دہشت گردی کی نئی لہر۔ چاروں صوبے لپیٹ میں

جاری سال کا دوسرا مہینہ فروری پاکستان میں دہشت گردی، خود کش حملوں کی زد میں ہے، صرف گزشتہ پانچ دنوں میں پختون خواہ، پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں دہشت گردی کے9واقعات ہوچکے ہیں ۔ کوئٹہ، لاہور، پشاور ،مہمند ایجنسی اور اب سندھ کا شہر سہون شریف میں حضرت لعل شہباز قلند کا مزار مبارک دہشت گردی کا نشانہ بنا۔سہون شریف سندھ کے ضلع دادو میں واقع ہے۔ موجودہ وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کا تعلق اسی شہر سے ہے بلکہ دہشت گردی کا مرکز سید مراد علی شاہ کا انتخابی حلقہ بھی ہے۔ضلع دادو نے سندھ کو تین وزیر اعلیٰ دیے۔ تو جناب سندھ کے وزیر اعلیٰ کے شہر میں وہ بھی سندھ کا مقدس مقام صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندر کا مزار مبارک ، زائرین کے ہجوم میں جب کہ وہ اپنی محبوب شخصیت سے اپنی محبت کا اظہار دھمال ڈال کر رہے تھے ، خود کش حملہ آور ، خیال کیا جارہا ہے کہ خود کش بمبار عورت تھی اس لیے کہ جائے وقوع سے جو سر ملا وہ ایک خاتون کا سر ہے۔ اگر واقعہ ایسا ہے تو یہ اور بھی تشویش ناک بات ہے کہ دہشت گردوں کا جادو اس قدر سر چڑھ کر بولنے لگا ہے کہ خواتین بھی خود کش بمباربن رہی ہیں۔ ابھی تک تو دہشت گردوں کا تعلق دینی اداروں سے بتا یا جاتا تھا پھر یہ بات بھی سامنے آئی کہ دہشت گرد تنظیموں میں پڑھے لکھے نوجوان جو جامعات کے طالب علم تھے شامل ہورہے ہیں اور اب بات خواتین تک پہنچ چکی ہے۔ سیاسی اور عسکری قوتوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

دہشت گردی تو سالوں پر محیط ہے۔نائن الیون سے جس ہشت گردی کا آغاز ہوا تھا اس کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ دہشت گردوں نے عسکری اداروں ، پولس اورسیاسی اداروں و شخصیات کو نشانہ بنایا ،پھر انہوں نے عام شہریوں کو بازاروں ، پارکوں، ائر پورٹس، ائر بیسیز، چھاونیوں حتیٰ کہ اسکول کے بچوں کو بھی نہیں بخشا، اے پی ایس اسکول کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ان کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں نے مختلف بزرگوں ، صوفیوں کے مزارات کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔ان مزارات میں خضدار میں دربار شاہ نورانی، ڈیرہ غازی خان میں سخی سرور، کراچی میں عبداللہ شاہ غازی ، لاہور میں دادا دربار، نوشہرہ بہادر بابا ، چمکنی مین رحمان بابا، لنڈی کوتل مین حمزہ خان شنواری ، خیبر ایجنسی میں سید بابا ، اسلام آباد میں بری امام، جھل مگسی میں فتح پور کے مقام پر واقع مزار کو دہشت گردی کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ضرب عضب کے نتیجے میں دہشت گردوں کے خلاف ہونے والی کاروائیوں کے نتیجے بڑے پیمانے پر دہشت گر د مارے گئے، گرفتار ہوئے اور دہشتی گردی کے ٹھکانوں کا صفایاکیا گیا جس کے نتیجے میں کچھ امن ہوا۔ لیکن سال نو 2017میں دہشت گردوں نے اپنے آپ کو ازسرِ نو منظم کرلیا اور کاروائیوں کاآغاز پھر سے ہوگیا۔