ترکی...... الحادسے واپسی

جی رہی خوف کے پہروں میں یہ قوم

۱۶جولائی کی رات ترکی میں انتہائی منظم اندازمیں فوجی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ترکی کے صدر جنابِ رجب طیب اردگان نے اللہ تعالی کی تائید ونصرت پر بھروسااور ہمت و حاضردماغی سے کام لیتے ہوئے ایسے وقت میں کہ جب الیکٹرانک میڈیا پر بھی باغی افواج قابض ہوچکی تھیں ، انہوں نے سوشل میڈیا پر آکر عوام سے اس فوجی بغاوت کے خلاف مزاحمت کی اپیل کی،جس کے جواب میں عوام فورا ً سڑکوں پر نکل آئے، ٹینکوں کے آگے لیٹ کر باغی فوجیوں کی بھرپورمزاحمت کرتے ہوئے بغاوت کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ترکی وقتا فوقتا فوجی انقلاب کی زد میں آتا رہا ہے،لیکن یہ پہلی بار ہے کہ فوجی مداخلت ناکام ہوئی۔ اس میں فضائیہ کا کردار زیادہ نمایاں تھا لیکن آرمی کے سربراہ جنرل ہلوسی آکار اس کے حامی نہیں تھے،اسی لئے سب سے پہلے ان کے گھرپرحملہ کرکے اپنے ساتھ شامل ہونے کی تلقین کی لیکن ان کے مسلسل انکارکے بعد انہیں یرغمال بنالیا گیا ۔

اب اردگان کی حکومت کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کے بعد بہت سے مبصرین یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا اس بغاوت کے منصوبہ ساز حلقے کو شکست دینے کے بعد اردگان مزید مستحکم انداز میں اپنی حکومت چلاپائیں گے جبکہ ناکام بغاوت ہی سہی مگر اس نے ان کی بنیادوں کو نقصان توخاصاپہنچایا ہے۔ اردگان کے پاس سنہری موقع ہے کہ وہ اپنی حکومت کی طاقت اور اپنے اثر و رسوخ میں مزید اضافہ کریں، اوراس بات کا امکان بہت کم ہے کہ وہ یہ موقع ہاتھ سے جانے دیں گے۔

دراصل ترکی وہ ملک نہیں رہا جس نے نیٹو میں شمولیت اختیار کی تھی اور جو گزشتہ صدی کے اختتام تک امریکی اتحادی تھا۔وہ ایک ابھرتی ہوئی اسلامی ریاست ہے جس میں سیکولر اقلیت کو ''کمال ازم''کا الاؤ روشن رکھنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ کیونکہ یہ اقلیت مغرب زدہ ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اقلیت زیادہ انگریزی زبان بولتی ہے تو مغربی صحافی اس اقلیت کے ساتھ نشستیں اورانٹرویو وغیرہ کر کے یہ اخذ کرتے ہیں کہ اردگان کی آمرانہ پالیسیاں، ناقد صحافیوں اور فتح اللہ گولن کے حامیوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن ترک عوام کی خواہشات کی عکاسی نہیں کرتا حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

جارج بش انتظامیہ کی اگر بات کی جائے،۲۰۰۳ء میں جب ترک پارلیمان نےاناطولیہ سے شمالی عراق میں تعیناتی کیلئے امریکی فوجیوں کوراہداری کی اجازت دینے سے انکارکیا، جس سے امریکا کے اعلیٰ حکام نہ صرف پریشان ہوئے بلکہ انہیں حیرت بھی ہوئی کہ ترکی اب پہلے جیسا اتحادی ملک نہیں رہا ۔قصرسفیدکے فرعون اوران کے ہمنواؤں نے اسی دن اردگان کوباغی قراردیکر اپنی روایات کے مطابق ان سے چھٹکارہ کافیصلہ کرلیاتھا۔ان کیلئے یہ گوارانہیں تھاکہ یورپ کے دروازے پردستک دینے والاملک ان کے مفادات کے سامنے رکاوٹ بن سکے۔تیزی کے ساتھ اپنے سنہرے ماضی کی طرف گامزن ترکی کا سفراب استعمارکیلئے ناقابل برداشت ہوتاجارہاتھا۔اب ترکی جانے والا کوئی بھی شخص با آسانی یہ دیکھ سکتا ہے کہ گزشتہ دودہائیوں کے مقابلے میں بڑی تعداد میں خواتین حجاب استعمال کررہی ہیں،جمعہ پڑھنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہاہے۔آئمہ کے پاس اختیارات موجود ہیں،شایدسلطنت عثمانیہ کے بعداب پہلی دفعہ ایساہورہاہے۔اوریہی وہ لوگ تھے جو بغاوت کی مزاحمت کرنے والی طاقت کے روح رواں تھے۔

