20 میں سے 10مسلمان دانشور (موجودہ دور کے)

2008ء میں امریکی جریدے فارن پالیسی اور انگلستان کے پروسپیکٹ میگزین کی جانب سے دُنیا بھر سے صفِ اول کے جن20 عوامی دانشوروں کے حوالے سے سروے رپورٹ شائع ہوئی اُس میں پہلے 10دانشور مسلمان ہیں۔ مذکورہ سنہء سے لیکر آج تک حالات و واقعات کی نظر میں قاری کا اِن10مسلمان شخصیات پر متفق ہو نا ضروری نہیں۔ لیکن پھر بھی اِس اعزاز کی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مختصر انداز میں اُن دانشوروں کی حالاتِ زندگی، خیالات و خدمات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے جن سے اُنکی بین الااقوامی اہمیت اُجاگر ہوتی ہے۔۔۔

20 میں سے 10مسلمان دانشور

2008ء میں امریکی جریدے فارن پالیسی اور انگلستان کے پروسپیکٹ میگزین کی جانب سے دُنیا بھر سے صفِ اول کے جن20 عوامی دانشوروں کے حوالے سے سروے رپورٹ شائع ہوئی اُس میں پہلے 10دانشور مسلمان ہیں۔ مذکورہ سنہء سے لیکر آج تک حالات و واقعات کی نظر میں قاری کا اِن10مسلمان شخصیات پر متفق ہو نا ضروری نہیں۔ لیکن پھر بھی اِس اعزاز کی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مختصر انداز میں اُن دانشوروں کی حالاتِ زندگی، خیالات و خدمات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے جن سے اُنکی بین الااقوامی اہمیت اُجاگر ہوتی ہے۔

(1) فتح اللہ گولن:(ترکی)
پہلے نمبر پر آنے والے وہ معروف مبلغ، مصنف و لیکچرارہیں جنکی تعریف ایک ایسے اسلامی سکالر کی حیثیت میں کی جاسکتی ہے جنہیں ترکی اور یورپ کے مسلمانوں کے علاوہ دوسری الہامی کُتب کے مذاہب کی عوام میں بھی ا نتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے۔ اُنکی کُتب و بیانات رواداری اورامن بقائے باہمی کے اُن اصولوں کی واضحات کرتے ہیں جو اسلامی روایات کے مطابق جدید تعلیم حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں کو حاصل ہو سکتے ہیں۔ اُنکی تعلیمات کا دائرہ اسلام پر زندگی گزارنے کیلئے اصول واضح کرنا ہے۔ سُنی العقیدہ فتح اللہ گولن 27ِ اپریل1941ء کو اَزورم شہرترکی میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم کے بعد دینی تعلیم کو ترجیع دیتے ہوئے مولانا رومی اور ترکی کے 19ویں صدی کے سعید نورسی کے مکاتب سے رشتہ جوڑ لیا۔لہذافلسفے کی کُتب سے بھی شُغف رہا۔ترکی کے سیکولر نظام کے حق میں نہ ہو نے کی وجہ سے جوانی میں ہی جیل کے چکر لگانے پڑ گئے۔لیکن بغیر کسی تنظیمی ڈھانچے کے "خدمت تحریک یا گولن مومینٹ"سے ترکی میں اسلام سے رغبت رکھنے والے مسلمانوں کی زندگیا ں بدل ڈالیں۔ترکی کے سیکولر ماحول میں جب عوام بے چین تھی کہ ترکی دار لاسلام ہے یا دار الحراب تو اُنھوں نے جواب دیا تھا کہ "ترکی دارلخدمت"ہے۔وہ دُنیا کے تقریباً تمام مذاہب کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر چکے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ 60سے زائد کتابیں سیاسی،سماجی ودینی موضوعات پر تحریر کی ہیں جن میں سیرتِ نبویﷺپر "نورِ سرمدی فخرِ انسانیت "بھی ہے۔ 1999 ء سے سیکولر ازم کے خلاف خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر کے امریکہ میں زندگی گزار رہے ہیں اور اُنکے قدامت پسند و اعتدال پسند نظریات سے مستفید ہوتے ہوئے اُنکے پیروکا ر ترکی کے علاوہ دُنیا بھر میں ہزاروں تعلیمی ورفاعی ادارے کھول چکے ہیں۔ وہ خواتین کے پردے کے حق میں ہیں لہذا وہ بھی ہیڈ سکارف کو ترجیع دے رہی ہیں۔ لہذا2013 ء کی ٹائمز میگزین کی 100موثر ترین شخصیات میں بھی فتح اللہ گولن کا نام شامل ہے۔