دہشت گردوں کے تانے بانے دشمن ملک بھارت کے علاوہ افغانستان سے بھی ملتے نظر آرہے ہیں۔ کوئٹہ کے بعد پشاور اور پھر لاہور میں دہشت گرد حملوں کے بعد سندھ کے صوفی بزرگ حضرت لعل شاہ قلندر جن سے لوگ انتہائی عقیدت رکھتے ہیں کے مزار مبارک کو نشانہ بنا یا۔ آخری اطلاعات کے مطابق88افراد اپنی جان سے جا چکے تھے جب کہ 250 زخمی مختلف اسپتالوں میں پہنچائے گئے ان میں سے 50کی حالت سنگین بتا ئی گئی۔

اتوار 13فروری 2017کو کراچی میں ایک صحافی کی شہادت سے دہشت گردی کا یہ سلسلہ شروع ہوا، اگلے ہی دن پیر 14 فروری کو لاہور میں خود کش حملہ ہو ا جس میں 13افراد شہید ہوگئے، ایک دن کے وقفے سے یعنی بدھ16فروری کو پشاور مہمند ایجنسی، چارسدہ کے علاوہ حیات آباد میں شدت پسندوں نے ججز کی گاڑی کو نشانہ بنایا ، اس دہشت گردی میں 8افراد جن میں چار ججز بھی شامل تھے شہید ہوگئے۔ دہشت گردوں نے اپنی کاروائی کو جای رکھتے ہوئے اگلے ہی روز یعنی جمعرات17فروری کو سندھ کے شہر سہون میں حضرت لعل شہباز قلند کی درگاہ پر عین اس وقت خود کش حملہ کیا جب کے زائرین بڑی تعداد میں وہاں موجود تھے جن میں مرد ، عورتیں اور بچے بھی شامل تھے دھمال ڈال رہے تھے۔ دہشت گردی کی موجودہ لہر نے ملک کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حکومتی اعلانات میں وہی روایتی جملے، وہی الفاظ ،تسلی و تشفی ، بہادری کی کہانی کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا۔ بے رحم آپریشن کرنے، دہشتگردوں کو شکست دینے، ان کے سہولت کاروں اور نظریے کو ختم کرنے کے دعوے اور اعلانات سامنے آتے رہے اور دہشت گرد اپنے ایجنڈے پر کاروائی کرتے رہے ۔ دلیرانہ بیانات سے اس ناسور کو ختم کیا جاسکتا ہے؟ ہر گز نہیں ، اس کے لیے انتہائی مضبوط اور منظم قسم کے اقدامات کی ضرورت ہے، بیماری کا علاج وقتی نہیں بلکہ مستقل کرنے کی ضرورت ہے۔ کینسر جس کی سرجری کی ضرورت ہے اگر اس کا علاج دواؤں سے کیا جاتا رہے گا تو مریض شفایاب نہیں ہوگا جب تک سرجری کر کے اس کینسر کو جڑ سے جسم سے نکال نہ دیا جائے۔خود کش حملہ آوروں اور دہشت گردوں کو مار دینا، گرفتار کر لینا مسئلے کا مستقل حل نہیں، خود کش حملہ آور کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اپنی جان دے کر کتنی ہی جانوں کا خون اپنے سر لے رہا ہے، وہ کیوں موت کے گھاٹ اتر رہا ہے اور دوسروں کی جن کیوں لے رہا ہے ؟ وہ تو اس مقصد سے ہی لاعلم ہوتا ہے ، اُسے تو صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس مقام پر اُسے پہنچا دیا جائے گا ہدایت ملتے ہی اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لے گا ، اس عمل سے وہ سیدھا جنت میں چلا جائے گا۔ ضرورت اُن ہاتھو ں تک پہنچنے کی ہے، ان ذہنوں سے مکالمہ کرنے کی ہے ، ان منصوبہ سازوں سے جو دہشت گردی کی منصوبہ سازی کر رہے ہیں کو رائے راست پر لانے کی ہے ۔ دہشت گرد ہرگز ہرگز مسلمان نہیں ہوسکتے، دہشت گرد کا کوئی مذہب ، کوئی عقیدہ نہیں ہوتا، نہ ہی کوئی سیاسی وابستگی ہوتی ہے۔ پاکستان کو غیر مستحکم کرنا، پاکستانیوں کو پریشان رکھنا، اسے ختم کردینا ان کا بنیادی مقصد ہے، یہ مقصد تو ہمارے دشمن بھارت کاہے جس نے قیام پاکستان سے آج تک پاکستان کو قبول ہی نہیں کیا۔پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے یقیناًپاکستان کا پڑوسی دشمن ہی ملوث ہے، اب کچھ اس قسم کی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ دہشت گرد اپنے ٹھکانے ہماے دوسرے مسلم پڑوسی ملک افغانستان میں اپنے آپ کو منظم کر رہے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے دوستانہ تعلقات قدیمی ہیں، نہ معلوم کتنے ہی افغانی پاکستان اور افغانستان میں اس طرح آتے جاتے رہے ہیں جیسے لیاری کے لوگ ملیر چلے جائیں۔ افغانستان کے سابق صدرحامد کرزئی کا گھر کوئٹہ میں تھا جب انہوں نے صدارت کا حلف لیا تو وہ کوئٹہ سے افغانستان گئے تھے۔ افغانستان کی موجودہ قیادت کو پاکستان اور اس کے دشمن بھارت میں تمیز کرنا ہو گی، بھارت جب پاکستان کا نہ ہوا جس کی سرزمین پر لاکھوں مسلمان مستقل رہاش پذیر ہیں، پاکستان میں رہنے والے نہ معلوم کتنے ہی لوگوں کے آباؤ اجداد کی قبریں بھارت کی سرزمین میں ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں بسنے والے لاکھوں خاندان ایسے ہیں جن کا روحانی تعلق بھارت کی سرزمین سے اس طرح ہے کہ ان کے عزیز رشتہ دار بھارت میں رہتے ہیں۔ بھارت کو اچھی طرح اس بات کا علم ہے، کشمیر کے اس حصہ پر جس پر بھارت قابض ہے مسلمان تعداد کے اعتبار سے زیادہ ہیں۔ جب بھارت نے پاکستان کو قبول نہیں کیا تو وہ کسی دوسرے مسلمان ملک یا افغانستان کا بہی خواہ، ہمدرد اور دوست کیسے ہوسکتا ہے، افغانستان سے دوستی کی پینگیں بھارت اس لیے بڑھا رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر ے اور کررہا ہے۔افغانی حکمرانوں کو بھارت اور مودی کی اس چال کو سمجھنا چاہیے اور اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

پاکستان کی سیاسی اور عسکری قوتوں نے باہمی صلاح مشورہ کے بعد دہشت گردوں سے نمٹنے کی جو منصوبہ بندی تیار کی ہے ، جو اہم فیصلے اعلیٰ قیادت نے کیے ہیں ان فیصلوں پر فوری طور پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔ سیاسی قیادت کی توجہ اپنی زندگی کو بچانے اور سنوارے پر زیادہ مرکوز ہے، یعنی اپنے سروائیول پر زیادہ توجہ مرکوز ہے۔ آپریشن ضرب عضب اور قومی ایکشن پلان کے جن اہم نکات سے توجہ ہٹ چکی ہے ان پر توجہ دینی چاہیے، حکومت یا اقتدار آنی جانے شہ ہے آج نہیں تو کل یہ کسی اور کو منتقل ہونا ہی ہے۔ پاناما سے جان بخشی ہو بھی گئی تو کوئی اور وجہ اقتدار کی منتقلی ہوسکتا ہے۔ اقتدار کی فکر سے آزاد ہوکر ملک و قوم کی فکر پر توجہ کی ضرورت ہے۔ یہی وقت اور حالات کا تقاضہ اور اشد ضرورت ہے(17فروری2017)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1276645 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More