“انتظار “ (دوسری اور آخری قسط)

“جو اللہ نے ہمارے نصیب میں لکھ دیا ، وہ ہمارہ ہی رہے گا چاہے صبر سی انتظار کر کے حاصل کر لو یا جلد بازی میں غلط طریقے سے ،،،،ملنا وہی ہے ،جو آپکا ہوگا،،،،،

“ انتظار ایک تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ اور جو صبر سے انتظار کرتا ہے،اپنی منزل پا لیتا ہے“

گھر آ کر جب وہ سونے کے لیے لیٹی تو مسلسل اسی کے بارے میں سوچ کر ہلکان ہوتی رہی “پھوپھو نیلو اتنی اداس کیوں تھی “ تاروں بھرے آسمان کو دیکھتے ہوئے وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی،،،،،“چھڈ پتر او تے چلی اے ،،،،،سو جا تو اوس دی فکر نہ کر “ پھوپھو نے نیند میں کہا اور کروٹ بدل کر سو گیئ۔ وہ جانتی تھی پھوپھو کا یہی جواب ہوگا ،،،وہ صبح اس سے ملنے کا سوچتی جانے کب نیند کی وادیوں میں چلی گئی۔

صبح ناشتہ کر کے وہ نیلو کے سامنے موجود تھی ۔ پھوپھو اسے چھوڑ کر اپنی سہیلیوں کے پاس چلی گئی تھی۔ “یہ گھر کس کا ہے ؟ “ سلام دوا کے بعد مہک نے اس گھر کا پوچھا جہاں نیلو صبح آکر بیٹھ جاتی تھی اور مغرب کے بعد اپنے گھر چلی جاتی تھی ،،،“ یہ احمد کا گھر ہے ،،،وہ لوگ جب سے یہاں سے گئے مڑ کر نہیں آئے ،،،میں روز صبح ایک آس لی کر یہاں آتی ہوں کیا پتا وہ آجائے ،،،،اور شام کو مایوس ہو کر واپس لوٹ جاتی ہوں ،،،،اور ہر نئی صبح کے ساتھ میری امید بھی نئی ہو جاتی ہے ،،،اور میں یہاں آجاتی ہوں ،،،،اسنے مسکراتے ہوئے تفصیل سے بتایا۔

“یہ احمد کون ہے ؟ “ مہک نے پھر سوال کیا،،،، وہ مسکرائی اور بولی “احمد اور میں بچپن میں ایک ساتھ بڑے ہوئے ہماری دوستی کب محبت میں بدلی پتا ہی نہیں چلا ،،،،میرا سارا دن یہاں اس گھر میں گزرتا تھا ،،،،میں ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اس لئے انہوں نے کبھی روکا نہیں کسی بات سے ،،،خیر،،،،،پھر میں میٹرک پاس کر کے گھر بیٹھ گئی اور وہ گریجویٹ کرنے شہر جانے لگا ،،،مگر اسکے شہر جانے سے ھماری دوستی میں کوئی کمی نہیں آئی ،،،ہم ویسے ہی ملتے تھے۔ باتیں کرتے تھے اسنے جب گریجویٹ کیا وہ ہمارے گاؤں کا سب سے پڑھا لکھا لڑکا بن گیا،،،

اس خوشی میں اسکی ماں باپ نے گھر میں دعوت رکھی اس دعوت میں اسنے شہر سے اپنے دوستوں کو بھی بلایا،،،،،مٰیں بہت اچھے سے تیار ہوکر جب وہاں گئی تو وہاں شہری لڑکے لڑکیوں کا ہجوم تھا میں گھبرا کر جانے لگی اسکی نظر مجھ پر پڑی اسنے مجھے روک لیا اور سب دوستوں سے ملوایا ،،،،،میں بہت خوش تھی اسکا ایک دوست حمزہ اسکی نظر مجھ پر پڑی اور اسنے مجھ سے دوستی کرنا چاہی مٰیں گھبرا کر گھر بھاگ گئی بس یہاں سے میرٰی بد قسمتی شروع ہوئی“ مہک غور سے ساری بات سن رہی تھی اسے نیلو کی آنکھوں میں احمد کے ذکر پر روشنی سی دیکھائی دی ،،،وہ کچھ دیر رکی اور پھر بولنا شروع ہو گئی،،،،،

“اسکا دوست اسکے ساتھ ہر ویک اینڈ آنے لگ گیا تھا میں تب کم جاتی تھی کیوں کہ اسکی نظروں میں میری لیے بے باکی ہوتی تھی ،،،ایک دن جب میں انکے گھر گئی تب وہ صحن میں ہی تھا،،،،اسکی ماں اور وہ خود پتا نہیں کہا تھا۔ میں اندر جانے لگی اسنے میری کلائی پکڑ لی اسی لمحے احًمد کمرے سے باہر آیا ،،،،اسنے کلائی چھوڑ دی ،،،میں بھاگ کر اپنے گھر چلی گئی یہی میری غلطی تھی،،،،اسنے پیچھے سے احمد کو جانے کیا کہا وہ مجھ سے ملے بغیر چلا گیا اور اپنے ماں باپ کو بھی لے گیا ،،،،اسکا کچھ پتا نہیں کہا گیا میں نے بہت کوشش کی اس سے رابطہ کر لو ،،،،پر کچھ حاصل نہیں ہوا ،،،وہ رونے لگی ،،،،اسکو دیکھ کر مہک کا دل بھی بھر آیا “یہ کیا بات ہوئی بھلا اسکو آپ سے پوچھنا چاہیے تھا“،،،،،،نیلو لمبی سانس لے کر رہ گئی اسنے اپنے ڈوبٹے کے نیچے سے ایک تصویر نکال کر مہک کو دیکھائی ،،،،،تصویر دیکھ کر مہک نے حیرانی سے پہلے منہ کھولا،پھر منہ کے آگے ہاتھ رکھ لیا ،،،،،“یہ یہ تو پروفیسر احمد ہے“ مہک نے حیران ہوتے ہوئے کہا ،،،“ت ، تم جانتی ہو انہیں ؟ ہاں میں جانتی ہوں وہ یہ کہہ کر وہاں سے بھاگ گئی،،،،،نیلو ارے ارے کرتی رہ گئی ،،،،،،

اسکی چھٹیاں آج ختم ہو گئی تھی ،،،پر اسکا ارادہ کچھ دن اور یہاں ٹھرنے کا تھا مگر یہ سب دیکھ کر اسنے شام کو ہی واپسی کا شور ڈال دیا ،،،،،اور واپس چلی گئی ۔۔۔

کچھ دن یوہی گزر گئے نیلو ہر روز کی طرح آج بھی اسکے انتظار میں بیٹھی تھی۔ نیلوفر اسکے کانوں سے ایک مانوس سی آواز ٹکرائی،،،،،وہ مڑی تو وہی پتھر کی ہوگئی ،،“احمد “ بس ہونٹ بے آواز ہل سکے ،،،، میں ہوں نیلوفر میں لوٹ آیا اسنے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا “کچھ مت کہو نیلو ! جس کرب سے تم گزری ہو اسی سے میں بھی گزرا ہوں میں نے ابھی تک تمہاری طرح شادی نہٰیں کی ،،،،،،آؤ چلیں ،،،،جو ہوا بھول جاؤ آج سے نئی زندگی ہماری ہے ،،،ہمارا انتظار ختم ہوا،،،،،،
Zeena
About the Author: Zeena Read More Articles by Zeena: 92 Articles with 201414 views I Am ZeeNa
https://zeenastories456.blogspot.com
.. View More