اٹھانے لگے ہیں کہ ان متنازعہ ڈان لیکس کے حوالے سے پچھلے دوڈھائی ماہ سے جاری تحقیقات بھی کسی حدتک غیرمتعلق ہوجائیں گی کہ جن افرادکے حوالے سے ڈان لیکس میں سول حکومت اوراسٹیبلشمنٹ میں اختلافات کاتاثردیا گیاتھااب وہ تاثرباقی نہیں رہاہے جیساکہ آئی ایس پی آرنے حافظ سعید کی نظر بندی کوریاستی پالیسی کہہ کر اس حکومتی فیصلے کی حمائت کردی ہے۔ غالباً حکومت بھی ڈاب لیکس سے متعلق کمیٹی کی تحقیقات کوزیادہ گہرائی میں اسی لئے لے جانے کے انداز اختیار کئے ہوئے تھی کہ سے اندازہ تھاکہ دسمبرجنوری میں کوئی ایسابڑافیصلہ ہوجائے گا،اس وقت تک ڈان لیکس کے متعلق تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ مؤخر رکھی جائے ۔

جیساکہ اب تجزیہ کاروں نے ڈان لیکس کوایک مردہ گھوڑاکہناشروع کردیاہے، بظاہرجس ایشوپراختلاف کاشوشہ گھڑاگیاتھاوہ بنیادہی ریاستی پولیس کی اصطلاح کے بعدباقی نہیں رہی ہے اس لئے اب ان تحقیقات کوسامنے لانایانہ لانا کسی حد تک واقعی غیرضروری کہااور سمجھا جانے کی بھی راہ ہموار،کیونکہ حکومت جس کی جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ سعید کے بارے میں ایک متنازعہ خواہش ڈان لیکس کے ذریعے سامنے لائی گئی تھی، پیرکی رات حکومت نے اسے عملاًپوراکرلیاہے اورڈان لیکس کو سچاثابت بھی ثابت کردیاہے۔ڈان لیکس اگرچہ آئی ایس پی آرکے ترجمان نے امید ظاہرکی ہے کہ ڈان لیکس کے حوالے سے حکومت تحقیقات کرارہی ہے اوراگلے دنوں رپورٹ سامنے آجائے گی۔اللہ کرے ایساہوجائے،حالیہ دنوں میں توایسے واقعات گواہی دے رہے ہیں کہ بعض انتہائی چھوٹے ایشوزپرکمیٹیوں کی تحقیقات مکمل ہونے کےبعدبھی انہیں سامنے لانے گریزکی پالیسی رواہے حالانکہ اس میں بظاہر کوئی بڑی شخصیت شایدملوث نہیں ہے لیکن اس کے باوجوداحتیاط برتی جارہی ہے تواتنے اہم اورحساسیت اختیارکرجانے والے ایشوپرجس کی وجہ سے وزیر اطلاعات پرویز رشیدکی قربانی کرنی پڑی تھی،اس بارے میں رپورٹ کیسے سامنے آئے گی،بہرحال ایک سوال رہے گا۔

حافظ سعیدجن کاسیدعلی گیلانی کے مطابق اصل جرم کشمیراوراہل کشمیرکے حق میں آوازبلندکرناہے پرمنی لانڈرنگ کے الزامات بھی محض ایک عذرلنگ سے زیادہ کچھ نہیں ہے ،اگرکوئی ٹھوس شہادت اس حوالے سے ہوتی تو اب تک پاکستان کے اداروں کے بھی سامنے آچکی ہوتی اوربین الاقوامی طاقتیں یاکم ازکم بھارت اسے سامنے لانے میں چنداں تاخیرنہ کرتا،یہی معاملہ حافظ سعیدکے خلاف دہشتگردی کے اوزے کسنے کاہے کہ اگرکوئی ایسی چیزہوتی تواب تک عدالتوں میں ثابت ہوچکی ہوتی اورکچھ نہیں توکم ازکم ممبئی حملے کے حوالے سے ہی بھارت کوئی چیزسامنے لاچکاہوتا۔ جہاں تک اس معاملے میں قومی مفاد کے بیانیے کاتعلق ہے اس کیلئے قوم کواطمینان دلانے کیلئے حکومت کوکافی محنت کرناپڑے گی۔اگرصوبائی وزیرراناثناءاللہ کا یہ مؤقف درست ہے کہ حافظ سعیداورپاکستان کے کشمیرکے بارے میں مؤقف میں فرق ہے توانہیں ان کے بڑوں کوبتاناپڑے گاکہ آج کل کشمیرکے بارے میں کیاکوئی نئی قومی پالیسی بروئے کارہے۔نیزیہ بھی بتاناہوگاکہ حافظ سعیدکاواقعی یہی جرم ہے تومتعلقہ حکومت اوراداروں کو اس سے پہلے یہ خبر کیوں نہ ہوسکی۔حکومتی ناک کے نیچے کیاہوتارہاہے۔اس سوال پربھی غورکرنے کی ضرورت ہوگی کہ ایک صوبے کے وزیرقانون کوہی خارجہ پالیسی کی وضاحت کرنے کیلئے بھی کیوں بلایا جاتا ہے۔ کیا کشمیر پالیسی پرکوئی اوربات کرنے کوموجودنہیں ہے کہ ہر معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی رانا ثناء اللہ ہی مفیدسمجھے جاتے ہیں۔یہ خوش آئندبات ہے کہ جماعت الدعوة کے امیرکی نظربندی کے بعد میاں نواز شریف سے آرمی چیف جنرقمرباجوہ کی ملاقات میں درپیش صورتحال اور چیلنجوں کاجائزہ لیاگیاہے۔ اس ملاقات کے بعدآرمی چیف کادہشتگردوں کے بارے میں دوٹوک بیان بھی سامنے آیاہے۔

