کرپشن کے کلچرمیں کرپشن ہی کرپشن کی داستانیں

ایوان صدرمیں انسدادبدعنوانی سمینارسے خطاب کرتے ہوئے صدرمملکت ممنون حسین کاکہناتھا کہ ہمارے معاشرے کے بگاڑکی اصل وجہ بدعنوانی اور اختیارات کاغلط استعمال ہے۔بدعنوانی ایک ایساناسورہے جس سے معاشرے کاایک بہت بڑاطبقہ محرومی کاشکارہوجاتا ہے۔صدرمملکت کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ بدعنوانی اوراختیارات کے غلط استعمال سے ہی معاشرے میں بگاڑپیداہوتاہے۔اس سے حق داروں کی حق تلفی بھی ہوتی ہے یوں معاشرے کے کئی طبقات محرومی کاشکارہوکرمایوسی کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔ا ممنون حسین کاکہناتھا کہ پاکستان سمیت دنیاکے مختلف معاشروں میں بدعنوانی کی ساری ذمہ داری اہل اقتداراوراہل اختیارپرڈالنادرست نہیں۔کسی حدتک ان مسائل کے ذمہ دارحکمران توہوسکتے ہیں لیکن حکمرانوں کے ساتھ ساتھ معاشرے کوبھی بری الذمہ قراردیناغلط ہوگا،اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بدعنوانی اوراختیارات کاچولی دامن کاساتھ ہے لیکن بدعنوانی کے خلاف بات کرتے ہوئے اس بات کوپیش نظررکھاجائے کہ اس سے ریاست، ریاستی ادارے اورریاستی نظام کوکوئی نقصان نہ پہنچے۔ممنون حسین کی یہ بات بھی درست ہے کہ بدعنوانی کی ساری ذمہ داری حکمرانوں پرنہیں ڈالی جاسکتی۔معاشرے بھی اس کے ذمہ دارہوتے ہیں۔ممون حسین کی اس بات کاجواب اس کہانی میں موجود ہے کہ ایک بادشاہ نے سیرکے دوران ایک باغ میں قیام کیا۔ اس کے ساتھ اس کے وزراء ، سیکرٹریز اوردیگرعملہ بھی ساتھ تھا۔بادشاہ نے مالی سے کہا کہ وہ کھانے کے لیے پھل پیش کرے۔مالی نے کہا کہ بادشاہ سلامت آپ جوپھل چاہیں توڑ کرکھاسکتے ہیں۔ بادشاہ نے کہا کہ نہیں تم اپنے ہاتھ سے توڑ کرہمیں کھلاؤ۔ مالی کے بارباراصرارپربھی بادشاہ نے پھل نہ توڑے اورمالی کوہی وہ پھل توڑ کربادشاہ کے سامنے پیش کرنے پڑے۔ کچھ دیرآرام کے بعدجب بادشاہ جانے لگاتواس نے مالی کوبتایا کہ اگرمیں تیرے باغ میں سے ایک پھل بھی توڑکرکھاجاتا تومجھے دیکھ کریہ وزراء اوردیگرساراعملہ تیرے باغ سے پھلوں کاصفایاکردیتا۔حکمران اگرایک روپے کی کرپشن کریں گے تومعاشرے میں لاکھ روپے کی کرپشن ضرورہوگی۔یہ بھی ضروری نہیں کہ حکمران منصوبوں میں کرپشن کریں،ناجائزذرائع سے سرمایہ حاصل کریں ، ملک میں لوٹ مارسے بینک بیلنس میں اضافہ کریں ،حکمران تواس وقت بھی اس کے ذمہ دارہیں جب وہ چیک اینڈبیلنس نہ رکھیں۔منصوبوں کے ٹھیکے من پسندٹھیکداروں کومیرٹ سے ہٹ کردیے جائیں۔ان کاکہناتھا کہ ہماری یہ کوششیں اسی صورت کامیاب ہوسکتی ہیں اگراہم گروہی مفادات سے اوپراٹھ کرصرف بدعنوانی کواپناہدف بنائیں۔