نادان لڑکیاں

وہ لان چیئر پر افسردہ انداز میں نیم وا آنکھوں سے سامنے درختوں کی شاخوں پر بیٹھی چڑیوں کو دیکھ رہی تھی جو ہر چیز سے بے نیاز ایک دوسرے سے اٹکھیلیاں کرنے میں مگن تھیں سارے لان میں رنگ رنگ کے پرندوں نے طوفان بدتمیزی پھیلا رکھا تھا- پریشے کو اس وقت یہ شور بہت ناگوار لگ رہاتھا - اس نے ایک پتھر اٹھایا اور سامنے درخت پر بیٹھے چڑیوں کا نشانہ لیا جس کے نتیجے میں سارا غول وہاں سے اجتجاجاً واک آؤٹ کر گیا- اب وہاں خاموشی کا راج تھا اور یہ خاموشی پریشے کو بہت اچھی لگ رہی تھی- یہ محبت بھی نہ انسان کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں حلانکہ پہلے تو وہ لان میں آتی ہی ان چڑیوں کے لیے تھی- اور پتا نہیں کیا ہوا تھا اب اسے دن با دن چڑ چڑی ہوتی جا رہی تھی- پریشے خان بہت ہی خوبصورت اور خوب سیرت لڑکی تھی اور خوب قسمت والی بھی- دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی اور بھائیوں کو پیاری بھی بہت تھی- امی بابا کی جان تھی وہ- اور اس کی جان بھی امی بابا ، اور دونوں بھائیوں میں ہی تھا - گھر میں صرف وہ امی اور بابا ہی تھیں بڑا بھائی شہرام انگلینڈ میں بزنس کرتا تھا اور سال میں دو بار پاکستان آتا تھا- جبکہ چھوٹا بھائی شہیر سٹڈی کے لیے کوریا گیا تھا اسے کوریا کے یونی کی طرف سے اسکالر شب ملا تھا شہیر چھٹیوں میں پاکستان آتا تھا خود پریشے تھرڈ ائیر میں تھی وہ بہت پیاری اور بڑی معصوم سی لڑکی تھی صبح سویرے اٹھ کر نماز پڑھتی تلاوت کرتی اور پھر کالج کے لیے تیار ہونے کے بعد امی اور بابا کے ساتھ ناشتہ کرتی ناشتہ امی بناتی تھی باقی صفائی وغیرہ کے کاموں کے لیے کام والی آتی تھی جبکہ امی اور بابا کے سارے کام وہ خود کرتی تھی امی لاکھ منع کرتی مگر وہ کرتی اسے اچھا لگتا تھا امی ، بابا کے کام کرنا- کالج سے آنے کے بعد وہ زیادہ وقت بابا کی لائبریری میں گزارتی تھی یا پھر لان میں رنگ رنگ کے پھولوں کو دیکھتی ، چڑیوں کو سنتی کبھی کبھی بابا بھی آجاتا لان میں اور دونوں لان میں بیٹھ کر اپنے پسندیدہ کتابوں پر تبصرے کرتے یہ سارے اس کے پسندیدہ مشغلے تھیں- رات کو دونوں بھائی باری باری آن لائن ہوجاتے تھیں شہرام تو بہت بزی ہوتا تھا وہ کبھی کبھی آن لائں ہوتا تھا جبکہ شہیر روز رات کو آن لائن ہوتا- پریشے کو اپنے یونی کے بارے میں بتاتا ، کیا کھایا ، کیا پیا، کب سویا، کب جاگا، وہ اسے دیر تک بتاتا ساتھ میں پری سے بھی ڈھیروں سوال کرتا وہ بہت زیادہ باتونی تھا پریشے بھی شہیر سے ہر بات شیئر کرتی تھی- وہ بچوں کی طرح لیپ ٹاپ کے سامنے اپنی ایک ایک چیز لا لا کر اسے دیکھاتی- ماہا آپی کی شادی کے لیے یہ وائٹ میکسی فراک لیا ہے ساتھ میں وائٹ ٹاپس ، وائٹ سینڈل ، حنا کے برتھ ڈے کے لیے یہ کارڈ خود ہاتھ سے بنایا ہے- اور یہ ڈیجیٹل فریم جس میں اس کے امی ، بابا اور دونوں بھائیوں کے تصویرے آتے جاتے تھے یہ شہرام بھائی نے گفٹ کیا ہے- شہیر اس سے چار سال بڑا تھا جبکہ وہ اس سے بات اسی کرتی تھی جیسے وہ اس کا ہم عمر ہوں دوسرے لڑکیوں کی طرح اس کی زیادہ سہیلیاں نہیں تھی کالج کے ہی دو تین لڑکیوں کے ساتھ اس کی ہائے ہیلو تھی بس کزنوں کے گھر دور تھے سو وہ ہر بات بھائیوں سے ہی شیئر کرتی تھی اس کی زندگی ٹھیک ٹھاک اور خوشگوار گزر رہی تھی اور پھر اس کے ٹیھک ٹھاک زندگی میں حماد نامی بلا کا اضافہ ہوا------ وہ لاؤنج میں بیٹھی اپنی کورس کے کتابیں کھولے پڑھ رہی تھی موبائیل اس کے پاس ہی رکھا تھا- بجا تو اس نے اٹھا لیا اور کان سے لگایا- احمد ہے اس سے میری بات کروائے- وہ تو نہیں ہے- وہ اجنبی مردانہ آواز سن کر از حد گھبر گئی تھی- کیوں نہیں ہے اس کو تو ہونا چائیے تھا کیونکہ یہ اس کا نمبر ہے دبی دبی ہنسی سے کہا گیا- نہیں یہ تو احمد کا نمبر نہیں ہے یہ میرا نمبر ہے- وہ اور بھی گھبرا گئی اپنے بابا اور بھائیوں کے علاوہ اس نے کبھی بھی کسی غیر مرد سے بات نہیں کی تھی۔

چلو کوئی بات نہیں اگر احمد نہیں ہے تو تم تو ہو نا تم سے ہی بات کر لوں گا -

