دور حاضر کا مؤثر ترین میڈیا

مُشک، خوشبو کا دوسرا نام ہے، اگر اس میں سے خوشبو اڑا دی جائے تو اسے کوئی بھی مشک ماننے کے لیے تیار نہیں ہوگا، اس کی حیثیت ردی کے کاغذ جتنی رہ جائے گی.

یہی کیفیت میڈیا کی ہے، کہ وہ عوامی جذبات کا ترجمان ہے،اسے مہمیز دیتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی تربیت کرتا ہے اور جب انہیں بلوغت نظری حاصل ہو جاتی ہے تو پھر انہیں انقلاب کے لیے تیار کرتا ہے. ایک ایسا انقلاب جو ان کے گھر سے لے کر حکومت کے ایوانوں تک، سب کو بدل کر رکھ دے. اور یہی انقلاب اصل آنقلاب کہلاتا ہے.

میڈیا کی تینوں اقسام (الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا) اپنے اپنے دائرے میں لائق تحسین ہیں. اگر عوام ان تینوں کا استعمال درست طریقے سے کریں تو کوئی بھی کسی سے کم نہیں ہے. لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا اپنی بقیہ دونوں قسیم سے بعض وجوہات کی بنا پر بڑھ کر ہے.

مثلاً :
یہ خبر پہنچنے کا تیز ترین ذریعہ ہے. گذشتہ دنوں برطانیہ میں ایک قتل ہو گیا، اس کی خبر الیکٹرانک میڈیا اور پولیس کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے ہی پتہ چلی.

سوشل میڈیا ہر انسان کی پہنچ میں ہر وقت ہے، جبکہ بقیہ دونوں اقسام ہر بندے کی پہنچ میں ہر وقت نہیں ہیں. جس کی جیب میں سمارٹ فون ہے اس کا تعلق چوبیس گھنٹے سوشل میڈیا سے رہ سکتا ہے جبکہ الیکٹرانک میڈیا کے لیے ٹی وی سیٹ ہونا ضروری ہے جو گھر کے کسی ایک کونے میں بیٹھ کر ہی دیکھا جا سکتا ہے.

رہی بات پرنٹ میڈیا کی تو وہ اتنا سست رفتار ہے کہ اسے لوگ دفاتر میں وقت گزاری کے لیے ہی استعمال کرتے ہیں.

سوشل میڈیا میں وہ طاقت ہے کہ اس کے ذریعے سے بڑی بڑی حکومتیں دِنوں میں گرائی جا سکتی ہیں، بڑے بڑے بُرج پل بھر میں اُلٹے جا سکتے ہیں. آپ کے سامنے تیونس کی مثال موجود ہے جہاں ایک ریڑھی بان کی خود کشی کے چند گھنٹوں بعد ہی سوشل میڈیا کی قوت نے پچیس سال سے قابض حکمران زین العابدین کو گھر کی راہ دکھا دی.

دور کیوں جائیں، اسلام آباد کی ہوٹلوں پر دھکے کھانے والے ایک اَن پڑھ دیہاتی کو راتوں رات شہرت کی بلندیوں تک پہنچانے والا بھی یہی سوشل میڈیا ہی ہے.

سوشل میڈیا اس لیے بھی بقیہ قسموں پر فوقیت رکھتا ہے کیونکہ یہ ہر شہری کی بات دوسروں تک پہنچا سکتا ہے جبکہ دیگر اقسام پالیسی کے تحت ہی کوئی بات دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں، پالیسی سے ہٹ کر ہونے والی بات کانٹ چھانٹ کی نذر ہو جاتی ہے. جبکہ سوشل میڈیا اس سے پاک ہے -

سوشل میڈیا پر کوڈ الفاظ میں اپنا نظریہ پھیلایا جا سکتا ہے جبکہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ایسا کرنا اگرچہ ناممکن نہیں ہے لیکن مشکل ضرور ہے.

معلوم ہوا کہ سوشل میڈیا کی قوت اور طاقت الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سے کہیں زیادہ ہے. 
 
Abdus Saboor Shakir
About the Author: Abdus Saboor Shakir Read More Articles by Abdus Saboor Shakir: 53 Articles with 89483 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.