طلسم وادی سرن پاکستان

وادی سرن

سفرنامہ ۔ وادی سرن ۔ محمد ارشد رفیق
15)جولائی تا 17 جولائی (2016
ہم اسلام آباد سے ایبٹ آباد کے راستے مانسہرہ سے گذرتے ہوئے شنکیاری اور ایک طرف سر سبز پہاڑ اور ایک طرف بل کھاتا دریا، ہم دریاکے کنارے ڈرائیو کرتے جبوڑی شہر سے ہوتے ہوئے پنجول پہنچے. پنجول ایک خوبصورت جگہ,اس علاقے میں مکئی کی فصل اگائی جاتی ہے جبکہ آلو بخارہ, سیب اور اخرٹ بکثرت پایا جاتا ہے۔ یہاں سے تهوڑا آگے مشرق کی جانب چهوٹا سا قصبہ منڈہ گچهہ آتا ہے. منڈا گچها سے مشرق کی جانب سر اٹهائےاک پہاڑ نظر آتا ہے جسے موسی کا مصلے کہتے ہیں۔ یہاں بہتی ندی، اس کا شوراک عجیب سرور سا دیتا ہے، اس کی خوبصورت موسیقی کے سحرسے اپنے آپکو نکالنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی لگتا ہے۔ یخ بستہ بہتی ندی میں نہاتے ہوئے بچے دنیا کے جھبیلوں سے بہت دور اپنی خوبصورت دنیا میں مگن اٹکیلیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں ٹروٹ مچھلی پکٹرتے پرامید چہرے اپنے یقین کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں جولائی کے مہینے میں رات کو ہم کمبل لے کے سونا پڑا۔ دوسرے دن پنجول سے تهوڑا باہر نکل کر ہم دومیل گئے جہاں سرن ویلی کے 2 دریا آپس میں ملتے ہیں یہاں پہ دوسرے علاقوں کے لوگ اپنی فیملی کے ساتھ پکنک منانے آتے ہیں، ٹرائوٹ پکڑتے ہیں اور خوب نہاتے ہیں۔

یہاں وادی سرن میں ٹراوٹ مچهلی ندی (یہاں کے لوگ دریا کوندی بولتے ہیں) میں عام پائی جاتی ہے جسے کرنٹ کے ذریعے پکڑا جاتا ہے, یہاں بیاڑ اور دیار کے جنگلات بکثرت ہیں. سرن ویلی میں 3 قومیں آبار ہیں گجر سردار, سواتی اور سید, سواتی قوم آپس میں ذاتی رنجشوں کی وجہ سے قتل و غارتگری کی وجہ سے ختم ہوتی جارہی ہے, اور سید قوم آپس میں نااتفاقی کی وجہ سےحکومتی سطح پر کسی خاص درجے پہ نہ پہنچ سکی. مگر یہاں کئی عشروں سے گجر سردار ڈومینیٹ کر رہے ہیں. وزیر مذہبی امور سردار یوسف گذشتہ 03 برسوں سے بلا شکست وزارت کی گدی پر برانجمان ہیں. یہاں کے لوگ کهیتی باڑی کرتے ہیں اور شہروں میں جاکے کام کرتے ہیں. یہاں لڑکے اور لڑکیوں کے الگ الگ سکول بهی ہیں. جبکہ ایک چهوٹا سا ہاسپیٹل بهی ہے. مگر زیارہ تر لوگ اپنے کاموں کیلئے شنکیاری جاتے ہیں. یہاں کے لوگ پردے کے پابند اور اسی لئےیہاں اجنبی لوگ کم آتے ہیں. زمانہ بہت ترقی کر چکا ہے مگر ابهی تک یہاں موبائیل سروس کو نہیں آنے دیا گیا اور ان کے مطابق یہی وجہ ہے جسکی وجہ لوگ اپنی سادہ طرزہ زندگی گزار رہے ہین. یہاں ٹی وی اور کیبل بهی دستیاب نہیں مگر کچه لوگوں نے ڈش انٹینا ضرور لگایا ہوا ہے. گهر ایکدوسرے سے قدرے فاصلے پہ ہیں اور بعض پہاڑوں کی چوٹیوں پہ بنے ہوئے ہیں. یہاں شادی کی رسمیں بهی الگ سی ہیں. رخصتی سے ایک دن قبل نکاح پڑهایا جاتا ہے اور اگلے دن لڑکی کے گهر والے خود لڑکی کو صبح سویرےلڑکے کے گهر چهوڑ جاتے ہیں اور اسی دن سادگی سے دری پی بٹها کے مہمانوں کی تواضع کی جاتی ہے اور یوں ولیمہ ہوجاتا ہے اس دوران لڑکا اپنے عزیزوں طرف جاتا ہے جو اسے تحفتا نئے کپڑے پہناتے ہیں اور دیگر تحائف بھی دیتے ہیں. یوں ایک دن میں دلہا 20 جوڑے بهی پہن لیتا ہے. اوراپنی دلهن کے پاس اسوقت تک نہیں جاتا جب تک اسے گهر والے اجازت نہ دیں. سرن وادی اپنی تمام تر خوبصورتیوں کی وجہ سے پاکستا ن میں سیاحتی اعتبار سے جنت کا ٹکڑا نظر آتا ہے اور اگر حکومت اس پہ توجہ دے تو یہ علاقہ نہ صرف ترقی کرے گا بلکہ لوگوں کو روزگار بهی ملے گا اور سیاحت کو فروغ بهی ملے گا.
اپنے ٹرپ کے تیسرے اور آخری دن ہم نے اپنے تمام دوستوں کا شکریہ ادا کیا اور 2 بجے رخت سفر باندھا، دن کی روشنی میں وادی سرن اپنے تمام تر حسن ہ دلکشی کے ساتھ جلوہ فگن تھی، ایک طرف سبزے سے لدے پہاڑ اور دوسری جانب بل کھاتی، اٹھلاتی، شور مچاتی ندی جیسے کہ ہماری ہم سفر ہو۔ ہم نے اپنی گاڑی جبوڑی جاکے روکی جہاں کی اپنی دلکشی اور خوبصورتی تھی، یہاں ندی کا پاٹ بڑا اور رفتار قدرے کم ہونے کی وجہ سے سکوں کی کیفیات منفرد تھی۔

کچھ دیر یہاں رکنے کے بعد ہم شنکیاری پہنچے جہاں گرمی کا احساس ہوا، یہاں ہم نے اپنے مہمانوں کی فرمائش پر یہاں کے مشہور چپلی کباب تناول کیے،اور کچھ دیر سستانے کے بعد اپنا سفر دوبارہ شروع کیا۔ اور کچھوے کی چال چلتے رات اسلام آباد پہنچے۔ مگر ابھی تک وادی سرن کے طلسم سے باہر نہیں نکل رہے۔

Arshad Rafique
About the Author: Arshad Rafique Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.