پاک روس تعلقات

کراچی سے لاہورتک ایل این جی گیس کی پائپ لائن پراجیکٹ میں ایک ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کااعلان کرکے روس نے پاکستان سے تعلقات کو نئی شکل دینے اور ان میں وسعت لانے کی بھرپورعملی کوشش شروع کردی ہے۔ یہ پیش رفت پاکستان اور جنوبی ایشیا دونوں کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں نمایاں تزویراتی حرکیات اور پالیسی کی تبدیلی ان تصورات کو تبدیل کرسکتی ہے، جنہوں نے روس اور امریکا کے درمیان سرد جنگ میں پاکستان کو روس مخالف کیمپ میں لاکھڑا کیا تھا۔ ماسکو نے واضح عندیہ دے دیا ہے کہ وہ ماضی کو بھلاکر جنوبی ایشیا سمیت پورے ایشیا میں طاقت کا توازن قائم کرنے کی کوشش کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔ روس کی طرز فکر و عمل میں رونما ہونے والی تبدیلی کا اصل سبب یا اسباب کیا ہیں؟ کیا یہ پیش رفت بھارت سے روس کی قربت کو زوال کی ڈگر پر تونہیںڈال دے گی؟

روس کا پاکستان کی طرف ہاتھ بڑھانے کا تجربہ ماسکو کی نمایاں طور پر تبدیلی کے عمل سے گزرتی ہوئی تزویراتی سوچ کا نتیجہ ہے۔ ماسکو کے نئی دہلی کے حریف کے ساتھ معاہدہ کرنے کو واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان ہونے والے معاہدے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس پیش رفت کے ذریعے کریملن نے بھارت کو شاید یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ امریکا سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش ضرور کی جائے تاہم اس کا مجموعی جھکاؤروس ہی کی طرف رہنا چاہیے۔

جموں و کشمیر کے اوڑی سیکٹر میں فوجی کیمپ پر حملے کے بعد بھارت نے روس سے استدعا کی تھی کہ وہ پاکستان کے ساتھ فوجی مشقیں منسوخ کر دے مگر روس نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا، اس سے ماسکو کی بدلی ہوئی سوچ کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور۴،۳ دسمبر۲۰۱۶ء کو بھارت کے شہر امرتسر میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے دوران روسی نمائندے نے پاکستان کو دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والی ریاست قرار دینے کے عمل کو واضح طور پر ناپسند کیا۔ اس سے قبل۲۶/ اکتوبر۲۰۱۶ء کو بھارتی ریاست گوا میں برکس کانفرنس کے موقع پر بھی روسی صدر ولادیمر پیوٹن نے بھارت کی خصوصی درخواست کومسترد کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کا ذکر کرنے سے صاف گریز کیا۔

ماسکو کی پالیسی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے اس کی حقیقت پسندی اور عمل پسندی کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ وہ پاکستان کے تعاون سے افغانستان میں استحکام لانا چاہتا ہے۔ کابل کا استحکام وسطی ایشیا کے امن کا پیش خیمہ ہوگا۔ افغانستان میں سیاسی عدم استحکام اور سیکورٹی کے مسائل پورے خطے میں روسی مال کی فروخت کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں امن کے حوالے سے پاکستان کا اہم کردار کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اس لیے روس چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن کیلئے پاکستان سے بھرپور مستفید ہو۔ ایسی صورت میں روس کیلئے پورے خطے میں معاشی روابط بہتر بنانے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔

توکیایہ سمجھ لیاجائے کہ ماسکواب نئی دہلی سے فاصلہ پیداکرنے کی راہ پرچل نکلاہے؟ ایسانہیں ہے۔ روس کے پالیسی سازیقیناً دانش سے محروم نہیں۔ وہ بھارت کاہاتھ جھٹکنے کی غلطی نہیں کریں گے مگرہاں،روس تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھنے کی پالیسی سے گریزچاہتاہے۔ماسکواوراسلام آباد میں بہتر ہوتے ہوئے تعلقات اوربڑھتے ہوئے اشتراکِ عمل سے نئی دہلی کے لیے تشویش کاسامان ضرورہواہے۔روسی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار آج بھی بھارت ہے اورجب تک یہ حقیقت قائم ہے،نئی دہلی اورماسکوکے تعلقات میں حقیقی زوال کا آناانتہائی محال ہے۔ دوسری طرف نئی دہلی اورواشنگٹن کے درمیان طے پانے والے'' لاجسٹک ایکسچینج میمورنڈم آف ایگریمنٹ ''نے ماسکوکوچوکنا کردیا ہے۔ یہ معاہدہ امریکاکوبھارت سے چند ایک عسکری سہولتوں کی گنجائش فراہم کرتاہے۔ ان میں'' فضائی اوربحری ری فیولنگ اورلاجسٹکس''شامل ہیں۔ یہ معاہدہ بھارت کوامریکی فوجی سہولیات سے استفادہ کاموقع بھی فراہم کرتاہے۔کریملن کے نزدیک امریکااس معاہدے کوبروئے کارلاتے ہوئے چین اورروس کوخطے اوربالخصوص بھارت کے سمندری علاقے میں محدود رکھنے کاعزم رکھتا ہے۔

