سہولت کار کون ؟ ممبران اسمبلی سے بھی پوچھا جائے

حالیہ دہشت گردی کے واقعات نے ایک بار پھر سے اس بات کا احساس دلایا ہے کہ پاکستان کی حکومت اوراس میں موجود اداروں نے معاشر ے میں بسے افراد کے ساتھ ملکر کچھ اہم فیصلے کرنے ہیں ،اس وقت ملک کے مختلف مقامات پر زمینی ،فضائی ،سرچ اور کومبنگ آپریشن کے زریعے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیئے جارہے ہیں تاکہ یہ درندہ صفت لوگ اس ملک کی بے گناہ لوگوں کو مزید جابحق اور زخمی نہ کریں ، کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ یہ درندہ صفت تنظیمیں پاکستان کے استحکام اور ترقی کی دشمن ہیں ،جو عوام کو ڈرا دھمکاکراپنے گھناؤنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہتی ہیں ،اس سلسلے میں پاکستان کو اپنی سرزمین پر کچھ ضروری اقدامات کرنا ہونگے اور اس کے ساتھ اس بات کا بھی بندوبست کرنا ہوگا کہ ہمارے ہمسایہ ممالک کی حکومتیں ان عناصر کو کسی بھی قسم کی سہولت نہ پہنچائیں ،اس وقت جہاں تک پاکستان کے اندر کے تعلقات کا معاملہ ہے اس ضمن میں صوبائی حکومتیں مقامی انتظامیہ ،اینٹیلی جینس اور ریاست کے دوسرے اداروں کو زاتی مفادات سے بالا تر ہوکر ساتھ ملکر کام کرنا ہوگا ،اس کے بعد ہمیں پتہ لگانا ہے کہ دہشت گردوں کے شہری اور دیہی علاقوں کے نیٹ ورک کس طرح کام کررہے؟ اور کس طرح ان کے سہولت کار ان کو پیسہ یا دوسری امداد مہیا کرتے ہیں ،اوریہ لوگ ہیں کون ہیں! ہمیں معلوم کرنا ہے کہ اس قسم کے لوگ اپنے زاتی تعلقات کی بنا پر اس کام کو سرانجام دے ہیں؟ یا اس میں کوئی منعظم گروہ شامل ہے جو کہیں پیسے کی لالچ دیکر ہمارے جانے پہچانے لوگوں یا عام شہریوں کو تو نہیں استعمال کررہاہے ؟ اس قسم کی اطلاعات کو حاصل کرنا مقامی انتظامیہ اور اینٹلی جینس کے لوگوں کا کام ہوتاہے اس طرح جب ہمیں ایک دوسرے کے باہمی تعاون کے طفیل ان عناصر کے بارے میں معلوم ہوجائے تو پولیس اور فوج کو ان عناصر کے خلاف اس طرح کارروائی کرنا ہوگی کہ چاہے یہ لوگ کسی بڑے حکومتی آدمی کے رشتے دار ہویا خود سے کوئی ایم این اے یا ایم پی اے !، اس ملک میں اس قدر دہشت گردی کے واقعات رونما ہوچکے ہیں کہ فی الحال ہر شخص ہی مشکوک ہوچکاہے ،یعنی کسی کے منہ پر تو نہیں لکھا ہوتا کہ کہ فلاں شخص عوام دوست آدمی ہے اور فلاح آدمی دہشت گرد ؟ میں سمجھتا ہوں کہ فوج اس وقت ایک منعظم ترین ادارہ ہے جو صرف اور صرف ہمارے امن کی خاطر لڑ رہا ہے یہ فوج ہی جس کے جوان دشمن کو مارتے مارتے خود بھی اپنی جانوں سے چلے جاتے ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ان کے بھی بچے ان کا انظار کرتے ہونگے ہمارے فوجی جوانوں کی مائیں بھی ان کا انتظار کرتی ہونگی ۔