نہیں نہیں میں بھی نہیں ہوں زیادہ گھبراہٹ کی وجہ سے وہ الٹا سیدھا بولنے لگی تھی -

ہاہاہاہا--- فون کی دوسری طرف سے ایک طویل قہقہہ لگایا گیا فون کرنے والا جی بھر کر محظوظ ہوا تھا
یار کتنی معصوم ہو تم نام کیا ہے تمہارا پیاری لڑکی -

میں آپ کی یار نہیں اوکے اور کیوں بتاؤ اپنا نام دفع ہو جاؤ-- اس اس پر غصہ بھی آیا اور عقل بھی کہ کوئی اسے تنگ کر رہا ہے اس نے غصے سے فون بند کیا - پھر بجا اور بجتا ہی رہا اس نے نہیں اٹھایا - پھر مسیج آنے لگے ہر مسیج میں ایک نیا پیغام---

پیاری لڑکی نام کیا ہے تمہارا -- کیا کھاتی ہو تم جو ایسا سریلا آواز ہے تمہاری آواز نے مجھ پر ایسا جادو کیا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ تمہارے قدموں میں بچھ جاؤں ---

مسیج پر مسیج اس کا ان باکس بھر گیا--- اگلے کئی دن ایسے ہی مسیجز اور کالز آتے رہے اس کا سارا دھیان بٹ گیا تھا فون اٹھاتی نہیں تھی لیکن فون بجتے ہی فون کی طرف ضرور دیکھتی تھی اگر نہیں بھی بجتا تب بھی دیکھتی تھی کی اب بج کیوں نہیں رہا- مسیج آتے تو پڑھتی نہ آتے تو پہلے والے پڑھتی اور بار بار پڑھتی - چند دنوں میں ہی ہوگیا تھا لیکن ہو گیا اور ٹھیک نہیں ہوا تھا --اب وہ ہر روز اس کے مسیجز پڑھتی اور اس کو سوچے جاتی سوچے جاتی - فون کرنے والا بھی کافی مستقل مزاج تھا روز مسیجز اور کالز کرتا اس کا ان باکس نئے سرے سے بھرنے لگتا----

مائی سویٹ ہارٹ تمہیں کیا کہہ کر بلاؤں--- کوئی تو نام ہوگا تمہارا --- چلو نام کا اچار ڈالنا ہے بھلا خود ہی سوال خود ہی جواب---- تمہاری خوبصورت آواز سن کر میں تم سے محبت کرنے لگا ہو آج سے تم ہی میرا سب کچھ ہوں میری زندگی، میری موت ، میرا ہنسنا ، میرا رونا، میرا جاگنا، میرا سونا، ------ سنو سویٹ ہارٹ تم خود پہ اتراؤ کہ تمہیں حماد قریشی نے چاہا ہے بہت سی لڑکیاں مجھ پر فدا ہے مگر میں تمہاری خوبصورت آواز اور انداز پر فدا ہوا ہوں -

سچی بات تھی اب یہ مسیجز پڑھنا پریشے کو اچھا لگتا تھا اس کی چھوٹی سی دنیا تھی اور اس چھوٹی سی دنیا میں ایسے خوبصورت آواز والے اور ایسی خوبصورت باتیں کرنے والے شامل نہیں تھیں اب جب بھی وہ اکیلے ہوتی چھت پر-- کمرے میں --- کپڑے استری کرتے--- کالج جاتے ہوئے--- نماز پڑھتے --- تلاوت کرتے ہوئے-- ہر پل ہر لمہہ وہ اسی کے بارے میں سوچنے لگی تھی دن رات اس کا دھیان اس فون والے کی طرف ہوگیا تھا- کبھی کبھی وہ بہت ہی فنی مسیج کرتا پری دل کھول کر ان مسیجز پر ہنستی تھی- جس دن اس کے مسیجز نہ آتے تو وہ بہت چڑ چڑی ہوجاتی تھی کئی ہفتے ایسے ہی چلتا رہا - ایک دن اس کی کال آئی تو پریشے نے جانے کیا سوچ کر اٹھا لیا- لیکن چپ رہی۔

اف شکر ہے کہ تم نے کال اٹینڈ کیا اب اگر کال اٹینڈ نہ کرتے تو میں تو مر ہی جاتا - رئیلی -
اس نے فون بند نہ کیا سنتی رہی
بولتی کیوں نہیں ہوں ڈر رہی ہو نا کہ کون لفنگا اور بد معاش ہے تو سنو پیاری لڑکی میرا نام حماد ہے اور میں جانوروں کا ڈاکٹر ہوں اور انتہائی شریف انسان ہوں مجھ پر اعتبار کرو پیاری لڑکی میں کوئی ایسا ویسا بندہ نہیں ہو اس دن دوست کو کال کر رہا تھا اور غلطی سے تمہارا نمبر لگ گیا اور میں تمہارے خوبصورت آواز اور انداز پر فدا ہو گیا اور ہاں پیاری لڑکی تمہارا نام؟
اس نے اتنے پیارے انداز میں پوچھا کہ پری کو بتانا ہی پڑا-
پریشے بتا ہی پڑتا ہے مرد اور عورت کی ازلی کشش کو اس کشش سے کہا جا چپھے-
ماشاء اللہ بہت ہی پیارا نام ہے کس نے رکھا ہے اور مطلب کیا ہے اس کا
نام بتاتے ہی بات چل نکلی
بابا نے رکھا ہے اور اس کا مطلب ہے پری چہرہ لڑکی-
مطلب بھی بہت پیارا ہے یقینا تم خود بھی اپنے نام کی طرح پیاری ہی ہوگی ہے نا؟
سوال پر سوال ڈر کے مارے پری کی ہتھیلیاں بھیگ گئی تھی اور دل پھڑ پھڑانے لگا تھا-
پتا نہیں میں کیسی ہوں-
اس نے ذرا سی بے چارگی سے کہا-
ہاہاہاہا فون کرنے والا دل کھول کر ہنسا