(2) محمدیو نس:(بنگلہ دیش)
بنگلہ دیش کے شہر چٹاگانگ کے ایک گاؤں میں 28جون 1940ء میں پیدا ہوئے۔اُنکے والد دُلا میا پیشے کے اعتبار سے سُنار تھے اور اُنکی والدہ نفسیاتی عرضہ میں مبتلا رہیں۔9بہن بھائیوں میں اُنکا تیسرا نمبر ہے۔اُنھوں نے چٹاگانگ سے میٹرک اور معاشیات میں ایم اے ڈھاکہ یونیورسٹی سے کیا۔لیکچرار کی حیثیت میں عملی زندگی کا آغاز کیا ۔اسی دوران پیکجنگ فیکٹری لگا کر بہترین منافع کمایا اور پھر امریکہ کی ریاست ٹینیسی جاکر سکالر شپ پر ایک پرائیویٹ ریسرچ یونیورسٹی و ینڈربلٹ سے پی ایچ ڈی کی۔ 1972ء تک وہاں پر ہی تدریسی شعبے سے وابستہ رہے اور بنگالیوں کے تعاون سے فلاحی کام بھی انجام دیئے۔ 1976ء میں اُنھوں نے بنگلہ دیش میں غربت مٹاؤ مہم کا آغاز کرتے ہوئے ایک گاؤں کی 42عورتوں کو اپنی ذاتی آمدن میں سے 27ڈالر قرضے کی مد میں دیئے تاکہ ایک طرف عورتیں اپنا ذاتی کاروبار شروع کر سکیں اور دوسرا منا فع کے ساتھ ساتھ قرضے کی رقم ادا کرنے کی بھی استعداد پیدا کریں۔محمد یونس کو نہ صرف اس مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی بلکہ اُنھوں نے بنگلہ دیش کے غریب لوگوں کیلئے قرضے کی آسان فراہمی کیلئے گرامین بنک(دیہاتی بنک) ہی قائم کر دیا۔چھوٹے قرضوں کی اس معاشی اسکیم نے نہ صر ف غریبوں کیلئے بہترین روزگار مہیا کیا بلکہ ملکی بر آمدات پر مُثبت اثرات مرتب ہوئے۔ 2007ء تک 74لاکھ افراد قرضہ لے چکے تھے اور اُن میں خواتین کی شرح 94فیصد ۔2006ء میں اُنھیں سماجی شعبے میں کارگردگی پر نوبل انعام دیا گیا ۔سیاست میں بھی حصہ لیا لیکن پھر الگ ہو گئے۔5کُتب کے مصنف بھی ہیں۔