خاص طور پر اس ملک میں موجود کسی ادارے کو اگر بھرپور عوامی سپورٹ حاصل ہے تو وہ اس ملک کی فوج ہے جس پر کسی بھی قسم کا شک کرنا اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے متراد ف ہے یعنی ہمیں افوج پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیئے ان کی ہر حال میں بھرپور مدد کرنا ہوگی، قائرین کرام جب ان تشدد پسند عناصر کے خلاف کارروائی کی بات کی جارہی ہے تو اس میں گاؤں دیہاتوں کا نام بھی لیا جاچکاہے اس میں اس ملک میں موجود مختلف اداروں میں کام کرنے والے افسران اور ملازمین کی بھی مکمل چھان بین ہمارے ریاستی اداروں کے پاس ہونی چاہیے کہ کب اور کون کس سے ملتا رہاہے وغیرہ وغیرہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے مدارس میں بھی اس قسم کی خفیہ کارروائی سے کڑی نگرانی رکھنا ہوگی یعنی ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہمارے ان مدارس اور تعلیمی اداروں میں کس قسم کی تعلیم دی جارہی ہے ہمیں کہیں اسلام کے نام پر تشدد پر تو نہیں اکسایا جارہاہے ؟یعنی اسلام کا نام غلط طریقے سے استعمال کرنے والا کا پروپیگنڈہ زائل کرنا ! اس کے ساتھ اس ملک میں موجود لاکھوں افغان مہاجرین کی بھی نگرانی کرنا ہوگی تاکہ ان میں سے اگر کوئی ان دہشت گردوں کا سہولت کار بن رہاہے تو وہ اس قسم کی کارروائی سے قبل ہی پکڑا جاسکے ۔ اس کے علاوہ معذرت کے ساتھ ایک عدد کارروائی ہمارے ملک کے سب سے مہذب ادارے پارلیمنٹ ،قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران سے بھی کچھ نہ معلوم کیا جاسکتاہے میری چھوٹی سی عقل یہ کہتی ہے کہ یہ ہی وہ لوگ ہیں جو اس ملک میں اداروں کے نگہبان ہیں جو اپنی اپنی وزارتوں کو سنبھالنے کے ساتھ عوام کو جواب دے بھی ہوتے ہیں مگر افسوس ایسا نہیں ہے یقیناً اس ملک کی سلامتی کے لیے ہمیں اپنے منتخب نمائندوں کی خبر گیری کرنا ہوگی یعنی مجرم ایک عام آدمی ہی کیوں !جرم کوئی بھی کرسکتاہے؟ ۔میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کی کارروائیاں تمام صوبوں میں ہی ہونا چاہییے اگر ایسا ہوا تو میں سمجھتا ہوں کہ دہشت گردوں کے چھپنے اور ان کی مد د کے امکانات بھی بہت حد تک محدود ہوجائینگے اور بڑے بڑے نام سامنے آسکتے ہیں ۔اس کام کے لیے سیاسی اورمعاشرتی رہنماؤ ں کوفوج کے ساتھ ملکر اپنے ارد گردکے لوگوں کا ذہن بدلنا ہے تاکہ ہم سب اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھیں اور دہشت گردی کی اس جنگ میں سیکورٹی اداروں کی بھرپور مدد ہوسکے اس وقت فوج کا یہ کام ہے کہ وہ ہمارے سرحدی علاقوں کو محفوظ بنائیں تاکہ ہمارے دو ہمسایہ ممالک بھارت اور افغانستان کوئی شرارت نہ کرسکیں ،اس وقت ملک میں تازہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد ہماری فوج کا یہ فیصلہ درست تھا کہ انہوں نے افغانستان کے سرحدی علاقوں سے دشمن کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایااور طالبان سمیت احرار تنظیموں کے کیمپوں کو نشانہ بنایا،اس اقدام سے ہم نے یہ بھی دیکھا کہ افغانستان کی حکومت کی جانب سے پاکستان کو سخت جواب دینے کا بھی کہاگیا،مگر انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ دہشت گرد عناصر پاکستان میں بیٹھ کر ملک کا امن تباہ کررہے ہیں انہیں ہدایات افغانستان کی سرزمین سے مل رہی ہے اور اس سازش کا سرغنہ بھارت ہے جو افغانستان کی اسلحہ ،باردو سمیت ٹھیک ٹھاک انداز میں مالی مدد بھی کرتاہے ،میں سمجھتا ہوں