سو سویٹ---- وہ بات اس انداز میں کرتا کہ پیارا ہی لگتا اس دن کے بعد پری کو ایک سہیلی مل گئی وہ کب روئی کب ہنسی، کب سوئی، کب جاگی، وہ اسے بتانے لگی - محبت نے عجیب ستم ڈھایا اس پر -وہ اپنی امی، بابا، اور بھائیوں کی باتوں اور سوچوں سے دور نکل گئی تھی اور سب سے انجان ہوگئی ان کے کام کرتی تھی اب بھی ان سے بات کرنے کا وقت نہ رہا اس کے پاس - کم گو پہلے ہی تھی اب تو بلکل بھی گم صم ہوگئی تھی- ویسے پہلے اتنے کم گو بھی نہیں تھی اور باتیں ہی سب کچھ نہیں ہوتے - خون کا تعلق رکھنے والوں کے بڑے خونی حقوق ہوتے ہےمگر اب وہ ان باتوں سے بہت دور نکل گئی تھی- حماد اس کی زندگی کا جز بن گیا تھا سانس کی طرح جو آتے جاتے دیکھائی نہیں دیتی لیکن ہوتی ہے اور بہت ہی ضروری ہوتی ہے اس کا سب کچھ اب حماد تھا اس سے بات کرنا ، اس کو سوچنا اور سوچتے ہی رہنا -

حماد اکثر کہتا پری جب میں نے پہلی دفعہ تمہاری آواز سنی تو مجھے لگا تھا جیسے میں تمہیں بہت پہلے سے جانتا ہوں ہزاروں برس پہلے سے- تم میری زات کا وہ گمشدہ حصہ ہو جو صدیوں پہلے ٹوٹ کر الگ ہوگیا تھا- کیا تمہیں بھی ایسا لگتا ہے پری؟
پری بولتی ہاں مجھے بھی اسے واقعی ایسا ہی لگتا تھا-

حماد نے اسے بتایا کہ وہ جانوروں کا ڈاکٹر اس لیے بنا ہے کیونکہ اسے بے زبان جانوروں سے بے حد پیار ہے ورنہ اس کے بابا کی خواہش تھی کہ وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر بنے--- اس کے علاوہ اور بھی ایسی باتیں تھیں جس سے پریشے کے دل میں اس کی قدر قیمت اور بھی بڑھ گئی تھی- حماد نے جب کہا کہ وہ کسی غریب انسان کو نہیں دیکھ سکتا اسے ترس آتا ہے اس پہ - پری کو وہ بے حد اچھا لگا تھا جب کہا کسی بیمار کو بیمار ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا پری کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا -مظلوم کو بھی نہیں دیکھ سکتا- پری کو اس پر فخر ہوا اور اس نے کہا کہ وہ غریب لوگوں کے ہر طرح سے مدد کرتے ہیں اور ان کے جانوروں کا ٹریٹمنٹ فری میں کرتے ہیں تو پری کو خود پر رشک آیا اور ے تحاشہ رشک آیا کہ اتنا اچھا انسان اسے چاہتا ہے ایک بات اس میں یہ تھی کہ وہ سچ بڑے دھڑلے سے بولتا تھا ایک دن اس نے پریشے کو بتایا کہ وہ اتنا اسمارٹ ہے کہ ہر لڑکی چاہتی ہے کہ وہ اس کی دوست بنے مگر اسے یہ سب پسند نہیں ہاں اگر لڑکی کیوٹ ہو تو پھر چند دنوں کے لیے ٹائم پاس کر ہی لیتا ہو اور ایک بات یہ کہ خوبصورت لڑکیوں کو دیکھ کر آنکھ بھی مارتا ہوں جب اس نے یہ کہا تو پریشے خاموش ہوگئی
لڑکیوں کو دوست بناتا ہوں ٹائم پاس کے لیے یہ بات پریشے کو بری لگی تھی اسے بے عزتی کا احساس ہوا بے حد اس احساس میں بھی وہ اسے برا نہیں لگا تھا صرف اس کی بات بری لگی تھی
کیا ہوا اس نے پوچھا
وہ خاموش ہی رہی-
ناراض ہوگئی ہو کیا وہ مسکرا کر بولا تھا
پریشے اب بھی کچھ نہ بولی-
سنو پری یہ سچ ہے کہ بہت سی لڑکیاں مجھ سے دوستی کرنا چاہتی ہیں بہت سو سے میں بات بھی کر لیتا ہو اور بہت سو کو آنکھ بھی مارتا ہوں لیکن میری کوئین آف ہارٹ صرف تم ہو صرف تم سمجھی اور قدر کرو میری میں کتنا سچ بولتا ہو چاہتا تو تمہیں ان لڑکیوں کا نہ بتاتا تو کیا تم معلوم لر لتیں یہ؟
اس نے اتنی بڑی دلیل دی کہ پری کو اپنے سوچ پر بھی شرمندگی ہوئی تھی
پری نے اس سے کہا ان سب لڑکیوں سے بات کرنا چھوڑ دو اور آنکھ مارنا بھی
اس نے قہقہہ لگایا اور کہا-
ٹھیک ہے نہیں کرتا بات لیکن آنکھ تو ماروں گا اور ضرور مارو گا اس نے شرارت سے کہا-
حماد میں سیریس ہوں اوکے وہ روہانسی ہوگئی-
میں بھی ڈیڈ سیریس ہوں میری پیاری سی پری- وہ مصنوعی سنجیدگی سے بولا-
حماد آپ بہت برے ہو بہت بہت، اس کے حلق میں آنسوں کا گولہ پھنسنے لگا-
ہاہاہاہا وہ تو میں ہو تمہیں واقعی آج پتا چلا ہے؟
وہ دل کھول کے ہنسا تھا-
پریشے نے غصے سے فون بند کر دیا
ناراض ہوئی ہو کیا؟ اب پلیز رونا نہیں میں مزاق کر رہا تھا ایسا کچھ بھی نہیں ہے پریشے جو رونے ہی لگی تھی مسیج آتے ہی مسکرا دی تھی---