(3) یوسف القرضاوی:(مصر و قطر)
9ِستمبر 1926ء کو مصر کے غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔2برس کے تھے کہ والد انتقال کر گئے لہذا چچا نے پرورش کی۔10سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا ،جامعہء ا لازہرمیں زیرِتعلیم رہے ۔1973ء میں اسلامی موضوع میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور اس دوران مصری مذہبی امور کے شعبے اور پھر قطر کے تدریسی مکاتب سے سے وابستہ رہے۔ اُخوان المسلمون سے وابستگی کی وجہ سے 1949ء میں جیل جا چکے تھے۔ لہذا بعدازاں بھی اُس جماعت کے اہم رہنماء ہونے کی وجہ سے اُنھیں اہم عہدوں کی پیشکش بھی کی گئی ۔لیکن اُنھوں نے دینی ودُنیاوی معاملات میں فتوے دینے کو اہمیت دی۔ لہذا سُنی عالمِ دین کی حیثیت میں آج اُنھیں عرب دُنیا میں غیر معمولی شہرت حاصل ہے۔ صدر برائے اتحادِ مسلمِ علماء اور یورپین کونسل فتویٰ اینڈ ریسرچ کے سربراہ کی حیثیت میں جہاں اُن کا کہنا ہے کہ عراقی قوم کا امریکہ کے خلاف جہاد جا ئز ہے۔ اُنکے مطابق فلسطین میں اسرائیلی فوجیوں کے خلاف خود کش حملے جائز ہیں ۔ لیکن اسکے لیئے شرط یہ ہے کہ اگر غاصبوں کے خلاف دفاع کا کوئی دوسرا راستہ نہ ہو۔ 9/11کے واقعہ خلاف ہیں۔ 2011ء میں ایک عرصے بعد مصر میں تشریف لا کر اسکوئر التحریر کے مقام پر جمعہ کو وعظ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ حکومتی سیکیورٹی اہلکار سول حکومت کو ترجیع دیں۔ٹی وی کے پروگرام میں جو ابات دینے کی وجہ سے اُنھیں معتدل قدامت پسند قرار دیا جاتا ہے۔ جو دورِ حاضر کے مطابق اسلامی اصولوں پر زندگی گزارنے کیلئے رہنمائی کرتے ہیں ۔ ساتھ میں جمہوریت کے بعض اصولوں کو مسترد کرنے کی وجہ سے سخت گیر اسلامی سکالر بھی سمجھے جاتے ہیں۔ پہلے 10میں سے تیسرے نمبر پر ہیں۔

(4) ا ورھان پاموک:(ترکی)
ترکی کے وہ مشہور ناول نگار ،فلمی ادیب اور سیاسی دانشمند ہیں جنکو یہ بیان دینے پر کہ جنگِ عظیم اول کے دوران دورِعثمانیہ میں لاکھوں آرمینیوں کی نسل کشی کی گئی اور ہزاروں افراد کو قتل کیا گیا تھا2005ء میں ترکی عدالت کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ الزام یہ تھا کہ اُنھوں نے ترکش شناخت کی توہین کی ہے۔ 2006ء کے آغاز میں اُن پر لگائے گئے الزام واپس لے لیئے گئے ۔جس میں یورپی یونین کا بھی اہم کردار نظر آتا ہے۔ بہرحال اُسی سال اکتوبر میں اُنھیں سویڈیش اکیڈمی کی طرف سے لیٹر یچر میں نوبل انعام دے دیا گیا۔ اسکے علاوہ بھی آج تک اُنھیں بہت سے ایوارڈز دیئے جا چکے ہیں۔ 90 ء کی دہائی میں ناول "دی وائٹ کاسل " سے مشہور ہونے والے اورھان پاموک 7جون 1952ء میں استنبول میں ایک کھاتے پیتے گھرانے میں پیدا ہوئے اور تعلیم کے ساتھ یورپ کے ماحول میں رہنے کا تجربہ بھی حاصل کر لیا۔لیکن وہاں کی ہر چیز کو پرائی سمجھتے ہوئے استنبول کے ایک سیکولر سکول سے تعلیم مکمل کی اور آرکیٹکچربننے کی خواہش میں یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔لیکن ذہن کے کسی حصے میں لکھنے کا شوق تھا۔ لہذا وہ مضمون چھوڑ کر یونیورسٹی آف استنبول سے صحافت میں گریجویشن کر لی ۔لیکن صحافت کے شعبے سے بھی وابستہ نہ ہوئے اور ناول نگار بن گئے۔موضوع تما م ایسے منتخب کیئے کہ جلد ہی ترکی میں اور بعدازاں یورپ میں شناخت کروا لی اور آج تک 46 زبانوں میں اُنکے مختلف ناولوں کے ترجمعے ہو چکے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ترکی میں مشرق و مغرب کے درمیان کھیلتی ہوئی معاشرت کا تعین کرنے کے خواہشمند ہیں۔2011ء میں اُن پر ماضی کے مقدمے کے تحت سزا کے طور پر کچھ رقم جرمانہ ادا کرنے کیلئے عائد کر دی اور آجکل کولمبیا یونیورسٹی امریکہ میں لیٹریچر پڑھا رہے ہیں۔