آج کے دورمیں ہمارے معاشرے میں ایساہی ہورہا ہے۔ہم بدعنوانی کے خلاف اپنے گروہی مفادات میں رہتے ہوئے ہی بلندکرتے ہیں۔ہم اپنے سیاسی اورگروہی مخالفین کی کرپشن کے چرچے توگلی گلی ،کوچہ کوچہ کرتے ہوئے خاموش ہی نہیں ہوتے جبکہ اپنی اوراپنوں کی کرپشن کاتونام ہی نہیں لیتے۔ہمیں سارے عیب اوربرائیاں اپنے مخالفین میں ہی نظرآتی ہیں جبکہ تمام خوبیاں اوراچھائیاں ہمیں اپنی ذات اوراپنوں میں ہی دکھائی دیتی ہیں۔مخالفین کی کرپشن اوربدعنوانی کاپرچارکرنااوراپنوں کانام نہ لینابھی بدعنوانی ہے ۔صدرمملکت کہتے ہیں کہ احتسابی عمل کومزیدشفاف اورموثربنانے کے لیے ادارے اورعوام ایک دوسرے کے دست وبازوبن کرمعاشرے کی کالی بھیڑوں پراتناموثرہاتھ ڈالیں کہ انہیں بچنے کاکوئی راستہ نہ مل سکے۔صدرمملکت درست ہی کہتے ہیں عوام کے تعاون سے ہی احتسابی عمل کومزیدموثراورشفاف بنایا جا سکتاہے۔عوام توتب ہی اداروں کے دست وبازوبن سکتے ہیں جب اس طرح کاکوئی کام ان کے سامنے ہو۔ایسے کام توایسی رازداری سے کیے جاتے ہیں کہ ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کوبھی کانون کان خبرنہیں ہوتی کہ اس کی موجودگی میں کیاہورہا ہے۔صدرمملکت کی بات پر تب عمل ہوسکتا ہے کہ اداروں میں کام کرنے والاماتحت عملہ کوئی بھی خلاف ضابطہ کام کرنے سے صاف انکارکردے اورحکومت کی طرف سے اس ماتحت عملہ کوتحفظ بھی حاصل ہوکہیں ایسانہ ہوکہ کوئی ماتحت ملازم کسی افسرکاخلاف ضابطہ کام کرنے سے انکارکردے تواسے وہی افسرکوئی نہ کوئی جوازبناکرفارغ ہی نہ کردے۔بہت سی رازداں زبانیں صرف اس لیے خاموش رہتی ہیں کہ کہیں ان کے خلاف انتقامی کارروائی نہ شروع ہوجائے کہیں ملازمت سے نہ نکال دیاجائے۔آئی این پی کے مطابق صدر ممنون حسین نے لکھی ہوئی تقریرپڑھنے کے بعدکرپشن پرزبانی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کرپٹ لوگوں کونشان عبرت بناتے ہوئے ان کی بیخ کنی کی جائے ، بدعنوان لوگ بے غیرت اوربے شرم ہوتے ہیں جوکرپشن بھی کرتے ہیں اورسینہ پھیلاکرکھڑے بھی ہوتے ہیں ۔انہوں نے چیئرمین نیب اورگورنرسٹیٹ بینک کوہدایت کی کہ اپنے اداروں کوکرپٹ لوگوں سے پاک کریں کیونکہ مختلف محکموں میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہیں ان محکموں میں نہیں ہونا چاہیے ۔ صدرمملکت کاکہناتھا کہ اگرفرداپنی اجتماعی ذمہ داریوں کونظراندازکردے تواس کے نتیجے میں انتشارکی کیفیت پیداہوجاتی ہے جس سے بنے بنائے معاشرے ٹوٹ پھوٹ کاشکارہوجاتے ہیں صدرمملکت نے کہا کہ عوام کوتحفظ فراہم کرناحکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے خاص طورپرایسے افرادجوبدعنوان عناصرکوعبرت کانشان بنانے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔صدرمملکت درست ہی کہتے ہیں کہ اجتماعی ذمہ داریوں سے پہلوتہی بھی بدعنوانی کی فہرست میں آتی ہے۔