ایک دن حماد کا فون آیا ساتھ میں ایک نئی فرمائش ، میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں اپنی پکچر سینڈ کرو اور میں بھی اپنے پکس سینڈ کرتا ہوں تم بھی تو دیکھوں نا اپنا شہزادے کو کہ کتنا گڈلکنگ ہے
کتنی عجیب بات تھی دونوں کو بات کرتے ہوئے ایک مہینہ ہوا تھا اور دیکھنے کا خیال اب آیا تھا-
پری ہنسی اوکے پہلے آپ سینڈ کرو پھر میں
وہ فورا مان گئی تھی جانے یہ کیسے محبت تھی کہ وہ گناہ اور ثواب کو ہی بھول گئی تھی-
حماد نے اپنے دو تین پکچر اسی وقت سینڈ کر دی پری نے جب اسے دیکھا تو حیران رہ گئی کیونکہ ہر وقت اپنی تعریف کرنے والا خود کو مسٹر پاکستان سمجھنے والا صرف مسٹر بھی نہیں تھا-
لیکن خیر پریشے کو اس سے بات سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا کہ وہ کیسا دکھتا ہے وہ انسان کی ظاہری خوبصورتی سے متاثر ہونے والوں میں سے نہ تھی حماد کا دل خوبصورت تھا پری کے لیے یہی بہت تھا-
پریشے نے جب اپنے پکچرز سینڈ کی تو حماد بولنا ہی بھول گیا-
تم کتنی خوبصورت ہو پری-
مجھے نہیں معلوم کہ میں کیسی ہو اس نے سچ کہا-
تمہیں معلوم کرنا بھی نہیں چائیے ورنہ غضب ہوگا- حماد کا انداز کھو گیا تھا-
کیوں ، کیا مطلب؟ وہ از حد حیران ہوئی-
کچھ نہیں بس---- جانے دو---
اور معصوم سی لڑکی نے جانے ہی دیا-----
اس دن حماد نے اس سے کرید کرید کر بہت سے ایسے سوال کیئے جو پہلے کبھی نہیں کی تھیں- اور بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ - اس کے فیملی کے بارے میں امی ،بابا کے بارے میں بھائیوں کے بارے میں اس نے اپنے بارے میں بھی پری کو بہت کچھ بتایا اس کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں - سارے بہن بھائی میرڈ تھیں وہ سب سے چھوٹا تھا اور بہت لاڈلا اس نے پری سے وعدہ کیا کہ ایم۔ فیل کے بعد اس سے شادی کرے گا اس نے ایم -فیل کے لیے چائنا اپلائی کیا تھا آن لائن کچھ ٹیسٹ بھی دیئے تھیں اس کو امید تھ کہ ہاف اسکالر شب مل ہی جائے گا بہت برائٹ چانس تھا جیسے وہ مس نہیں کرنا چاہتا تھا- سو فیل حال اس نے شادی وادی کو رہنے ہی دیا- پری کو بھی کوئی جلدی نہ تھی ابھی وہ تھرڈ ائیر میں تھی اور اس کو آگے بھی پڑھنا تھا بابا اور شہیر کی بھی خواہش تھی کہ وہ اعلی تعلیم حاصل کرے اور ہوں اسی طرح دونوں کو باتیں کرتے کرتے پانچ ماہ ہوگئے تھیں -
××××××××××××××××××

ایک دن حماد کا فون آیا وہ بہت خوش تھا اس کی بھتیجی پیدا ہوئی تھی- اس کا نام اس نے حریرہ رکھا -اس نے پری حریرہ کی بہت سی پکچرز بھی سینڈ کی اب اکثر اس کے باتوں میں حریرہ کا زکر ہونے لگا تھا اور حد سے زیادہ ہونے لگا تھا- حریرہ آج روئی آج ہنسی ، بہت ہوشیار ہے حریرہ مجھے دیکھ کر ہنسنے لگتی ہے کبھی اس کی وڈیوں بنا کر پری کو سینڈ کرتا- حرت کی بات تھی اس کے اور بھی بھتیجے اور بھتیجیاں بھی تھیں کبھی اس کا زکر تو اس نے ایسے نہیں کیا تھا -آخر حریرہ کے لیے اتنا پیار کیوں- پری کے ذہن میں کبھی یہ سوال آیا ہی نہیں - اس بھولی سی لڑکی سے ذیادہ تو کوئی بھالو عقل مند ہوگا - اس کو تو بس حماد کی ہر ہر بات پسند تھی - ہر ہر بات پسند آتی تھی-
ایک دن پورا دن حماد کا فون نہیں آیا اور نہ ہی کوئی مسیج پری نے اس کا مسیج کیا اور کال بھی لیکن اس کا فون بند جا ریا تھا یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی مگر پریشے پریشان ہوگئی تھی وہ اگر بزی ہونے کی وجہ سے کال نہیں کرتا تھا تو مسیج تو ضرور کرتا تھا- ایسا تو کبھی ہوا ہی نہیں تھا - کہ پریشے اس کو کال یا مسیج کرے اور وہ رپلائی نہ کرے - سارا دن وہ چھپ چھپ کر کالج میں روتی رہی تھی ایک دن ہی اسے ایسا لگا تھا کہ وہ اسے چھوڑ گیا ہے- پتا نہیں کیوں یہ خوف اس کے اندر مسلسل قائم تھا حماد پر مکمل یقین کے باوجود یہ خوف گاہے بگاہے اس میں در آتا ہے ایک دن اسی خوف کے زیر اثر اس نے حماد سے کہا تھا -
مجھے کبھی بھی نہ چھوڑنا ورنہ میں مر جاؤں گی------
اس بات سے حماد بہت خفا ہوا تھا
کیا میں تمہیں بے وفا لگتا ہوں؟ میرا سچا پیار تمہیں فلرٹ لگتا ہے؟ ٹیل می--------
میں تمہیں ضرور چھوڑتا اگر میں بے وفا ہوتا-