(5) اعتزاز احسن: (پاکستان)
پاکستان کے مایہ نازبیرسٹر ہونے کے ساتھ انسانی حقوق کے علمبردار،مصنف اور سیاست دان بھی ہیں۔وہ 27ِستمبر1945ء کو مری پاکستان میں پیداہوئے۔ ایچی سن کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ کیمبرج یونیورسٹی انگلستان سے قانون کی ڈگری او ر 1967ء میں گریز اِن انگلستان سے ہی بیرسٹری کی۔پاکستان آکر سی ایس ایس کا امتحان دیا اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔لیکن صدر ایوب خان کی اَمریت کے خلاف احتجاجاًگورنمنٹ سروسز سے الگ ہوگئے۔ 1975ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے پہلی دفعہ بلا مقابلہ رُکنِ اسمبلی منتخب ہو کر سیاست میں قدم رکھ دیااور صوبائی وزیر بن گئے۔ لیکن 1977ء کی بھٹو حکومت کے خلاف تحریک میں پارٹی سے الگ ہو گئے۔بھر صدر ضیاء الحق کے خلاف 80ء کی دہائی میں ایم آر ڈی تحریک میں شامل ہوئے اور ایک دفعہ پھر پی پی پی کے رُکن بن گئے۔ جسکی وجہ سے سیاسی جیل بھی کاٹنی پڑی۔1988 ء اور 1993ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں اہم وزارتوں پر رہے۔وہ سپریم کورٹ کے وکیل ہیں۔ لہذا اُنھوں نے 2وزرائے اعظم بے نظیر اور نوازشریف کی طرف سے مقدمات کی پیروی بھی کی۔مختلف سالوں میں سینٹ و قومی اسمبلی کے رُکن بھی رہے(آجکل بھی پی پی پی کے سینٹر ہیں)۔ مارچ 2007ء میں صدر جنرل مشرف کی طرف سے افتخار محمد چوہدری کوچیف جسٹس سپریم کورٹ کے عہدے سے برطرف کرنے پر ججز بحالی تحریک میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ عدالت میں بھی دلائل دیئے ۔یہ ایسا عروج تھا کہ جب نومبر 2007ء میں صدر مشرف نے ملک میں "ہنگامی حالات" کا اعلان کیا تو اُنھیں گرفتار کر کے قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔اُن پر زور ڈالا گیا کہ وہ ججز بحالی تحریک سے الگ ہو جائیں ۔لیکن اُنھوں نے انکار کر دیا۔پی پی پی کے دورِ حکومت میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا مقدمہ بھی لڑا۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن کے بانی ہیں۔ پاکستان سپریم کورٹ بار ایسویشن کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ ایک کتاب "دی انڈس ساگا اینڈ میکنگ آٖ ف پاکستان " لکھ چکے ہیں او ر کتاب "ڈیوائیڈڈبائی ڈیموکریسی" میں لارڈ میگھنڈ ڈیسائی کے ساتھ شریک مصنف ہیں۔ترتیب میں 5واں نمبر ہے۔

