میں سلمان ہوں ( قسط 6)

بیڈ پر لیٹتے ہی اس کو سارے جہان کا آرام اور سکون محسوس ہوا--- چھت کا پنکھا کچھوے کی رفتار سے رینگ رہا تھا یا یوں کہہ لے ہمارے ملک کی ترقی کے اور فین سپیڈ میں زیادہ فرق نہ تھا--- بس اتنا سا فرق تھا حکومت ابھی تک مچھروں کو ختم نہیں کر پائے ہیں--- اس فین کا جس کا صرف ایک ہی مقصد تھا--- یعنی گرمی بگانا نہیں بلکہ اس کولڈWeather میں مچھروں کو ١۔۔۔۔٢۔۔۔۔۔٣ کرنا تھا---- جب کہ ہماری حکومت عوام کا خون چوس کے ١--٢--٣ ہوجاتے ہیں --- مچھر زیادہ موجود تھے بیڈ زیادہ آرام دے نہیں تھا-- مگر پھر بھی بیڈ ہی تھا--- بیڈ کم سے کم اسے سب سے کچھ دیر کے لیے ہی سہی یہ روم اور بیڈ پناہ دے دیتا تھا---وہ سوچنے لگا کہ کاش اس نی کم سے کم Rent Time پر دیا ہوتا تو اسے صبح اس عورت کی بم باری کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا جو اسے دیکھتے ہی کسی پرانے ریڈیو کی طرح بجنا شروع ہوجاتی تھی جس کا آف ہونے والا Switch ہی نہ ہو یا تو Cell ختم ہوجائے یا تو لائٹ چلی جائے تو ہی اس کا واویلہ ختم ہوتا ہے---اس کی نگاہ فین کےBlades پر جمی ہوئی تھی---سلمان نے بہت ہی اختیاط سے کمرے کا لوک کھولا تھا-- پھر لائٹ آن کیئے بغیر کپڑے تبدیل کیئے بس آج وہ پاس ہو گیا تھا کسی زی روح کو پتا نہیں چلا کہ سلمان ایک اور دن کی ناکامی سمیٹ کے واپس آگیا تھا---وہ ایسا سپہ سالار تھا جس کی فوج ساری جنگے ہار گئی تھی مگر زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا تھا---بس اس بات پر سپہ سالار کو اطمینان تھا-- کہ وہ بچی کچی فوک کے ساتھ پر کبھی بدلا لے گا ورنہ کسی کونے میں چھپ کر زمانے کو دیکھتا رہے گا اور زمانہ اسے نا ہی دیکھ پائے گا---اب تو سائے سے بھی ڈر جاتا ہوں-- انسان ہو کے بھی اب انسانوں سے ہی ڈر جاتا ہوں--- صبح اس کے ساتھ کیا ہوگا وہ اپنے آپ کو تسلی دے رہا تھا--وہ ہی ہوگا جو ہوتا رہا ہے---ایک تو اس محلے میں سب کے سب فارغ تھے جیسے ہی کوئی زرا سی آواز پیدا ہوں رکشہ آئے--- سبزی والا آئے--- لوگ ایسے کونوں کھدروں سے نکل آتے تھیں --جیسے بارش میں پروانے آجاتے ہیں -- ہر ظلم سہتا ہوں اف تک نہیں کرتا--- یہ میرا نصیب ہے--- روز خود سے یہی کہتا ہوں -- سلمان کی آنکھیں بند ہوگئیں رات کو بھی سکون ہوا اس نے ایک اور انسان کو عرضی آرام دے دیا تھا--رات کی آغوش بہت نرم تھی سلمان کا جسم اور روح دونوں نامکمل تھے---اس کے نصیب میں ان کی تکمیل تھی یا نہیں تھی اس وقت عرضی موت نے اسے وقتی طور پر مکمل کر دیا تھا----

زندگی جس قدر اس کو دھتکارتی تھی وہ اتنا ہی جینا چاہتا تھا--- وہ لڑنا جانتا تھا مگر زندگی سے آپ رحم کی بھیگ تو مانگ سکتے ہے مگر اسے آنکھیں نہیں دیکھا سکتے کیونکہ زندگی ایک اسے پہلوان کی طرح تھی--جو برسوں سے اس کو چت کیئے جا رہے تھی--- اس قدر حیران ہوں میں کہ جیت کی معنی ہی بھول گیا وہ اسے انسان کی طرح ہو رہا تھا جس کی زندگی کافی عرصے سے کسی ہوسپٹل کے امرجنسی وارڈ میں ایسے ایسا مریض بنا رہا تھا---جو Oxygen پر ہوں مگر بھی کسی اچھے وقت کی طرح وہ بھی جینا چاہتا ہوں--- جاری ہے
 
hukhan
About the Author: hukhan Read More Articles by hukhan: 28 Articles with 38245 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.