پری چپ رہی
میں نہیں جانتا پری تم نی ایسا کیوں سوچا بس مجھے اتنا معلوم ہے کہ مجھے تم سے محبت ہے اور رہے گا آج بھی زندگی ہو کل بھی رہوگی دوبارہ اگر ایسی فضول بات کی تو میں سچ میں تمہیں چھوڑ دونگا-
اور پھر دوبارہ اس نے ایسی فضول بات کی ہی نہیں شادی کا وعدہ بھی حماد نے خود ہی کیا تھا اور وہ جانتی تھی کہ اگر وہ اتنا رحم دل اور سچا تھا تو وعدے کا بھی پکا ہوگا- وہ اسے کبھی بھی چھوڑ کر نہیں جائے گا -اس پر اتنا یقین ہونے کے باوجود جانے کیوں اچانک بیٹھے بیٹھائے اس کو عجیب سے خوف گھیر لیتے تھیں - اگر وہ مجھے نہ ملا تو ، اگر وہ میرے نصیب میں نہ ہوا تو؟، اگر اس نے مجھے چھوڑ دیا تو؟ اگر کوئی اور پروبلم ہوئی تو---- اتنے سارے تو کا جواب اس کے پاس نہیں تھا - اور آج جب اس نے رابطہ نہیں کیا تو پری کو اپنے خوف پر یقین ہونے لگا - رو رو کر اس نے اپنا برا حال کر دیا - بار بار فون کرتی مگر نمبر بند آرہا تھا سارا دن روتی رہی روتی رہی - ہچکیاں دباتی رہی خاصی دیر رونے سے اس کی آنکھوں میں سوجن آگئی تھی - امی نے دیکھا تو پریشان ہوئی
پری بیٹا یہ تمہاری آنکھیں کیسی ہو رہی ہیں تم ٹھیک تو ہونا؟
اس نے نفی میں سر ہلا کر کہا
میں ٹھیک ہو امی آپ فکر نہ کرو شاید آنکھوں میں کچھ پڑ گیا تھا اس لیے ریڈ ہے میں ابھی کوئی آئنٹ منٹ لگا لوں گی ٹھیک ہو جائے گا -
امی نے اس کی طرف ایسے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو پری کیا یہ سچ ہے ؟ شام کو شہیر آن لائن ہوا پری کو دیکھتے ہی بولا
پری آر یو اوکے؟
ہر کوئی ایک ہی سوال وہ اوکے نہیں تھی یہ کیسے بتاتے اپنے جان سے پیاروں کو- اس کا دل دل چاہا کہ کہے بھاگ کر ایسی جگہ جائے جہاں کوئی نہ ہوں اور وہ خوب چیخ چیخ کر روئے - اس کو ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کی سانس بند ہو رہی ہے اور وہ مر رہی ہے بس اور وقعی مر ہی جاتی اگر رات بارہ بجے حماد کا فون نہ آتا-
کہاں تھے آپ؟ اس نے پیلا سوال یہی کیا تھا-
سوری سویٹ ہارٹ آج بہت بزی تھا اور موبائیل میں چارج بھی نہیں تھا -ابھی ابھی فری ہوا ہوں
آپ مجھے چھوڑ رہے ہو نا- روتے ہوئے پوچھا گیا-
تم پاگل ہوگئی ہو کیا- وہ چلایا - حماد کو پہلی بار اس پر شدید غصہ آیا-
پاگل ہو جاؤگی اگر آپ نے چھوڑا پلیز مجھے کبھی بھی نہ چھوڑنا ورنہ میں مر جاؤگی-
وہ تیز تیز رونے لگی تھی
کہا نا بزی تھا سارا دن میں تمہیں ایک پل کو بھی نہیں بھولا ہوں - موبائیل میں بلکل بھی چارج نہیں تھا ورنہ میں ایک مسیج ضرور ہی کر لیتا اور پلیز اب رونا دھونا بند کرو -مجھے تمھارے رونے سے بہت تکلیف ہوتا ہے حماد کی جان-
حماد اس سے دور تھا بہت دور مگر اس لمحے اسے خود سے بہت قریب محسوس ہوا تھا اس نے ہاتھ کی پشت سے بھیگا چہرہ صاف کیا - سارا مرنا مارنا اڑنچھو ہوگیا ڈر خوف دائیں بائیں نکل گیا- صرف حماد کے جان حماد کہنے سے
حماد نے اس سے کہا وہ ان دنوں بہت بزی ہے ویزے کے سلسلے میں اور اس کے ممی ، بابا عمرے کو جانے والے تھیں اس کی تیاری بھی وہ کر رہے تھے سو اب پہلے کی طرح چوبیس گھنٹے رابطہ نہیں کر سکو گا اور مسیج یا کال نہ کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں تم سے بے وفائی کر رہا ہوں میں تم سے بات کروں یا نہ کرو تم ہر پل میرے ساتھ ہوتے ہوں اوکے اور اگر دوبارہ ایسا سوچا بھی تو میں اڑ کر آؤں گا اور تمہیں اٹھا کر لاؤں گا اسی وقت اوکے جان-
حماد کی باتوں سے پریشے مطمئن ہوگئی-- لیکن یہ اطمینان ذیادہ وقت کے لیے نہ تھا پری کوئی دودھ پیتی بچی نہ تھ اس کو صاف لگ رہا تھا کی حماد اس سے بھاگ رہا ہے - بہانوں پر بہانے اور بہانے بھی ایسے جس پر کوئی بچہ بھی یقین نہ کرے - حماد کے بدل جانے سے پری مر رہی تھی راتوں کو جاگ جاگ کر وہ اس کے رپلائی کا انتظار کرتی - موبائیل ہاتھ میں لیے لیے سو جاتی مگر کوئی رپلائی نہ آتا - تو کیا وہ رات کو بھی بزی ہوتا تھا کیا؟
