اعتدال اور میانہ روی

گزشتہ دنوں (22، 23 جنوریٰ) کو اسلام آباد میں رابطۃ العالم الاسلامی نے مرکزی جمعیتِ اہلِ حدیث کے ساتھ مل کر اعتدال اور وسطیت کے موضوع پر دوروزہ انٹر نیشنل کانفرنس منعقد کی ،جس میں ملک بھر اور عالم اسلام کے چوٹی کے علماء ومفکرین نے شرکت فرمائی،راقم نے بھی عربی میں بہت مفصل مقالہ پیش کیا، اللہ کے فضل سے شرکاء نے خوب سراہا،قارئین کے لئے اس کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے:مزاج،معاملات عقائداور فکر نظرمیں تحمل،برداشت،اعتدال اور توسط سے ہر شئے کو قیام و استحکام نصیب ہوتا ہے ، اگر آدمی نقطۂ اعتدال سے ہٹ جائے ، وسطیت اور میانہ روی سے منہ پھیرلے تو کسی انتہا کی طرف مائل ہوکر انتہاپسند ہوجائے گا اور انتہاپسندی ہی کا دوسرا نام ’شدت‘ ہے ،شدت اور تشدد ایک ہی ہے اس لئے ان دونوں کے ڈانڈے بہت جلد ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں، پھر جب ’تشدد‘ آجاتا ہے تو عمل اور ردعمل کا اتنا بڑا خطرناک دروازہ کھل جاتا ہے اورایسی رسّہ کشی شروع ہوجاتی ہے جو آدمی کو بالآخر دہشت گرد بناکر چھوڑتی ہے۔

آج دنیا جس دہشت گردی سے پریشان اور خوف زدہ ہے ، اس کی بنیادی وجہ راہ اعتدال سے انحراف ہے اور یہی سارے فساد کی جڑ ہے ،لوگ اپنے نظریات میں متشدد ہوکر برداشت اور تحمل کی قوت سے محروم ہوجاتے ہیں گر وہ ، فرقے اور مکاتب و مسالک ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور بزور بازوایک دوسرے کو ختم کردینا چاہتے ہیں ،یا نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، اسی ذہنیت کی وجہ سے معاشرے میں امن و امان رخصت ہوجاتا ہے ، چنانچہ آج ہر طرف بدامنی اور دہشت گردی کا دور دورہ اسی لئے ہے ۔

اگر دوسری قومیں راہ اعتدال چھوڑدیتی ہیں تو کچھ زیادہ حیرت کی بات نہیں کیوں کہ ان کووسطیت، توازن و اعتدال کی تعلیم ملی ہی نہیں ، لیکن اُمت مسلمہ اگر راہ اعتدال چھوڑتی ہے، تو یہ بڑے افسوس،تعجب اور حیرانی کی بات ہے ،کیوں کہ اس اُمت کو توازن و اعتدال کی تعلیم واضح اور مفصل ملی ہے ۔ قرآن حکیم نے توازن واعتدال کو کائنات کی ایک زندہ اور جیتی جاگتی حقیقت کے طورپر پیش کیا ہے اور اسی بنیاد پر اُمت مسلمہ کو فرمانِ الہی کےمطابق’اُمت وسَط‘ کے عظیم اور دل نواز لقب سے نوازا گیا ہے اور تلقین کی گئی ہے کہ اس زندہ حقیقت ( توازن و اعتدال ) کو دیکھو اور تم بھی اپنے اندر توازن و اعتدال پیدا کرو کیوں کہ اس حقیقت کا تقاضا ہے کہ اس کو صحیح معنوں میں سمجھا اور پھراپنایا جائے ۔اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ترجمہ : اﷲ نے آسمان کو بلند کردیا ہے اور اس میں توازن قائم کردیا ہے ، اس آفاقی توازن کا تقاضا ہے کہ تم بھی توازن و اعتدال میں تجاوز نہ کرو ۔(سورہ رحمن 8،7)۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:‘‘تمہارے اوپر تمہارے نفس کا حق ہے۔ تمہارے گھروالوں کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے۔ اس لیے ہر حقدار کا حق ادا کرو۔”(أحمد ومسلم)