ذمہ داریاں ادانہ کرنااوردوسروں پرڈال دینابھی کرپشن کی ایک قسم ہے۔ایوان صدرمیں پریس کونسل کے وفدسے گفتگوکرتے ہوئے صدرمملکت ممنون حسین نے کہا کہ پریس کومعاشرے کی بیداری اوربدعنوانی کے خلاف رائے عامہ کوہموارکرنے کے لیے جدوجہدکرنی چاہیے۔پریس یہ کام پہلے ہی کررہا ہے۔شایدہی کوئی ایسادن ہوتاہوجس میں کسی نہ کسی اخبارمیں کسی نہ کسی کی کرپشن کاپردہ چاک نہ کیاگیاہو، بدعنوانی کے خلاف سب سے زیادہ آوازمیڈیامیں ہی اٹھائی جاتی ہے۔میڈیاکے ساتھ ساتھ معاشرے کے دیگرطبقات کوبھی کرپشن کے خلاف ایک ہوجاناچاہیے۔ان کاکہناتھا کہ کرپشن اوربدعنوانی صرف مالی ہی نہیں ہوتی بلکہ اخلاقی بھی ہوتی ہے۔اگرلوگ اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن ادانہ کریں تویہ بھی بدعنوانی کے زمرے میں آتاہے۔ہرادارے کاسربراہ اپنے ادارے کی کارکردگی کاذمہ دارہوتاہے۔صدرمملکت کی یہ بات بہت وسیع ہے ہم حکمرانوں اورسیاستدانوں کی کرپشن کے خلاف توباتیں کرتے ہیں جبکہ اس اخلاقی کرپشن کے خلاف ہم خاموش رہنے کوہی ترجیح دیتے ہیں۔یہ بھی کرپشن ہے کہ کوئی ڈاکٹرہسپتال میں اپنی ڈیوٹی کے دوران اپنے کلینک میں مریضوں کاعلاج کرے، ڈاکٹرڈیوٹی سے غائب رہے، مریض ہسپتالوں میں تڑپتے رہیں اورڈاکٹرسڑکوں پراحتجاج کرتے رہیں۔یہ بھی کرپشن ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں مریض کودوائی میڈیکل سٹورسے خریدنے کی ہدایت کی جائے, مریض کواس کی متعلقہ سہولیات فراہم نہ کی جائیں, ڈاکٹرمریضوں کواس کے ذاتی کلینک پرعلاج کرانے کامشورہ دیں۔یہ بھی کرپشن ہے کہ کوئی پروفیسریاٹیچرکالج یاسکول ٹائم کے دوران کسی پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں پڑھائے ۔ وقت پرنہ آنا اوروقت سے پہلے جانابھی کرپشن ہے۔طلباء ،طالبات کوٹیوشن پڑھنے کامشورہ دینابھی کرپشن کے زمرے میں آتاہے۔بجلی کے بلوں میں اضافی یونٹ ڈالنابھی کرپشن کہلاتاہے۔اچھے میٹریل کے پیسے لے کرگھٹیامیٹریل استعمال کرنابھی کرپشن ہے۔چھٹی کرکے بھی حاضری لگوادینابھی کرپشن ہے۔سچی بات تویہ ہے کہ بدعنوانی ہمارے معاشرے کاکلچربن چکی ہے۔کرپشن ہمارے معاشرے میں کس طرح پھیلی ہوئی ہے اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ فیس بک پرآج کل ایک پوسٹ گردش کررہی ہے وہ یوں ہے کہ کسی سکول میں کوئی کام کراناتھا کاریگرکوبلایا گیا توفی طالب علم پانچ روپے خرچ آتا تھا سکول کے سربراہ نے اساتذہ سے کہا کہ طلباء سے کہیں کہ وہ دس دس روپے لے کرآئیں۔