اس ماحول میں یہ نتیجہ اخذ کیاجاسکتاہے کہ بھارت اب روس کوچھوڑکرامریکی دائرہ اثرمیں داخل ہورہاہے۔ایسی حالت میں روس کیلئے بھارت کے بحری علاقے میں قدم جمانالازم ہوجائے گااورایساہواتو نئی دہلی کی پریشانی بڑھے گی۔ پاکستان سے تعلقات بہتربنانے اوراشتراکِ عمل کادائرہ وسیع کرنے کے حوالے سے ماسکوجو کچھ کررہاہے، اس سے اتناتوواضح ہے کہ نئی دہلی میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں ہیں۔ تزویری سطح پررونماہونے والی یہ تبدیلیاں روس اور بھارت کے تعلقات کوبھی نئی حقیقت پسندانہ سوچ سے ہم کنارکردیاہے کہ بھارت کوامریکا سے تعلقات بڑھاتے ہوئے وہ سب کچھ کرناہوگا جو روس کے تحفظات دورکرے۔

پاکستان کاجنوبی ایشیا میں کردار اپنے دیرینہ دوست چین سے تعلقات کی بنیاد پرہے۔ اب وہ روس سے بھی قربت اختیار کررہاہے۔ چین پاک راہداری منصوبے نے پاکستان کو ایک مضبوط معاشی، سفارتی اورتزویری بنیادفراہم کی ہے۔ چین اورروس کی طرف غیر معمولی جھکاؤکے باعث پاک امریکا تعلقات کے شیشے میں بھی بال آرہا ہے اورممکن ہے کہ مستقبل میں روس پاکستان کوعسکری طورپرمضبوط کرکے امریکا کے اشتراکِ عمل سے کسی حد تک بے نیازکردے۔ حالیہ فوجی مشقوں کے بعداب اسلام آباد کے پالیسی ساز ماسکوسے{ایس یو۳۵} جنگی طیارے حاصل کرنے کے معاہدے کو بھی حتمی شکل دینے کے لیے کام کررہے ہیں۔فی الحال روس کی وفاقی سروس برائے عسکری تعاون نے ایسے کسی معاہدے کی تردید کی ہے، تاہم اس کے باوجوداسلام آبادماسکوسے اب تک چار{ایم آئی ۳۵}۔ جنگی ہیلی کاپٹرحاصل کرنے میں کامیاب ہوچکاہے۔ اگرچہ روس نے چین پاک معاشی راہداری میں شمولیت کیلئے پاکستان کے ساتھ کیے جانے والے مذاکرات کی بھی تردید کی لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ بحر ہندکے گرم پانیوں تک رسائی چاہتا ہے۔
 
کریملن کی خواہش ہے کہ یوریشین اکنامک یونین کوشاہراہِ ریشم سے منسلک کردیاجائے لیکن ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیاروس کی اس تجارتی معاہدے میں شمولیت کی خواہش''افواہ''رہتی ہے یاحقیقت کاروپ دھارتی ہے۔ جنوبی ایشیا کے پیچیدہ خدوخال پاک روس تعلقات کی بحالی کاسفراب غیریقینی سے ممکن کی طرف جاتادکھائی دے رہاہے۔ امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کی نئی انتظامیہ کاجھکاؤروس کی طرف رکھنے کاعندیہ دیاہے۔ اس کے باوجود ابھی یہ کہنابہت مشکل ہے کہ روس کاپاکستان کی طرف جھکاؤکیارخ اختیار کرے گا۔ بہرحال اب یہ اسلام آبادمیں بیٹھے بزرجمہروں کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح ماسکواورواشنگٹن کے ساتھ مراسم میں توازن قائم رکھتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر اسلام آباد نے ماسکوکاہاتھ تھامنے کے عمل میں واشنگٹن کو مکمل طورپرنہ چھوڑاتو یہ حقیقت نئی دہلی کوسکون کاسانس لینے کاموقع فراہم کرے گی۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 349974 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.