(6) عمر و محمد حلمی خالد:(مصر)
5ستمبر1967ء میں اسکندریہ ،مصر میں پیدا ہوئے ۔قائرہ یونیورسٹی سے اکاؤنٹنگ میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد قائرہ میں ہی ایک بین الاقوامی فرم میں ملازمت اختیار کر لی۔خاندان کچھ خاص مذہبی نہیں تھا۔لیکن عمرو خالد نے زندگی کو بامعنی بنانے کی جدوجہد میں مذہب سے تعلق جوڑ لیا۔ 1997ء میں اُنھوں نے اپنے حلقہِ احباب کی دعوت پر مسجد میں بیان کیا تو اُنھیں پذیر ائی حاصل ہوئی ۔بس وہاں سے ہی کُل وقتی مبلغ بننے کیلئے 1998ء میں اپنی ملازمت سے علحیدگی اختیار کر لی۔2001ء میں اسلامک سٹیڈیزمیں ڈِپلومہ حاصل کیا اور مئی2010ء میں یونیورسٹی آف ویلز لیمپ پیٹر سے "اے"گریڈ میں پی ایچ ڈی بھی کر لی۔اس دوران اُنھوں نے ٹی وی پروگرامز کے ذریعے دینی لیکچرز دینے کا آغاز کر دیا۔اُن کے لیکچرز میں اسلامی اصولوں سے زیادہ اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ جدید زندگی کی رعنائیوں میں روحانیت کا پہلو تلاش کرتے رہو۔اُنکی لیکچرز کے دوران جھومتے ہوئے خوش خلقی و بے تکلفی قارئین کو اُنکی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کر دیتی ہے۔اسی لیئے اُنکے پیر وکاروں کی تعداد میں 20سال سے 35سال کی عمر کے افراد زیادہ ہیں۔اُنکے کے خیال میں اس عمر کے افراد ہی دینی تعلیمات کو آگے بڑھانے میں مدگار ثابت ہو سکتے ہیں۔اس سلسلے میں اُنھوں نے یورپ کی نوجوان نسل سے بھی تعلق قائم کرنے کیلئے برطانیہ جا کر رابطہ کر لیا ہے۔اُن کا پیغام ہے کہ مذہبی برداشت اورمغرب سے بات چیت جدید دُنیا میں اہم پہلو سمجھے جائیں۔

(7) عبدالکریم سروش:(ایران)
اُنکا قلمی نام ہے ۔اصل نام حسین حاج فرج دباغ ہے۔16ِدسمبر1945ء میں تہران میں پیدا ہوئے اور فارمیسی میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد لندن یونیورسٹی سے کیمسٹری اور جیلسیا کالج لندن سے تاریخ اور فلسفہ کے علوم میں تعلیم حاصل کی۔انقلابِ ایران کے بعد واپس اپنے ملک آئے اور تدریسی شعبے سے وابستہ ہو گئے۔آیت اللہ خمینی نے اُنھیں" ثقافتی انقلاب" کمیٹی کی اُس 7رُکنی ٹیم میں شامل کیا جسکا مقصدتعلیمی نصاب ترتیب دینا تھا۔اس دوران اُنھوں نے تعلیمی ادارے بھی قائم کیئے۔اصلاح پسند پروفیسر سورش کو اسلام ،تاریخ اور فلسفہ بلکہ خصوصی طور پر رومی فلسفہ کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔لہذا جہاں اپنے ملک کی عوام کیلئے نیک نیتی سے تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں وہاں کچھ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ سے اختلافات بھی رکھتے ہیں۔ 90ء کی دہائی میں ایرانی سیاست پر تنقید کا سلسلہ شروع کیا تو اُنھیں پابندیوں کا بھی سامنا کر نا پڑا اور آیت اللہ خمینی نے بھی اُن سے تعاون نہ کیا ۔جس پر امریکہ اور اسرائیل نے اعتراض بھی کیا۔پروفیسرسروش کی سیاسی فکر ہابز اور امریکہ کے آئین بنانے والوں سے ملتی ہے۔وہ شخصی آزادی اور جمہوریت کے زبردست حامی ہیں۔اسی لیئے اُنھوں نے" مذہبی جمہوریت "کے نام سے ایک نیا طرزِ فکر متعارف کروایا ہے۔ اُنکی کُتب و لیکچرز اُنکے نظریات کو واضح کرتے ہیں۔ لہذا بین ا لاقوامی یونیورسٹیوں میں بھی اُنھیں ایک معروف دانشور کے طور پر اہمیت دی جاتی ہے۔ فارن پالیسی کی فہرست میں 7ویں نمبر پر ہیں۔