اساتذہ نے طلباء سے کہا کہ وہ گھرسے تیس تیس روپے لے کرآئیں ۔طلباء نے گھروں میں جاکراپنی ماؤں سے کہا کہ استادصاحب سوروپے مانگ رہے ہیں ،طلباء کی ماؤں نے اپنے خاوندوں سے کہا کہ سکول والے دوسوروپے مانگ رہے ہیں۔پانچ روپے کی کرپشن بڑھتے بڑھتے کہاں تک پہنچ گئی۔دودھ ،گھی ،مرچ سمیت اشیائے خوردنوش میں ملاوٹ بھی کرپشن ہے۔آپ سبزی یافروٹ خریدنے جائیں توآپ کے سامنے اعلی کوالٹی کے پھل اورسبزیاں پڑی ہوں گی جب خریدکرگھرآئیں گے تویہ دیکھ کردنگ رہ جائیں گے کہ نصف کے قریب پھل یاسبزی ناقابل استعمال ہوگی۔یہ بھی کرپشن ہے۔پھلوں اورسبزیوں پراس لیے پانی چھڑکتے رہناکہ وزن بڑھتارہے کرپشن ہی ہے۔رات کوکپاس فرش پربکھیرکراس پرپانی ڈال دیاجاتا ہے کہ اس سے وزن بڑھ جائے گا یہ بھی کرپشن ہے۔مققرہ وقت سے کم ڈیوٹی کرنااورمعاوضہ پورا لینابھی کرپشن ہے اورمعاوضہ طے شدہ دے کرکام مقررہ وقت سے زیادہ لینابھی کرپشن ہے۔ معاوضہ ایسے کام کاطے کرناجس کی مزدوری کم اورمزدورسے کام وہ لیناجس کی مزدوری زیادہ ہوبھی توکرپشن کہلاتاہے۔ گوشت میں ناقابل استعمال گوشت بھی ڈال دینابھی کرپشن ہے۔ہماری سائیکل پنکچرہوگئی ہم نے ایک سائیکل مکینک سے پنکچرلگوایا یہ شام کاوقت تھا۔ دوسرے دن پھرصبح کے وقت ہواکم تھی۔ ہم سائیکل کسی اورمیکنک کے پاس لے گئے اوراسے بتایاکہ کل شام کوہی پنکچرلگوایا ہے ہواپھربھی کم ہے۔ اس نے ٹیوب چیک کر کے بتایا کہ اس ٹیوب پرتوایک بھی پنکچرنہیں لگاہوا۔جبکہ پہلے والے سائیکل مکینک نے پنکچرکے پیسے بھی لے لیے تھے۔ یہ بھی توکرپشن ہے۔کسی اورکی تحریراپنے نام سے شائع کرانا,کسی اورشاعرکے کلام کواپنے نام سے منسوب کرنابھی تو بد عنوانی ہے۔گورنمنٹ کے کسی بھی محکمہ میں ملازمت کرنا ،تنخواہ محکمہ سے لینا،ڈیوٹی پرنہ آنا،اپناکاروباریاکھیتی باڑی کرنابھی توکرپشن ہے۔وزن سے کم روٹی بنانااورسالن زیادہ قیمت لے کرکم دینابھی کرپشن ہے۔طے شدہ وقت سے ڈیوٹی زیادہ وقت لینااورمعاوضہ طے شدہ دینابھی توبدعنوانی ہے۔کسی کوکام کے لیے مقررکرتے وقت اس کی ڈیوٹی ، اس کی ذمہ داریوں اوروقت کاتعین کرنااوراس کے معاوضہ کاتعین نہ کرنااورکام بھی اپنی مرضی کالینااورمعاوضہ بھی اپنی مرضی کادینابھی توکرپشن ہے۔یہ بھی توکرپشن ہے کہ گندم کے آٹے کے پکوڑے بناکرکہناکہ یہ بیسن کے بنائے گئے ہیں۔ترازواورپیمانے درست نہ رکھنا بھی توکرپشن ہے۔غریبوں، یتیموں ،بیواؤں، مریضوں کے نام پرفنڈزاورچندے وصول کرکے خود استعمال کرلینابھی توکرپشن کہلاتاہے۔