پری بہت چڑ چڑی ہوئی تھی اس سب سے اس کے امتحان بھی تھے مگر اب اس کا دھیان ہی قائم نہیں رہا تھا امی بولتی پری پڑھ لو- پہلے انہیں کہنا نہیں پڑتا تھا - وہ کیسے پڑھتی کتاب کھولتے ہی حماد حماد لکھا نظر آتا تھا - امتحان ختم بھی ہوئے کیسے ہوئے وہ اس سے بے خبر تھی جب رزلٹ آیا تو وہ بری طوح فیل تھی ہمیشہ ٹاپ کرنے والی فیل ہو ئی اور وہ بھی بری طرح - یہ جو عورت ہوتی ہے نا وہ اس مرد کو اور اس مرد کی محبت کو اتنا سر پر سوار کیوں کرتی ہے کہ فیل ہی ہوجاتی ہے- ایک غیر مرد کی محبت کے لیے وہ فیل ہوئی صد ے افسوس -- امی ، بابا اور بھائیوں کو دلی صدمہ ہوا اس کے فیل ہونے کا ان کے سارے امیدیں خاک ہوگئیں - خود پری کو تو بلکل بھی چپ لگ گئی تھی -سب اس سے باتیں کرتے وہ ہوں ہاں بھی نہیں کرتی- بس کمرے میں ہر وقت بیٹھی رہتی- سب سوچتے فیل ہونے کا صدمہ لے لیا ہے کسی کو یہ نہیں پتا تھا کہ اس نے خود کو کیا روگ لگایا ہے۔
××××××××××××××××××
س کے فیل ہونے کے چند دن بعد حماد کا فون آیا- پری نے روتے ہوئے اس سے کہا-
خدا کے لیے حماد مجھ پر رحم کرو- مجھے سب سچ سچ بتاؤں یہ جو گیم آپ میرے ساتھ کھیل رہے ہوں نا اس کو اب ختم کرو ورنہ میں ختم ہوجاؤں گی -- اگر چھوڑنا ہی ہے تو عزت سے چھوڑوں یوں زلیل کر کے نہیں --
سارا سارا دن بھی روتی تھی اس کے سامنے بھی رو رہی تھی-
پلیز پری رونا نہیں میں تمہیں کوئی دھوکہ نہیں دے رہا کوئی گیم نہیں کھیل رہا میرا یقین کرو--- گیم تو میرے ساتھ قسمت نے کھیلا ہے اور بہت ہی عجیب گیم کھیلا ہے - پری تم بولتی ہو میں بدل گیا ہو ں -- ہاں میں واقعی بدل گیا ہوں اور اس لیے بدل گیا ہوں - تا کہ تم میرے بغیر رہنا سیکھ لوں ---
کیوں کیوں سیکھو آپ کے بغیر رہنا میں ایسی ہی ٹھیک ہوں - وہ تڑپ کر بولی -
سیکھنا ہی ہوگا پری کیونکہ مجھے بلڈ کینسر ہے اور وہ بھی لاسٹ اسٹیج پر - ڈاکٹر نے جواب دیا ہے - میرے پاس اب زیادہ وقت نہیں ہے میں تمہیں یہ بات بتا کر تمہیں دکھ نہیں دینا چاہتا تھا مگر تم نے مجھے بہت مجبور کیا یہ سب بتانے پر -
حماد بول رہا تھا کیا بول رہا تھا پریشے کو اب کچھ بھی سنائی نہیں دے رہی تھی فون اس کے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا - اس کے پاؤں لڑکھڑائے اس نے بے اختیار میز کا کونا مضبوطی سے تھام لیا- اندھیرے کا ایک گہرا سیلاب اس کی آنکھوں میں سے ہو کر گزر رہا تھا حقیقت یہ تھی کہ وہ ایک پل کے لیے تڑپ کر مر گئی تھی - اس کی سانسیں اکھڑنے لگیں تھیں --
پری --- پری --- تم ٹھیک تو ہونا-- پلیز پری خود کو سنبھالوں- میں اس لیے تمہیں یہ سب بتانا نہیں چاہتا تھا-
وہ تھکے تھکے لہجے میں بولا-اس نے جواب نہیں دیا اسی طرح بے آواز روتی رہی -
پری پلیز ایک مرتے ہوئے انسان کو اور ازیت نہ دو- وہ گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے بولا-
آپ کو کچھ نہیں ہوگا میں آپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گی آپ ٹھیک ہوجاؤں گے --- میں دعا کروں گی بہت دل لگا کر--- رو رو کر تم ٹھیک ہوجاؤں گے بہت جلد---
حماد کو پریشے کی ذہنی حالت پر شبہ ہوا تھا-
آپ علاج کے لیے لاہور شوکت خانم ہاسپٹل جاؤں میری دعائیں آپ کے ساتھ انشاءاللہ آپ وہاں سے بالکل ٹھیک ٹھاک آؤں گے - تب تک میں آپ کا ویٹ کروں گی--
پری خدا کے میرا ویٹ نہیں کروں اب جہاں تمہاری فیملی چاہے وہی شادی کرو - میں تمہاری خوشیاں برباد نہیں کر سکتا- میں کل بھی صرف تم سے محبت کرتا تھا آج بھی کرتا ہوں اور ہمیشہ کرتا رہوگا مگر اب نا تم سے اور نا کسی اور سے شادی کروں گا---
نہیں --نہیں میں آپ کے سوا کسی سے بھی شادی نہیں کروں گی آپ ٹھیک ہوجاؤں گے مجھے اپنے رب پر یقین ہے پلیز آپ فضول نہ بولوں -
اس کا رنگ زرد پڑ گیا تھا اور وہ نفی میں سر ہلانے لگی تھی-
پری مجھے تمہارا مستقبل بہت عزیز ہے میں کسی قیمت پر بھی تمہاری خوشیاں داؤ پر نہیں لگنے دوں گا - بستر مرگ پر پڑا ایک شخص تمہیں دے بھی کیا سکتا ہے
اس نے گہری تھکی ہوئی سانس لی-
