کیسے خود بھی بچ پاؤگے؟

نویدبڑی پریشانی میں شام گئے اپنی دوکان پر آیا اور اپنے دوست کو کہا کہ اُس بنک کے نام ایک ای میل بنا دے جس سے اُس نے دو سال پہلے پانچ سال کی اقساط پر کار لی تھی ۔۔۔۔
اب وہی ناجائز کمائی سے اپنے لیئے ایک نمبر شے لینے نکلتا ہے۔اُس طرح کا ہی دوسرا شخص اُسکو ملتا ہے ۔ وہ بھی دونمبری کرتا ہے ۔ وہ ایک نمبر کی ادائیگی کر دیتا ہے۔ کڑی سے کڑی ملتی ہے کھانے کی چیزیں بھی دونمبر اور پھر ایک دِن اپنی اپنی باری پر ہسپتال میں پڑے ہو تے ہیں ۔ وقت بڑا ظالم ہو تا ہے۔وہاں بھی کڑی اُنکی بد اعمالیوں سے ملتی ہے۔ وہ جو پیسہ بھی رکھتے ہیں اور خواہش بھی کہ اُنکا درد ختم کر دیا جائے۔ اُنکی جان بچا لی جائے۔لیکن کیسے؟۔۔۔۔جب نوید یہ باتیں کر رہا تھا۔۔۔۔

معاملہ اصلی نقلی کا

نویدبڑی پریشانی میں شام گئے اپنی دوکان پر آیا اور اپنے دوست کو کہا کہ اُس بنک کے نام ایک ای میل بنا دے جس سے اُس نے دو سال پہلے پانچ سال کی اقساط پر کار لی تھی ۔ تما م اقساط وہ بر وقت جمع کرواتا رہا ۔لیکن اس ماہ قسط کی مقررہ تاریخ کے آنے سے دس دِ ن پہلے ہی اُس نے متعلقہ بنک انتظامیہ سے پوچھ کر کار کی بقایا تمام رقم جمع کروا کر رسید لے لی اور کار کے این او سی کیلئے بھی درخواست دے دی تاکہ کار اُس کے نام ہو جائے اور بنک سے اس سلسلے میں کوئی لین دین نہ رہے۔ اتنے دِنوں میں این او سی تو جاری ہوا نہیں یہ اطلاع ضرور آگئی ہے کہ اس ماہ کی قسط بھی کاٹ لی گئی ہے ۔ یہ کیا ہے ؟

دوست نے ہنستے ہوئے کہا کہ کیا آجکل خبریں سُن نہیں رہے اور اخبار پڑھ نہیں رہے کہ یہاں تو بیماری میں علاج و معالج کے مسائل پیدا ہو چکے ہیں اور زندگی موت کے قریب نظر آ رہی ہے۔شاید تمھیں اطلاع نہیں کہ چوہدری صاحب کی طبعیت رات گئے ناساز ہو گئی تھی اور اُ نھیں ایمرجنسی میں ہسپتال لیکر جانا پڑا ہے۔ فسٹ ایڈ ملنے سے فی الوقت حالت تو سنبھل گئی تھی لیکن متعلقہ تکلیف اور مستقبل میں احتیاط کیلئے جس علاج کی ضرورت ہے اُس کا انتظام ممکن نہیں ہو رہا۔نوید بولا ! چوہدری صاحب جیسے نیک اور ملنسار کو بھی ؟ اوہ!

پھر چند لمحوں بعد نوید نے جو سوچ کر کہا وہ ایک عوامی سوچ کو مختصر الفاظ میں بیان کر دینے کے برابر تھا۔ معاشر ے کی پہچان فرد کے کردارو اخلاق سے ہوتی۔ اِن خصوصیات کی وجہ سے ہی اُسکو سچا اور ایماندار سمجھا جاتا ہے اور یہی اعتبار کی سب سے سے اہم کڑی ہے۔ زندگی کی ضروریات خدمات و اشیاء سے منسلک ہیں۔ جسکی جب ضرورت ہوتی ہے فرد وہاں ہو تا ہے اور خواہش کرتا ہے کہ جیسا وہ چاہتا ہے ویسا ہی معاملہ ہو۔

کیا ایسا ممکن ہے ؟ خاص طور پرجب معاشرے میں جھوٹ ، بے ایمانی اور بلیک مارکیٹنگ غالب آجائے۔ یعنی اپنی ضروریات کیلئے سب ایک نمبر اور دوسرے کی ضرورت کیلئے دو نمبر۔اپنے لیئے مال دوسرے کا کر کے استحصال۔

مثلاً ایک فرد کسی بھی قسم کی خدمت دینے و شے بیچنے کے دوران اپنی چرب زبانی سے اگلے کو ایسا شیشے میں اُتار لیتا ہے کہ وہ اُس کا قائل ہو جاتا ہے اور اُسکا معاوضہ ادا کر کے چلاجاتا ہے ۔اُس وقت کیا وہ یہ بھول جا تا ہے کہ اگر پودا کا نٹے دار لگا یا ہے تو اپنے ہاتھ میں بھی چبے گا۔ پھر اُس نے کہا! مثال کے طور پر ذرا غور کریں۔

اب وہی ناجائز کمائی سے اپنے لیئے ایک نمبر شے لینے نکلتا ہے۔اُس طرح کا ہی دوسرا شخص اُسکو ملتا ہے ۔ وہ بھی دونمبری کرتا ہے ۔ وہ ایک نمبر کی ادائیگی کر دیتا ہے۔ کڑی سے کڑی ملتی ہے کھانے کی چیزیں بھی دونمبر اور پھر ایک دِن اپنی اپنی باری پر ہسپتال میں پڑے ہو تے ہیں ۔ وقت بڑا ظالم ہو تا ہے۔وہاں بھی کڑی اُنکی بد اعمالیوں سے ملتی ہے۔ وہ جو پیسہ بھی رکھتے ہیں اور خواہش بھی کہ اُنکا درد ختم کر دیا جائے۔ اُنکی جان بچا لی جائے۔لیکن کیسے؟

ایسی حالت میں اگر اُن سے پو چھا جائے تو اُس وقت وہ بھی صاف کہہ دیتے ہیں :" وہ نظام کو روئیں۔حکمرانوں کو کوسیں یاانتظامیہ کی بے حسی کو زیرِ بحث لائیں"۔ کس کس کو کیا کہیں ؟" احساس کون کر رہا ہے " ؟ " کیسے خود بھی بچ پائیں گے"؟۔بندہ اُس وقت سوچتا ہے " کون کہہ رہا ہے"؟

جب نوید یہ باتیں کر رہا تھا چند اور بھی اُسکے پاس آکر کھڑے ہو کر سن رہے تھے اور کہہ رہے تھے بالکل ٹھیک بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔ جس پر اُس نے کہا بات یہاں ختم نہیں ہو تی ۔ اگر کچھ اچھا پڑھو یا سنو تو آگے بھی بتاؤ اور پہلے خود بھی عمل ضرور کرو۔
Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 307326 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More