پاکستان، آزاد کشمیر اور کشمیری !

وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے برطانیہ کے دورے کے بعد کشمیر ہاؤس اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے اساتذہ کی تربیت سے متعلق برٹش کونسل کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے اور برطانیہ میں اپنی دیگر مصروفیات کے بارے میں بتایا۔وزیر اعظم آزادکشمیر نے اپنی حکومت کی چھ ماہ کی کارکردگی پر بھی مختصر طور پر روشنی ڈالتے ہوئے شعبہ تعلیم میں ’ این ٹی ایس‘ کے طریقہ کار،پبلک سروس کمیشن اور ہسپتالوں میں ایمر جنسی کے نئے نظام کے بارے میں بتایا جس کے تحت محکمہ صحت میں کئی سو افرادکی بھرتی بھی کی جا رہی ہے۔کشمیر لبریشن سیل میں مسلم لیگی نوجوانوں کی تعیناتی کے سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ کشمیر سیل میں دو تین مزید بھی لگائے جا سکتے ہیں۔حافظ سعید کے خلاف کاروائی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں وفاقی حکومت کے اقدامات سے متفق ہیں۔وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ حافظ محمد سعید نے’ تحریک آزادی کشمیر‘ بنانے کا اعلان کیا ہے،کیا ان کی اس’ تحریک آزادی کشمیر‘ میں آزاد کشمیر حکومت بھی شامل ہے؟انہوں نے اس کا ’آف دی ریکارڈ‘ جواب دینے کی بات کرتے ہوئے میڈیا کے کیمرے بند کرنے کو کہا لیکن کیمرے بند نہ ہونے کی وجہ سے ان کی طرف سے اس پر بات نہ ہو سکی۔

گزشتہ چند ہفتے سے ایسی اطلاعات مل رہی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر سے ویزے پر پاکستان آنے والوں کو اس وجہ سے آزاد کشمیر میں داخلے سے روکا جا رہا ہے کہ ان کے ویزے میں آزاد کشمیر کا اندراج شامل نہیں ہے۔بتایا جا رہا ہے کہ کوہالہ کے مقام سے ایسے متعدد کشمیری خاندانوں کو آزاد کشمیر داخلے سے روکا گیا ہے۔مختلف کشمیری حلقوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے آنے والوں کو اپنی ہی ریاست کے دوسرے حصے میں اس طرح روکے جانے سے کشمیریوں میں تشویش پائی جا رہی ہے۔مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر ،دونوں خطوں میں ڈوگرہ مہاراجہ کے قانون باشندہ ریاست جموں و کشمیر کے تحت سرٹیفیکیٹ باشندہ ریاست جموں و کشمیر جاری کیا جاتا ہے،یوں باشندہ ریاست جموں و کشمیر کا سرٹیفیکیٹ رکھنے والوں کواپنی اس متنازعہ ریاست(جس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت رائے شماری کے ذریعے کیا جانا ابھی باقی ہے)میں داخلے سے روکا جانا ایک غلط اور قابل اعتراض اقدام ہے۔آزاد حکومت ریاست جموں کے کشمیر کے قیام کے اعلان میں اس آزاد حکومت کو تمام ریاست اور کشمیریوں کی نمائندہ حکومت قرار دیا گیا لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے ریاست کشمیر میں جنگ بندی کے چند ہی ماہ بعد 28اپریل1949ء کو معاہدہ کراچی کے تحت آزاد حکومت سے کئی اختیارات لیتے ہوئے اسے ایک ایسی مقامی انتظامیہ میں تبدیل کر دیا گیا جس کا تحریک آزادی کشمیر میں کوئی کردار نہیں۔1974ء کے عبوری ایکٹ میں بھی آزاد کشمیر حکومت کا کردار مقامی انتظامیہ کے طور پر ہی محدود رکھا گیا۔تاہم اس کے باوجود کشمیر کاز کے حوالے سے آزاد کشمیر حکومت کا سیاسی کردار باقی رہا جس کے تحت مقبوضہ کشمیر سے آنے والوں کو اپنی ریاست کے دوسرے حصے میں آمد قرار دیا جاتا رہا۔اب گزشتہ چند سال سے دہشت گردی کے خلاف حکومت پاکستان کے ’ نیشنل ایکشن پروگرام‘ کے تحت آزاد کشمیر میں حکومت پاکستان کی طرف سے کئی نئی پابندیاں عائید کی گئیں جس سے آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیرمیں رہنے والے کشمیری باشندوں کو الگ الگ خطوں میں رہنے والوں کے طور پر ’ڈیل‘ کئے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔بعض حلقے اس معاملے میں آزاد کشمیر حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر سے آنے والوں پر عائید اس پابندی کو ختم کرایا جائے۔لیکن آزاد کشمیر کی سیاسی حکومت اس طرح کے اختیار سے عاری نظر آتی ہے اور وفاقی حکومت سے اس معاملے میں بات کرنے میں بھی آزاد کشمیر حکومت مجبوری کے عالم میں نظر آتی ہے۔دوسرے الفاظ میں پاکستان نے اپنے زیر انتظام کشمیر میں اپنے کنٹرول کو مزید مضبوط بنایا ہے اور آزاد کشمیر حکومت کے کردار کو مزید محدود کیا گیا ہے۔حکومت پاکستان کے اس طرح کے اقدامات سے آزاد کشمیر کا خطہ کشمیر کاز سے منسلک ہونے کے تصور کے بجائے پاکستان کے ایک انتظامی یونٹ کے طور پر نمایاں ہو رہا ہے اور تقسیم کشمیر کے عمل میں پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