پلیز چپ ہو جاؤ پریشے نے ہسٹریائی انداز میں چیخ کر کہا- آپ سمجھتے کیا ہو میری خوشیوں کو - میری محبت کو - جب تم ٹھیک تھے تو میرے لیے سب کچھ تھیں اور اب جب بیمار ہوئے تو میں آپ کو چھوڑ دوں - یہ تو محبت نہ ہوئی یہ تو بزنس ہوا جس میں نفع نقصان کو دیکھا جاتا ہے میری خوشی میرا مستقبل صرف آپ ہوں - صرف آپ--- اس نے سسکی لی-
حماد ہم لڑکیوں کا دل اندھا ہوتا ہے جو محبت میں نفع نقصان نہیں دیکھتا-
پری بچوں جیسی باتیں نہ کرو- میں اب کبھی بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا یہ بہت خطرناک بیماری ہے -
حماد جھنجھلا گیا ساتھ میں زرا سا لہجہ نرم کیا-
میں دعا کروگی دل سے انشاءاللہ آپ بہت جلد ٹھیک ہو جاؤں گے- پھر وہی بات وہی انداز-
دعا----- حماد کا انداز ایسا تھا جیسے کہہ رہا ہوں کیا بک رہی ہو- اوکے بائے-
اس کو شاید پری کے ضد پہ غصہ آیا تھا بائے کہہ کر فون بند کر دیا-
پری نے دوبارہ نمبر ملایا تو فون آف تھا وہ خوب روئی----
اس دن کے بعد پری کے نیندیں حرام ہوگئیں دن رات وظائف کرتی رہتی تہجد کے سجدوں میں گر گر کر روتی روتی - راتوں کو جاگ جاگ کر اس کے شفا کے لیے وظائف کرتی اسے ایسا لگتا جیسے وہ اس کی دعاؤں سے ہی زندہ ہے - وہ سوتی نہیں تھی کیونکہ اسے ایسا لگتا کہ اگر وہ سو گئی تو وہ مر جائے گا- ایسا کرتے ہوئے بیس دن گزر گئی رو رو کر ٹینشن کر کر کے وہ بیمار ہوگئی تھی امی روتے ہوئے بابا سے بولتی کہ کیسا بخار ہے جو جاتا ہی ہے اس کی گوری رنگت ٹین ہو چکی تھی اور وزن بیس اکیس پاؤنڈ گھٹ چکا تھا مگر اسے اپنی صحت کی پرواہ کب تھی اسے تو بس صرف حماد کی پرواہ تھی مر رہی تھی اس کے لیے - ان بیس دنوں ًًمیں اس نے بار بار اپنے سر پر آسمان گرتے دیکھا - خود کو جنگل میں گم ہوتے دیکھا اس پر دکھ کا ہر احساس ہو ہو کر گزرا - ہر احساس نے اسے پٹخ پٹخ کر مارا - ڈر کے مارے اس کا اپنا دم ہی نکل گیا- اس نے دل سے یہ خواہش کی کہ کاش حماد کی جگہ پر وہ ہوتی - ان دنوں وہ احساسات کے لمبے لمبے سفروں سے ہو کر آئی- دعائیں مانگتی رہی- گڑگڑاتی رہی - مگر اس نادان یہ نہیں معلوم تھا کہ جس کے لیے مر رہی ہے وہ ایک دھوکے باز انسان ہے اس سادہ دل لڑکی کیا پتا تھا انسان کو اتنا بھی سادہ دل نہیں ہونا چائیے کہ اس کی سادگی ہی اس کا سب سے بڑا امتحان بن جائے-
وہ بھی ایک اداس دن تھا ہمیشہ کی طرح - وہ عصر کی نماز پرھنے کے بعد حماد کے لیے وظیفہ پڑھ رہی تھی کہ اس کا فون بجنے لگا تھا کال کرنے والا حماد تھا - کافی دنوں بعد اس کا فون آیا تھا بیماری کے بعد اس کا پری سے رابطہ نہ ہونے برابر رہ گیا تھا -
اس نے جلدی سے فون اٹھایا اور کان سے لگایا-
پری میری حریرہ مر رہی ہے اس کے لیے دعا کرو-- فون پر وہ انچا لمبا مرد پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا
اف کیا ہوا ہے حریرہ کو---- وہ ڈر گئی وہ تو پہلے سے ہی ڈری ہوئی تھی
پری مجھے معاف کرو میں نے تمہیں دھوکہ دیا ہے اللہ کے لیے مجھے معاف کر دوں -
حًماد کیا بول رہا تھا کیسا دھوکہ اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا تھا-
پری میں نے تم سے جھوٹ بولا تھا میں بلکل ٹھیک ٹھاک ہو ں تم سے دھوکے کی مجھے اللہ نے بہت بڑی سزا دی میری بیٹی حریرہ موت کے منہ میں چلی گئی ہے وہ ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہے--
حریرہ آپ کی بیٹی---- لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر اس کے لبوں سے ادا ہوئے تھے
ہاں پری میں میرڈ تھا دو سال پہلے میری شادی میری کزن عالیہ سے پسند سے ہوئے تھی حریرہ میری بیٹی ہے پلیز مجھے معاف کرو تا کہ میری بیٹی ٹھیک ہو جائے----
فون اس کے ہاتھ سے گر گیا اور اس کی بیٹری الگ ہوگئی- اسے اس وقت معلوم ہوا کہ دنیا میں آگ کیسے لگتی ہے -- جسم سے جان کیسے نکلتی ہے-- قیامت کسے کہتے ہے -- منہ پر ہاتھ رکھ کر اس نے اپنے چیخوں کو روکنا چاہا-- یہ اس کے ساتھ کیا ہوا حماد تو دھوکے باز نکلا اس نے کیسے دھوکہ دیا وہ تو بولتا تھا پری تم میری جان ہو تو کیا کوئی اپنی جان کو بھی دھوکہ دیتا ہے کیا؟؟؟؟