کسی اورکی جائیداد اپنے نام کرالینا،کسی اورکی جائیدادپرقبضہ کرلینابھی توکرپشن ہے۔ٹیکس نہ دینا، ٹیکس ایمانداری سے نہ دینا، ٹیکس بچانے کے لیے اپنی جائیداد اور سرمایہ کسی اورکے نام کردینا،ٹیکس بچانے کے لیے طرح طرح کے جوازتلاش کرنابھی توکرپشن ہے۔بجلی کامیٹرریورس کردینا، بجلی کامیٹرکوبریک لگادیناکہ یونٹ نہ بڑھنے پائیں، کنڈی لگاکربجلی استعمال کرنابھی توکرپشن ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتے ہی کرائے بڑھادیناجبکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے پرکرائے کم نہ کرنابھی توکرپشن ہے۔یہ بھی توکرپشن ہے کہ لاہورسے کراچی کاکرایہ وصول کرکے حیدرآبادمیں اتاردینا، لیہ سے لاہو ر کا کرایہ وصول کرکے فیصل آبادمیں اتاردیناکہ گاڑی اس سے آگے نہیں جائے گی ۔یہ بھی توکرپشن ہے کہ کرایہ پوراوصول کرنااورمسافرکوسیٹ نہ دینا۔بس ، ہائی ایس وغیرہ میں سفرکرنااورکرایہ نہ دینابھی توکرپشن ہے۔لباس تیارکرنے کے بعدقابل استعمال بچاہواکپڑاواپس نہ کرنابھی توکرپشن ہے۔یہ بھی تو کرپشن ہے کہ ہمارے شہرمیں ایک غریب نوجوان ایک ہوٹل میں کام کرتاتھا۔ اس کی مزدوری بھی طے شدہ تھی۔چائے بھی بناتا، گاہکوں کو چائے اورپانی دے آتا،برتن بھی خودلے آتا، صبح سے رات گئے تک تنہاکام کرتااس کوسستانے کاوقت بھی نہ ملتا۔ہوٹل کامالک اس نوجوان سے کہتاکہ میں تیرے لیے اچھا رشتہ تلاش کررہاہوں میں تیری شادی کراؤں گا۔تجھے شہرمیں پلاٹ لے کردوں گا، تیرے لیے یہ کروں گا وہ کروں گا۔ مزدوری اس نے نہ دی۔ایک دن اس نوجوان نے ہوٹل کے مالک سے اپنی تنخواہ مانگی تواس نے کہا کہ میراہوٹل میں اتنانقصان ہوگیا ہے ، مجھے اتنے پیسے دے۔ہوٹل کے مالک نے مزدور کو مزدوری دینے کی بجائے اس سے یہ کہہ کرپیسے مانگ لیے کہ اسے اتنانقصان ہواہے۔حالانکہ وہ مزدورتھا کاروبارمیں شراکت دارنہیں تھا۔ایک شخص بتارہا تھا کہ اس کانلکاپانی بہت کم دیتاتھا اس نے پلمبرکوبلایاتو اس نے کہا کہ پانی کی سطح نیچے ہوگئی ہے اس لیے نلکے کابوراورکرناپڑے گااورپائپ بھی زیادہ ڈالنا پڑے گا، اس نے بورکرایا اورپلمبرکی دی ہوئی پیمائش کے مطابق پائپ کے پیسے بھی دیے اوراس کی مزدوری کے بھی۔ چنددنوں کے بعد نلکاپھرپانی کم دینے لگ گیا۔ ایک اورپلمبرنے پھربورکیاتوپتہ چلاکہ پہلے والے پلمبرنے بتائی ہوئی پیمائش سے کم پائپ ڈالاتھا۔ہرطرف کرپشن ہے، ہرجگہ کرپشن ہے۔کرپشن کی کون کون سی داستان لکھی جائے ،کون کون سی کرپشن کی مثال بتائی جائے،کس کس کی کرپشن کااحوال بتایاجائے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 300127 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.