یقینا بروقت اِس عوامی مزاحمت کی پشت پراردگان کی اپنے وطن کیلئےطویل خدمات کا دخل تھا۔ان کے عوامی منصب پرفائز ہونے کاآغاز۱۹۹۴ءتا۱۹۹۸ء میں استنبول کی میئرشپ سے ہوا۔ پھر وہ ۲۰۰۳ء تا ۲۰۱۴ء وزارتِ عظمی کے منصب پرفائزرہے اور۲۰۱۴ء سے تاحال منصبِ صدارت پرفائزہیں۔انہوں نے اس دوران تمام انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی اوراپنے اقتدارکے دوران ترکی کی بیمارمعیشت کوایک توانامعیشت میں تبدیل کردیا۔اپنے وطن کوعالمی بینک اور آئی ایم ایف کی اقتصادی غلامی کے چنگل سے آزادکیااورآج ترک معیشت کودنیا کی سولہویں بڑی اقتصادی طاقت تسلیم کیاجارہاہے۔اگرچہ ترکی آئینی اعتبارسے اب بھی ایک سیکولرملک ہے لیکن ترک ماضی کی ایک عظیم اسلامی سلطنت کے وارث ہیں،اسلام ان کی رگ وپے میں شامل ہے۔اردگان مذہبی رجحانات کی حامل نجم الدین اربکان کی رفاہ پارٹی سے ابھر کرسیاسی منظرپرآئے اورپھربعد میں اپنی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی تشکیل دی۔ ترکی میں پارلیمانی نظامِ حکومت ہے اورآئین کی رو سے وہ تیسری باروزیرِاعظم منتخب نہیں ہوسکتے تھے،لہذا انہوں نے صدارت کے منصب کواختیارکیا،پہلے اپنے سابق وزیرِ خارجہ احمدداد اوغلواورپھربن علی یلدرم کووزیرِاعظم بنایا،لیکن حکومت کی پالیسیوں کوبدستور اپنے ہاتھ میں رکھا۔

ہماری نظرمیں ترکی اورمسلمانانِ عالم کے درمیان اردگان کی مقبولیت کارازاس میں بھی مضمرہے کہ وہ واحدمسلم حکمران ہیں جودنیامیں امتِ مسلمہ کے مسائل پرنہایت جرأت مندی کے ساتھ تواناآوازبلند کرتے رہے ہیں۔ان میں اخوان المسلمون کی حکومت کی جابرانہ اندازمیں معزولی، فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی حالتِ زار،شام کے پناہ گزینوں کیلئےاپنے دیدہ ودل فرشِ راہ کرنا،میانمارمیں روہنگیا مسلمانوں پرمظالم،حکومتِ بنگلہ دیش کا۱۹۷۱ء میں پاکستان کی حمایت کرنے والے مسلمان بنگالیوں کوظالمانہ انداز میں سزائے موت دینااورمقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پربھارتی فوج کے مظالم ایسے مسائل شامل ہیں۔

۲۰۰۸ء میں غزہ کی پٹی پراسرائیل کے حملے کے بعد اردگان نے اپنے قدیم حلیف اسرائیل کے خلاف شدیداحتجاج کیا۔ ترکی نے صرف احتجاج پراکتفا نہیں کیابلکہ اس کے فوری بعدڈیوس عالمی اقتصادی فورم میں اردگان کی جانب سے اسرائیلی صدرشمعون پیریزکے سامنے برملااسرائیلی جرائم کی تفصیلات بیان کرنے کے بعدڈیوس فورم کے اجلاس کے کنوینرکی جانب سے انہیں مناسب وقت نہ دیے جانے پراردگان نے فورم کے اجلاس کابائیکاٹ کیااور وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔اس اقدام نے انہیں عرب اورعالم اسلام میں ہیروبنادیااوروطن واپس پہنچنے پرعوام نے اپنے رہنماکانہایت شانداراستقبال کیا۔الغرض دنیاکے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آوازبلند کرکے اردگان عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کے دلوں میں مقبول رہنما کے طورپرجگہ بناچکے ہیں۔اس میدان میں دیگر مسلم حکمرانوں میں سے کوئی بھی ان کاہمسرتوکجا،ان کے قریب تربھی نظرنہیں آتا۔سوعالمی سطح پرمسلمانوں میں ان کی مقبولیت کاٹھوس جوازموجود ہے۔

ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی اورمصر میں اخوان المسلون کی حکومت کے تختہ الٹنے میں زمین آسمان کافرق ہے۔ مصر میں اسلامی حکومت نے آمریت کے خلاف جدوجہد میں جلد بازی دکھائی۔ مصری افواج نے اسلامی حکومت کوقائم ہوتے دیکھاتووہ برداشت نہ کرسکے اوربغاوت کردی۔ مصریوں کی اکثریت، روایت پسنداورمذہبی قدامت پسند ہونے کے باوجود فوج کے ساتھ کھڑی تھی جبکہ ترکی میں یہ عوام ہی تھے جومساجد سے ہونے والی اپیلوں پرلبیک کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اوراپنی اس فوج کامقابلہ کیاجو کمال کی بجھتی ہوئی سیکولرازم کی قندیل کوبچاناچاہتی تھی۔کمال کے دورمیں حجاب پرپابندی تھی اوربچے اپنے ہی دین سے ناواقفیت کے ساتھ پرورش پایا کرتے تھے لیکن اردگان اپنی قوم کےنوجوانوں پرکئی برسوں سے محنت کررہے تھے کہ ہماری کامیابی کاانحصارصرف اورصرف اللہ کے دین اورمحمدۖ کے اسوہ حسنہ کواختیارکرنےمیں ہے۔

بغاوت کرنے والوں میں صرف نچلے درجے کے افسران نہ تھے بلکہ جنرل رینک کے افسران بھی شامل تھے،جو کہ بلاشبہ ان لوگوں کے ساتھی تھے جنہیں اردگان نے پچھلے دس سالوں میں فوج سے نکالا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں گرفتاریاں ہوچکی ہیں۔ ہزاروں سرکاری ملازمین جو فوج کے حمایت یافتہ تھے اوراردگان کی حکومت کے خلاف تھے انہیں فارغ کر دیاگیاہے۔مزید مخالفین کی صفائی کی جائے گی،اردگان نے انہیں گولن کے ماننے والے قراردیا ہے،مگر اس سے خاص فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس کے ماننے والے ہیں، چاہے وہ کمالسٹ ہوں یا گولن کے ماننے والے کیونکہ کردوں کے علاوہ ترک اکثریت اردگان کے ساتھ ہے۔

اس ناکام بغاوت نے اردگان کی کامیابی کی مزیدراہ ہموارکی ہے اور اس بات کے امکانات پیداہوئے ہیں کہ وہ ترکی کے آئین میں ترمیم کرسکیں تاکہ ان کا دورِ صدارت بااختیاررہے۔وہ اپنے ذاتی اختیارات پراپنی حکومت کوچلارہے ہیں، انہوں نے وزیراعظم احمد داداولوکواس وقت ہٹادیاتھا جب انہوں نے صدر سے اختلاف کرنے کی کوشش کی اوران کی جگہ بن علی یلدرم کومقررکیا،جوکہ لچکدارشخصیت کے حامل ہیں۔ایک آئینی ترمیم یہ سب تبدیل کرکے اردگان کے اقتدار کومزید قانونی طاقت فراہم کردے گی۔ ریفرنڈم کروائے بغیرآئین کوتبدیل کرنے کیلئےاردگان کو۵۵۰ رکنی پالیمان میں دو تہائی اکثریت درکارہے۔ گزشتہ سال مئی میں پارلیمان سے کردش جمہوری پارٹی کے ارکان کاپارلیمانی استثنیٰ ختم کرنے کا بل منظورکروا کراردگان کیلئےطاقتور صدارت کا حصول بہت آسان ہوگیاہے۔