دیکھاجائے تویہ پاکستان کااصولی مؤقف ہے کہ پاکستان کی سرزمین دہشتگری کیلئے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی لیکن بھارت،افغانستان،دبئی، برطانیہ حتیٰ کہ سوئٹزرلینڈمیں پاکستان کے خلاف بیٹھ کرکی جانے والی سازشوں کی شکایات عالمی فورمزپرمؤثراندازمیں کئے جانے میں کیاحائل ہے کہ پاکستان کے کلبھوشن کے بارے میں ڈوزیئربھی ابھی تک بھارتی امن دشمنی کاایک مضبوط حوالہ دنیا کے سامنے نہیں بناسکے۔پاکستان کے سفیر دوسرے ملکوں میں قومی مؤقف کادفاع کرنے اورپاکستان کے مفادات کے تحفظ سے زیادہ الٹامیزبان ملکوں کے نمائندوں کے طورپرہی یامحض ان کے پیغامبروں کاکردار اداکررہے ہیں۔ ہماری سفارتی مشینری کس قدرناکارہ پن کاشکارہے ،اس کی تازہ مثالیں طارق فاطمی کا امریکاکے دس روزہ دورے کے بعدبھی اپناسامنہ لیکرواپس آناہے، جیسے ہمارے نمائندے کچھ لینے نہیں بلکہ دینے کیلئے جاتے ہیں۔قوم کی مظلوم بیٹی عافیہ صدیقی کے حوالے سے ہماری سفارتی بے حسی شرمناک حدوں کو چھوچکی ہے کہ سابق امریکی صدراوباما کی طرف سے معافی کی پالیسی سے بھی ہمارادفترخارجہ فائدہ نہ اٹھاسکا۔قومی سلامتی ،وقار،خود مختاری اورمفادات کے تحفظ کیلئے قومی سطح پرکیاکچھ مزیدکرنے کی ضرورت ہے اس کیلئے ہر جانب سے خالصتاً قومی سوچ کے تابع عمل ہی ایک زندہ اورباوقارقوم کے طور پرآگے بڑھنے کی ضمانت ہوسکتی ہے۔

حافظ سعید اوران کے ساتھیوں کی نظربندی اورپائپ لائن میں مزیدفیصلوں اور اقدامات کے ساتھ ساتھ اس پہلوکے بارے میں بھی قوم کواعتمادمیں لیے رکھنے کی ضرورت ہے کہ کشمیرکے بارے میں مجموعی پالیسی کارخ کیابن رہاہے۔یوم یکجہتی کشمیرکی ریلیوں سے محض چندروزقبل کیے گئے اس مشکل فیصلے کا اہل کشمیرکوفائدہ ہوگایانقصان،اس کااندازہ کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوسکتا لیکن اس کے بدلے میں عالمی سطح سے پاکستان کوکیاحاصل ہو گااس کے بارے میں ضرورقوم کو اعلیٰ ترین سطح سے اعتمادمیں لینے کافائدہ ہوگا وگرنہ بڑاہی منفی تاثرپیداہوگاکہ ایک جانب سپریم کورٹ یہ پکار پکار کرکہہ رہی ہے کہ فیصلے کسی کی خواہشات کی بنیادپرنہیں قانون کے مطابق ہوں گے لیکن اس معاملے میں قانون نہیں غیرملکی خواہشات کی تکمیل کی گئی ہے جیساکہ حافظ سعید کے بارے میں عدالتوں کے ماضی میں سامنے آنے والے فیصلے بول رہے ہیں اوران کے سابق وکیل اے کے ڈوگرنے بھی کہاہے کہ ان کے خلاف کبھی کچھ ثابت نہیں ہوسکاہے۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 349081 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.