اقتصادی نظام میں بھی اسلام نے فرد اور معاشرے کی حریت وآزادی کا پورا پوراخیال رکھا ہے، چنانچہ وہ انفرادی ملکیت کا احترام کرتاہے، اسے باقی رکھتاہے بشرطیکہ وہ معاشرہ کے لیے نقصان دہ ثابت نہ ہو، چنانچہ اسلام ، صرف اور صرف انفرادی مفاد کا لحاظ کرنے والی اور عام معاشرے کے حقوق کو پامال کرنے والی سرمایہ داری نیز انفرادی ملکیت کو یکسر کالعدم قرار دینے والی اشتراکیت کے درمیان ایک معتدل موقف اپناتا ہے۔

اور عمومی وخصوصی یعنی انفرادی اور معاشرتی انفاق وخرچ کرنے کے سلسلے میں میانہ روی اس فرمان الہٰی سے واضح ہے
“اور جو خرچ کرتے وقت بھی نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی، بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں۔”:(الفرقان: 67)
اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک درمیانی امت بنایا ہے،تا کہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہیں۔( البقرة: 143)۔
“تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو۔”( آل عمران: 110)۔
“اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں غلو نہ کرو اور اللہ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو۔” (النساء: 171)۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ دین آسان ہے اور جو بھی دین میں بےجا سختی کرتا ہے تو دین اس پر غالب آ جاتا ہے۔ یعنی ایسا انسان مغلوب ہو جاتا ہے اور دین پر عمل ترک کر دیتا ہے۔ پس تم سیدھے راستے پر رہو اور رات کے کچھ حصہ کی عبادت سے مدد حاصل کرو’’ (صحیح بخاری)۔
آپ(ص) نے فرمایا: ”اگر تمہیں کسی سے محبت ہے تو انتہا کی محبت نہ کرو ممکن ہے کہ تمہیں اس سے نفرت ہوجائے

اور اگر تمہں کسی سے نفرت ہوجائے تو انتہائی نفرت نہ کرو ممکن ہے تمہیں اس سے محبت ہوجائے“
سورۃرحمان میں ارشاد ہوا:”ہر انسان کو ترازو دے کر بھیجا گیا ہے اپنا توازن قائم کرو ،خبردار تول کو گھٹائو مت“

قرآن پاک کی یہ آیت ہمیں میانہ روی کا درس دیتی ہے پس ثابت ہوا”میانہ روی اک ترازو ہے جسے ہر ادنی و اعلی شخص عمل کرنے سے خرید سکتا ہے۔اسی طرح ہمیں زندگی کے ہر کام میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیئے، ایک اور جگہ ارشاد ہے:”اور ہم نے زمین پر ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے جن کے بارے تم جانتے ہو انکے بھی اور جن کے بارے تم نہیں جانتے ان کے بھی“

یہ آیت بھی میانہ روی کا درس دیتی ہےہمیں ہر جوڑے کو بالترتیب اپنے ترازو کے دونوں پلڑوں میں بائیں ،دائیں تولنا چاہیئے ،ہر کام میں توازن برقرار رکھیں،مثلاً:کھانےپینے میں میانہ روی،محبت و نفرت میں ،مصروفیات وفارغ اوقات میں ،اسلام ودنیا میں میانہ روی،گفتگو و خاموشی میں میانہ روی،خوشی و غمی میں میانہ روی،اور سوچ و عمل میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیئے ۔ بطورِ خاص مسلم دنیا کو چاہیئے کہ میانہ روی کو بین الاقوامی امور میں اپنا ماٹو بنائے۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 814071 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More