گزشتہ سال ترکی نے روسی جنگی جہازکو ملکی سرحدوں کی خلاف ورزی پر مارگرایا تھاجس کے جواب میں روس نے فوری طورپر ترکی کے ساتھ نہ صرف سفارتی وتجارتی تعلقات منقطع کرلئے تھے بلکہ گیس کی سپلائی بندکرتے ہوئے مزید انتقام کی بھی دہمکی دی تھی۔امریکااورنیٹو ممالک نے اس معاملے پرسیاسی پسپائی اختیارکرتے ہوئے اس مشکل وقت میں اس خطے میں اپنے مضبوط اتحادی ترکی کومحض اس لئے تنہاچھوڑدیاتاکہ ترکی نے جو۲۰۰۳ء میں بش انتظامیہ کوامریکی فوجی دستوں کواناطولیہ سے شمالی عراق کاراستہ دینے سے انکار کیاتھا،اس کاانتقام لیاجائے اورترکی کی بڑھتی ہوئی معیشت کوتباہ کرکے اس کومکمل طورپرامریکااورنیٹوکامحتاج بنایاجائے تاکہ آئندہ کسی مسلم ملک کو سراٹھانے کی جرأت نہ ہولیکن امریکابشمول نیٹواوردیگرحریف یہ بھول گئے کہ اردگان حتمی طورپرایک عملیت پسندشخص ہیں اوراس ناکام بغاوت کے بعد طاقتوراردگان کاترکی،نیٹواورامریکا کیلئے پہلے سے زیادہ مشکل اتحادی ثابت ہوگا۔ یادرہے کہ جب ۲۰۱۰ء میں اسرائیل سے تعلقات کو توڑناان کے حق میں تھا،تو انہوں نے ایساہی کیااورجب گزشتہ سال تعلقات کوبہترکرناسودمند تھاتو انہوں نے تعلقات بحال بھی کرلیے۔اسی کامیاب پالیسی کے تحت اس ناکام بغاوت کے بعد اپنے حریفوں کاچاروں شانے چت کرنے کیلئے اس خطے میں روس کو اپنااتحادی بنانے میں حیران کن سرعت کامظاہرہ کیا۔ یہی حکمت عملی ایران اور بشارالاسد کے حوالے سے بھی رہی ہے۔
طیب اردگان نے امریکامیں مقیم فتح اللہ گولن کواس بغاوت کاسرغنہ قراردیتے ہوئے امریکاسے اس کی حوالگی کامطالبہ کررکھاہے اورامریکااب تک ٹال مٹول سے کام لے رہاہے لیکن ترکی کومطمئن کرنے کیلئے امریکی حکام نے نیٹو اتحادی ممالک حکام سے مشورے کے بعد ایک قرارداد پیش کی،جس میں ترکی کی تمام سیاسی جماعتوں سے کہاگیاتھا کہ وہ جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والی اس حکومت کی مکمل حمایت کریں لیکن سلامتی کونسل میں ترکی کی ناکام فوجی بغاوت کے خلاف مذمتی قرارداد مصر کی وجہ سے پیش نہ ہوسکی،جس پرترک وزارت خارجہ نے مصرکوسخت تنقیدکانشانہ بنایا۔ وزارت خارجہ کےترجمان کاکہناتھا کہ قراردادکے حوالے سے مصرکی مخالفت ہمارے لیے حیرت کاباعث نہیں،کیونکہ مصرکی موجودہ حکومت فوجی بغاوت کے نتیجے میں ہی اقتدارمیں آئی تھی۔

پریس کانفرنس کے دوران بلغک کاکہناتھا کہ'' فوجی بغاوت کے نتیجے میں برسر اقتدارآنے والی مصری حکومت کی جانب سے یہ قدرتی عمل ہے کہ وہ جمہوری طریقہ سے منتخب ہونے والے ہمارے صدراورحکومت کے خلاف ہونے والی اس بغاوت پرکوئی اصولی اورواضح موقف اختیارکرے''۔ مصر اقوام متحدہ کےدس غیرمستقل ممالک میں سے واحدملک ہے جوترکی میں اقدام بغاوت کے خلاف امریکی حمایت یافتہ قرارداد میں رکاوٹ کاباعث بنالیکن جب اقوام متحدہ میں اس پربحث ہونے لگی تومصرکاکہنا تھا کہ کسی کوجمہوری حکومت کا درجہ دینا سلامتی کونسل کاکام نہیں اس لیے اس قراردادکے الفاظ میں ترمیم کی جائے۔