(8) طارق رمضان: (سویز لینڈ)
اخوان المسلمون کے بانی حسن البناء کے نواسے ہیں۔اُنکے والد سیعد رمضان اُس جماعت کے اہم رُکن ہونے کی وجہ سے مصر سے سویز ر لینڈ جلا وطن کر دیئے گئے تھے۔ جہاں 26ِاگست1962ء کو طارق رمضان پیدا ہوئے۔وہاں سے ہی فلسفہ اور فرنچ ادب میں ماسٹر کیا اور جنیوا یونیورسٹی سے عربی و اسلامک سٹیڈیز میں پی ایچ ڈی کر کے تدریسی شعبے سے عملی زندگی کا آغاز کر دیا۔ مذہبی خاندانی پہچان نے دینی رغبت کو مزید اُجاگر کیا تو قائرہ یونیورسٹی ،مصر میں جاکر اسلامی فقہ کی تعلیم حاصل کی۔2003ء تک سویزر لینڈ کی یونیورسٹی سے تعلق رہا اور پھر 2005ء سے آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسلامک سٹیڈیز کے پروفیسر ہیں۔سویزر لینڈ میں اُنھوں نے "سوئس مسلم تحریک" کی بنیاد رکھ کر بہت سے بین المذہبی سمینار منعقد کیئے ۔مقصد مسلمانوں کی ثقافتی اہمیت کو اُجاگر کر کے یورپ میں دینِ اسلام کے اصولوں کواپنانے کی ترغیب دینا ۔اس دوران یورپ کی دوسری یونیورسٹیوں میں بھی اپنے نظریات و کُتب کی وجہ سے اہم عہدوں پر تعینات رہے۔یورپین یونین نے بھی اُنکی خدمات حاصل کیں تا کہ وہ اسلام اور سیکولرازم میں فرق واضح کریں۔ہالینڈکی ایک یونیورسٹی نے جب اُنھیں ناقالِ مصالحت رویئے کا الزام لگا کر الگ کر دیا تواُنھوں نے کہا یہ الزام اسلام سے خوف کھاتے ہوئے سیاسی نوعیت کا ہے۔اس سے پہلے بھی اُن پر یہود مخالفت اور فلسطین میں حماس تنظیم کو اسلامی فنڈز دینے کا الزام لگا کر اُنھیں 2004ء میں امریکہ نے نوٹری ڈیم یونیورسٹی امریکہ میں پڑھانے کیلئے ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا ۔ اسطرح اُنکی دینی وابستگی کو متنازعہ بنانے کی کوشش بھی کی گئی ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے رویئے انسانی حقوق کو دبانے کیلئے استعمال کیئے جاتے ہیں۔ لہذا اُنکی دینی، ثقافتی و جمہوری فلسفیانہ سوچ و فکر نے اُنکو 100میں سے 8 ویں نمبرپر آنے والا دانشور ثابت کر دیا۔