کہ اس جنگ میں اس قدر معصوم جانوں کا ضیاع ہوچکاہے جنھیں گننیں بیٹھیں تو ہماری روح تک کاکانپ اٹھے جس کی بنا پر پاک فوج کی جانب سے اندر گھس کر اس قسم کی کارروائی کرنا اس لیے ضروری تھا کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان کی حکومت کو بار بار اسرارکے باوجودان دونوں او ر دیگر تنظیموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور الٹا ان ہی کی سرزمین کو پاکستان کے امن کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیاگیا،لہذا اس کے لیے وہ جہاں بھی چھپے ہو پاکستان کی مجبوری تھی کہ وہ اس ملک کے دشمنوں کو ٹھکانے لگائے ۔جب کہ مسلسل واقعات کے باعث یہ بات دنیا میں عام ہے کہ کابل کی حکومت بھارتی حکمرانوں کے ساتھ ملکر پاکستان کے امن کو و ثبوتاذ کرنے کی کوشش میں مصروف ہے میں سمجھتا ہوں کہ بہتر یہ تھا کہ پاکستان کے کہنے پر افغانستان کی حکومت ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتی مگر ادفغان حکومت ایک ناشکر ی حکومت کی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی لہذا پاکستان کے شہریوں کی زندگی کے لیے ضروری ہوگیا تھاکہ ہمارے قومی سلامتی کے ادادے ہر ممکن قدم کو اٹھائیں۔ماضی میں بھی افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہے ہے جس کا پاکستان کو بہت ساجانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑاہے، اس وقت حالیہ دہشت گردی کے جواب میں آئی ایس پی آر کے مطابق شمالی وزیرستان ،کرم ایجنسی اور دگر مقامام پر سخت آپریشن کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں ،اس وقت لاہور ،قصور سمیت پنجاب کے بیشتر علاقوں اور ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائیاں کی جارہی ہے ہمارے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دورہ سندھ میں جو کہا اس پر من وعن عمل درآمد کیا جارہاہے ،آخر میں یہ ہی کہوں گا کہ اس وقت ضروری ہوگیا ہے کہ ہماری حکومت نے اپنے چار سالوں میں جس انداز میں سیاسی مصلحتوں کا بیوپار کیا اب اس کاروبار کو بند ہوجانا چاہیے انہیں اب زاتی معاملات کو ایک طرف کرتے ہوئے قومی سلامتی کے معاملات کو ترجیح دینا ہوگی،وگرنہ حالیہ ہولناک تباہی کے بعد یہ ہی ہوگا کہ ادھر ہم دہشت گردوں کو مارے گے تو ادھر وہ ہمارے معصوم لوگوں کو نشانہ بنائینگے لہذا مستقل حل یہ ہی ہے کہ عام شہریوں کے ساتھ پارلیمنٹ کے ممبران بھی سیکورٹی اداروں کا ساتھ دیں تاکہ اس جنگ میں کچھ سکون ہمارے فوجی جوانوں کو بھی مل سکے کیونکہ یہ دل صرف ہمارے ہی سینوں میں نہیں دھڑکتا یقینا ان جوانوں کے بھی ماں باپ بیوی اور بچے ہونگے جو ان سے ملنے کو تڑپتے ہونگے جن کا کوئی انتظار کرتاہوگا، جنھیں ہم اپنے بیوی بچوں کی جان کا محافظ سمجھتے ہیں اور جن پر ہم اعتبار تو کرکے بیٹھے ہیں مگر ان کی سلامتی کا خیال شاید ہی کسی کے دل میں ہو۔

Rao Imran Salman
About the Author: Rao Imran Salman Read More Articles by Rao Imran Salman: 75 Articles with 60573 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.