اردگان حکومت کے تعلقات مصر سے نہایت کشیدہ ہیں۔اردگان مصر میں قائم ہونے والی مرسی حکومت کے سب سے بڑے حمایتی تھے،جسے ۲۰۱۳ء میں مصری فوج نے معزول کر دیا ۔ مرسی کی حکومت کے خاتمے کے بعد شروع ہونے والے سخت کریک ڈان کی وجہ اخوان کے سیکڑوں رہنما اب بھی ترکی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ترک رہنمانے اس سارے عمل کوبغاوت قراردیا تھااور مصری جنرل عبدالفتاح السیسی کی سخت مذمت کی تھی جواب مصرکے صدر ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہفتے کی صبح مصری عوام جب بیدار ہوئے توحکومتی اخبارات نے اردگان حکومت کے خاتمے کی خبرکو شہ سرخیوں میں جگہ دی۔ حکومتی اخبارالاحرام کی سرخی تھی کہ'' ترک آرمی نے اردگان کا تختہ الٹ دیا''۔ایک اور اخبار کی سرخی تھی''اردگان کا دورحکومت ختم''۔مشہور مغربی سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے یہی ہے کہ مصری ڈکٹیٹرعبدالفتاح السیسی نےاپنے آقاؤں کے ایماء پرہی ایسارویہ اختیارکیاہے۔

مالی معاملات کے حوالے سے مغربی میڈیا نے اردگان پردباؤبڑھانے کیلئےبڑی بے رحمی کے ساتھ منفی خبروں کے طوفانِ بدتمیزی کے اوچھے حملوں کاآغازکردیا۔ان پراقربا پروری اورآمریت کےالزام بھی لگائے گئے لیکن یہ بھول گئے کہ اردگان کے والد اب بھی ضعیف العمری میں ایک ذاتی ورکشاپ چلارہے ہیں اوران کے چھوٹے بھائی ایک بازارمیں فروٹ کاٹھیلہ لگاکراپنے خاندان کی کفالت کررہے ہیں لیکن ترک عوام نے بھی اس منفی پروپیگنڈہ کاڈٹ کرمقابلہ کرکے اپنے محبوب رہنماکابھرپورساتھ دیا۔ یورپ جوکہ اس وقت مشکلات کا شکارہے،لیکن ایسے وقت میں اردگان صحافیوں،مخالفین پر نرمی جیسے یورپی مطالبات پرمزید مزاحمت دکھارہے ہیں۔ اسی طرح اردگان نے مزیدخوداعتمادی کے ساتھ امریکااوراس کے اتحادیوں کے ان مطالبات کوماننے سے انکارکردیاہے جوکہ ترکی کے مفاد سے ٹکراتے تھے۔تاہم وہ ایک انسان ہیں اورانبیائے کرام و رسل عظام علیہم الصلووالسلام کے سواکسی بھی انسان کومکمل طورپرخطاسے مبراقرارنہیں دیاجاسکتا۔ دیکھنایہ ہوتاہے کہ کسی شخصیت میں خیرغالب ہے یا شر؟یقینااردگان کی شخصیت میں خیرکا عنصرغالب ہے،جس کی بنا پران کی قوم نے انہیں باربارمنتخب کیا،ان کی قیادت پراعتمادکیا اوران کے خلاف بغاوت کو فروکرنے کیلئے میدانِ عمل میں نکل آئے،اس میں انسانی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی تائید ونصرت کا بھی دخل ہوتا ہے کیونکہ،
ایں سعادت بزورِ بازو نیست ۔۔۔۔۔ تا نہ بخشد، خدائے بخشند

الغرض شعلہ بیانی اوربلند بانگ دعوے کرنے سے لوگوں کے دلوں میں جگہ نہیں بنتی،بلکہ خدمت اورفیض رسانی سے حاکم کوعوام کے دلوں میں مقامِ قبولیت نصیب ہوتا ہے۔اسی طرح اغیارپرانحصارکرنے کی بجائے اللہ تعالی پر توکل اوراس کی تائیدونصرت پریقین ہی میں مومن کیلئے کامیابی کارازمضمِر ہے۔ ترکی کیلئےامکانات کی دنیابہت وسیع ہے،مستقبل میں اس کادائرہ اثرپورے وسطی ایشیا تک پھیل سکتاہے۔اب آئینی اعتبارسے سیکولرملک ترکی کے عوام میں ایمان کی حرارت پیداہوچکی ہے اورعین ممکن ہے کہ اردگان کی برسوں کی محنت رنگ لے آئے۔محمد مرسی کے برعکس،نہایت پراعتماد اور تیزی سے مذہب کی طرف مائل ہوتے اردگان،موجودہ ترکی کااصل چہرہ ہیں۔ کمال کے حامی ترک اوران کے مغربی دوستوں کیلئےبہترہے کہ وہ سیکولر ترکی کے خواب دیکھناچھوڑدیں کیونکہ اب ایساہوتا مستقبل میں نظرنہیں آرہا۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 349928 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.