محبت تو اس نے عالیہ سے کی تھی شادی بھی اسے سی کی پھر دھوکے کے لیے پری ہی کیوں ؟؟؟
پری بہت ہی ترس آیا اپنے ماں باپ پر بھائیوں پر جس کی اس جیسی بیٹی تھی جس اس سب کی عزت کو تار تار کی تھی خود اس کی کیا عزت رہ گئی تھی- اگر کسی کو پتا نہیں تھا اللہ پاک تو جانتا تھا سب--
حماد جس سے وہ محبت کرتی تھی اس نے اس کو زلیل کر کے چھوڑ دیا وہ کس کس بات کا ماتم کرتی اسے صرف ایک ہی چیز کا ماتم کرنا چائیے تھا اپنے کم عقل ہونے کا----
کسی نے سچ کہا ہے دنیا میں لڑکیوں سے زیادہ احمق کوئی اور نہیں ہوتا - خوش فہمی کا آغاز اور احتتام لڑکیوں پر ہوتا ہے کوئی مرد اس سے زرا پیار سے بات تو پھر اس کے حواس اپنے ٹھکانے پر نہیں رہتے -لڑکیوں میں وعقل اس وقت آتی ہے جب اس کو دھوکہ دیا جاتا ہے کوئی بھی مرد لڑکیوں کے قریب اس لیے جاتا کہ انہیں اس سے محبت ہوتی ہے وہ صرف ٹائم پاس کے آتے ہیں اور اس کے بعد لا پتہ ہوجاتے ہیں---
اس رات پری نے سوتے میں دل خراش چیخیں ماریں وہ دورے سی کیفیت میں آئی تھی- امی بابا سہم کر اٹھ گئے تھیں امی اس کے ہاتھ پاؤں سہلانے لگیں - بابا اس کو پانی پلانے لگا تھا- اس کے بوڑھے ماں باپ رہ رہے تھیں اس کے لیے -- یہ دورہ دھوکے اور وزت کے نام پر پڑا تھا اس کے اندر آگ لگی تھی - بڑٰی مشکل سے اس کی آنکھ لگی تو خ واب میں ڈھاڑیں مار مار کر روتی رہی امی اس کی حالت دیکھ کر رونے لگی تھی بابا اٹکی اٹکی سانسیں لینے لگا - اس نے اپنے ماں باپ کی حالت کو دیکھا تو لب سی لیے ورنہ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ خوب چیخ چیخ کر روئے-- اس دن کے بعد سے وہ اپنے وجود میں قید ہوگئی - اس کا جرم محبت تھا اور کے نام پر اسے بھیانک سزا ملی - کچھ غلطیاں نقصان کا باعث بنتی ہے کچھ لے ڈوبتی ہے اور کچھ کچل کر ملیامٹ کر دیتی ہیں حماد یہ تینوں غلطیاں تھیں اور یہ تینوں پری سے ہوئی تھی- پہلی غلطی اس نے یہ کی اس نے اسی وقت اس لوفر لفنگے کا نمبر بلاک کیوں نہیں کیا اس کو پتا بھی تھا کہ نمبر رانگ ہے کر دیتے نا بلاک مردوں کا کام ہی کیا ہے موقع ملتے ہی موقعے کا فائدہ اٹھانا - اس کی دوسری غلطی حماد سے دوستی اور تیسری غلطی اس کو اپنی تصویرے جو تصویرے سینڈ کی تھی وہ تھی اب یہ تصویرے ساری عمر حماد کے پاس ہوگے اور اس کا سارا گناہ پری کو ملے گا تصویروں ک سوچتے ہی اسے اللہ پاک کی آخری عدالت یاد آجاتی تھی تب وہ سوچتی اس دن اللہ کو کیا جواب دونگی؟ چند دنوں کے عشق کی خاطر اس نادان نے اپنی دنیا اور آخرت دونوں برباد کر دی-
اس نے کہا تھا اگر حماد نہ ملا تو وہ مر جائی گی مری تو نہیں مگر زندوں میں بھی نہ رہی تھی وہ ایک انسانی نما روبوٹ بن گئی تھی نہ اسے بھوک لگتی نہ پیاس- اور نہ نیند رات بمشکل دو گھنٹے سوتی ، نہ ہنستی نہ بولتی - سارا سارا دن کام کرتی جیسے خود کو کاموں میں چھپا رہی ہو دفنا رہی ہو امی اس کو دیکھ دیکھ کر روتی اور بولتی میری پری کو کسی بد نظر کی نظر لگ گئی ہے کبھی بولتی اس پر جن کا سایہ پڑ گیا ہے اس نے گھر میں کسی سے کچھ بھی نہیں کہا تھا اس نے اس بات کو اپنے اندر راز کی طرح نہیں بلکہ ایک گناہ کی طرح چھپایا تھا اس کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا اس کی وجہ سے وہ مردوں سے سخت نفرت کرنے لگی تھی جہاں اس کو لڑکے ہاتھ میں موبائیل پکڑے یا باتیں کرتے نظر آجاتے تو اس کا خون کھول جاتا اس کے اندر پھر سے آگ لگ جاتی تھی لڑکوں کے گروپ میں ہنسی کے فوارے پھوٹ رہے ہوتے تو اس کے پسینے نکلنے لگتے - اسے یقین ہوجاتا - کہ پھر سے کسی لڑکی کا مزاق اڑایا جا رہا ہوگا - پھر سے کسی معصوم کی عزت سے کھیلا جا رہا ہوگا- ہاں تب جو کچھ اس کے ساتھ ہوا تھا ایک فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے چلنے لگتی اور اس وقت اس کا دل چاہتا کہ وہ بس اب خود کو ختم ہی کر ے۔۔۔۔
 
umama khan
About the Author: umama khan Read More Articles by umama khan: 22 Articles with 52165 views My name is umama khan, I love to read and writing... View More