(9) محمود ممدانی:(یوگنڈا)
9ویں نمبر پر آنے والے یوگنڈا کہ وہ معروف دانشور ہیں جن کو بین الاقوامی سطح پر افریقہ کی تاریخ،سیاست اورمعاشرے کا مبصر سمجھا جاتا ہے۔ بھارتی نژاد محمود ممدانی 23ِاپریل1946ء کو پیدا ہوئے اور یوگنڈا کے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرتے ہوئے وظیفہ لیا۔1967ء میں پٹسبرگ یونیورسٹی امریکہ سے سیاسیات میں بی اے ،دی فلچر سکول آف لاء اینڈ ڈپلومیسی سے ماسٹرز اور ہارورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔اس دوران انسانی حقوق کی تحریک میں حصہ لینے پر جیل بھی گئے اور یوگنڈاکی جامعہ مکیر یری کمپالا میں ملازمت کے دوران اُنھیں اُس وقت کے صدر عیدی امین نے" نسلی معاملے" پر برطرف کر دیا۔جس کے بعد وہ امریکہ ،انگلستان اور افریقی ممالک میں ایک تو اپنی تدریسی ذمہ داریاں نبھاتے رہے اور دوسرا افریقہ اور وہاں کے شہریوں کی شناخت اور ماضی کے افریقی سماراج پر تحقیق کرتے رہے۔اگلا قدم اسلام میں سیاست کا مقام اور امریکن خارجہ پالیسی کی طرف بڑھایا اور واضح کرنے کی کوشش کی کہ موجودہ دور میں جو اسلام سے دہشت گردی کو منسلک کیا جا رہا ہے یہ اصل میں اُن باغی طاقتوں کا انتشار ہے جو" کولڈ وار" کے آخری دنوں میں اُن بڑے ممالک کی پُشت پناہی سے وجود میں آیاہے جو کولڈ وار کے اہم کردار رہے ہیں۔ انسان شناس پروفیسر محمود ممدانی کولمبیا یونیورسٹی امریکہ میں بھی پڑھا چکے ہیں اور بہت سی کُتب کے مصنف بھی ہیں۔آجکل یوگنڈا کی جامعہ میں ہی تحقیقی شعبے کے ڈائریکٹر ہیں۔

(10) شیریں عبادی:(ایران)
پہلی ایرانی خاتون ہیں جنہیں 2003ء میں "جمہوریت و انسانی حقوق "کیلئے خدمات انجام دینے پر نوبل انعام سے نوازا گیا۔ وہ 21ِجون 1947ء میں ایران کے شہر ھمدان میں پیدا ہوئیں۔تہران یونیورسٹی فیکلٹی آف لاء سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور کچھ تجربے کے بعد جج بن گئیں۔ساتھ میں قانون میں ڈاکٹریٹ بھی کر لیا۔1974ء میں وہ پہلی ایرانی خاتون تھیں جنہیں تہران سٹی کورٹ بنچ 24کا صدر کا اعلیٰ ترین عہدہ دیا گیا۔انقلابِ ایران کے بعد اُنھیں اس عہدے سے الگ کر دیا کیونکہ عورت کیلئے ایران کی نئی حکومت میں ایسی گنجائش نہیں تھی۔بہرحال اُنھوں نے وکالت کی پریکٹس کے لائسنس کیلئے درخواست دے دی جو آیت اللہ خمینی کے انتقال کے3سال بعد منظور کر لی گئی۔اس دوران وہ تہران یونیورسٹی میں انسانی حقوق کی تعلیم دیتی رہیں اور بعدازاں وکالت کا آغاز کر کے بھی خصوصی طور پر ان سے متعلقہ مقدمات کو ہی اہمیت دے رہی ہیں۔بلکہ 2012ء میں اُنھوں نے تجویز پیش کی ہے کہ ایران کے قوانین میں صنفی قوانین میں ترمیم کی جائے۔ وہ اسلامی انقلاب کی حامی رہی ہیں اور قوم پرست ہیں۔ اسلام اور جمہوریت میں کوئی مطابقت نہیں سمجھتیں۔1995ء میں اُنھوں نے چلڈرن رائٹز اور 2001ء میں ہیومن رائٹز ڈیفنس سنٹر کے نام سے ادارے قائم کیئے ہیں۔وہ ایک مصنفہ بھی ہیں۔
Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 307569 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More