حکومت پاکستان کی طرف سے حافظ محمد سعید اور ان کے ساتھیوں کی نظر بندی کے بعد ان کی جماعت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ حکومت کے اس اقدام سے اگر تحریک آزادی کشمیر کو نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ دار حکومت ہو گی۔اس سے پہلے حافظ سعید صاحب کی طرف سے جماعت الدعوۃ کی جگہ اس کا نام ’تحریک آزادی کشمیر‘ رکھے جانے کا اعلان کیا گیا۔ان کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ جماعت الدعوۃ کی طرف سے پاکستان بھر میں کشمیر کے نام پر منعقد کئے جانے والے جلسوں،مظاہروں سے گھبرا کر بھارت نے ان پر پابندی لگوائی ہے۔حافظ سعید صاحب کی تنظیم کیا کرتی رہی ہے اور آئندہ اس سے کیا کام لیا جانا ہے،اس کا فیصلہ حکومت پاکستان کی خفیہ صوابدید کے طور پر ہی دیکھا جا رہا ہے۔کئی کشمیری حلقوں کی طرف سے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد مبنی پر حق و انصاف ہے، پاکستان کی ایسی تنظیم کا کشمیر میں کام کرنا کس طرح کشمیر کاز کے مفاد میں ہے کہ اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کے شائبے میں کاروائی کا نشانہ بننے والی کسی پاکستانی تنظیم کی مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی میں شریک ہونے سے کیا کشمیریوں کی بھارت کے خلاف جائز اور منصفانہ جدوجہد آزادی پر دہشت گردی کے الزام کے خطرات میں اضافہ نہیں ہو جاتا؟

پاکستان میں اس مرتبہ بھی 5فروری کو مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی سے اظہار یکجہتی کا دن سرکاری اور سیاسی سطح پر منایا گیا،یہ پاکستان کی حکومت،سیاسی جماعتوں،این جی اوز کی کشمیریوں کی بھارت کے خلاف جدوجہد آزادی کی حمایت میں یکجہتی کا اظہار ہے،یعنی یہ پاکستان کی طرف سے آزادی پسند کشمیریوں کی حمایت میں اظہار یکجہتی ہے اور پاکستان کی حمایت کے اس عمل میں کشمیریوں کی مشاورت بالکل بھی ضروری نہیں ہے کہ یہ پاکستان کے اپنے فیصلے اور اقدامات ہیں۔اس موقع پر اس اعلان کا ایک بار پھر اعادہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی ،سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا ، تاہم اس میں کشمیریوں کی رائے کو شامل کرنا قطعی غیر ضروری محسوس کیا جا رہا ہے۔اب معلوم نہیں کہ پاکستان کی اخلاقی مدد و حمایت میں فوجی مدد شامل ہے یا نہیں،لیکن یہ ضرور واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کی طرف سے اخلاقی،سیاسی اور سفارتی حمایت مکمل طور پر غیر سیاسی ذرائع سے بروئے کار لائی جا رہی ہے اور پاکستان میں سول حکومتوں کے قیام کے باوجود اس صورتحال میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آ ئی۔

گزشتہ روز ایک تقریب میں آزاد کشمیر کے وزیر حکومت چودھری محمد سعید سے ملاقات ہوئی،انہوں نے دریافت کیا کہ میں نے اب تک آزاد کشمیر حکومت کی کارکردگی کے بارے میں کیوں نہیں لکھا؟ میں نے عرض کی کہ اپوزیشن کی طرح میں بھی آزاد کشمیر حکومت کے چھ ماہ گزرنے کے انتظار میں تھا۔اس پر چودھری محمد سعید نے کہا کہ آپ اپوزیشن کے نقطہ نظر کے بجائے اپنے زاوئیے سے تحریر کریں۔میں نے ان سے وعدہ کیا کہ جلد ہی آزاد کشمیر حکومت کے چھ ماہ کے اقدامات،کاروائیوں اور فیصلوں کے حوالے سے آزاد کشمیر کی صورتحال پر جلد ہی لکھوں گا،تاہم آزاد کشمیر حکومت کا یہ جائزہ تشہیری پروپیگنڈے کے بجائے حقیقی جائزے پر ہی مشتمل ہو گا۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 768 Articles with 609565 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More