ترقی یافتہ عورت سے معذرت

میں عورت کے معاملے میں شائد کچھ زیادہ ہی تنگ نظر ہوں یا پھر شائد میں ترقی یافتہ نہیں ہوں اس لیے اس مسئلے کا شکار ہوں ۔ لیکن اگر میں روشن خیال ہوتا تو بھی کافی بہتر محسوس کرتا۔
میں عورت کے معاملے میں شائد کچھ زیادہ ہی تنگ نظر ہوں یا پھر شائد میں ترقی یافتہ نہیں ہوں اس لیے اس مسئلے کا شکار ہوں ۔ لیکن اگر میں روشن خیال ہوتا تو بھی کافی بہتر محسوس کرتا۔ لیکن خیر جو بھی ہے مجھے مرد کا ترقی یافتہ ہونا یا روشن خیال ہونا ہضم ہوتا ہے مگر عورت کا یہ سب ہونا پتہ نہیں کیوں ہضم نہیں ہوپارہا۔ ترقی یافتہ ہونا یا روشن خیال ہونا کچھ برا تصور نہیں ہے۔ بلکہ میرے محدود سوچ کے مطابق اسلام ان دونوں کا درس دیتا ہے کہ ہر فرد معاشرہ کو ترقی یافتہ اور روشن خیال ہونا چاہیے۔ یہاں ایک کنفیوژن ہے کہ آج کے اس مادی دور کے اندر ان دونوں تصورات کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہے آج کی جو روشن خیال اور ترقی یافتہ عورت ہے وہ معذرت کے ساتھ عورت نہیں ہے۔ بہرحال جو بھی ہے مجھے تو عورت ،عورت کے روپ میں ہی اچھی لگتی ہے ۔ آپ ان تصورات سے نکل کر دیکھیں تو کچھ چیزیں خود بخود اپنے تصور کے دھندلے آئینے میں واضح ہونے لگتی ہیں۔ لفظ عورت کا مطلب ہی پردہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ پردہ کس چیز سے؟ یہاں مشکل یہ پیش آرہی ہے کہ یا تو لفظ کا مطلب سمجھنے کی کوشش کی جائے یا تو اس لفظ سے ہی معذرت کی جائے۔ عورت چاہے ماں ہو بہن ہو ، بیٹی ہو یا بیوی عورت ہی اچھی لگتی ہے۔ لیکن اگر عورت نہ رہے تو پھر مرد اور عورت کا تصور چہ معنی دارد۔۔ میل فی میل ۔نر انسان اور مادہ انسان۔یا اس طرح کی کوئی تقسیم یا پہچان رہ جاتی ہے۔ لیکن اگر انسان دوسرے تمام حیوانوں سے معاشرتی رہن سہن اور خاندان سازی میں کچھ منفرد ہیں تو پھر عورت مرد کا تصور لازمی ہوجاتا ہے اور پھر میاں بیوں۔ماں باپ ۔بہن بھائی ۔باپ بیٹی کے رشتے قائم ہوجاتے ہیں۔ اور پھر لفظ عورت ان رشتوں کا ایک احترام استوار کرتا ہے۔ اور اس طرح یہ خاندانی نظام اچھا لگتا ہے۔اس خاندانی نظام سے پردہ اُٹھا دیا جائے تو کیسی کیسی خباثتیں جنم لیتی ہیں اس کا مشاہدہ ہم روزمرہ زندگی میں کرتے آرہے ہیں۔ پردہ دراصل وہ تصور ہے جو اصلاً انسان کو ترقی یافتہ اور روشن خیال بناتا ہے اگر بے پردگی ترقی کی علامت ہے تو جانور ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ لیکن اگر ترقی یافتگی کے لیے بے پردگی شرط نہیں تو پھر یہ سارا غل غپاڑا کیا ہے۔ سانئس کا دعویٰ ہے کہ ابتداء زمانہ میں انسان پے پردہ تھے اور جب جب اسے ہوش آیا اور ترقی کی اس نے لباس زیب تن کرنا شروع کیا۔اور پھر لباس انسان کی شخصیت کی پہچان اور اچھا لباس انسان کی عزت اور ترقی یافتہ ہونے کی علامت بنتاگیا۔ اور اب جب انسان پھر سے یہ کہہ رہا ہے کہ لباس کے اندر ڈھکے رہنا دقیانوسی سوچ کی علامت ہے تو فیصلہ آپ خود کریں لباس پہننا دقیانوسی سوچ کی علامت ہے یا بے لباس پھر نا۔ مغرب کی عورت نے لباس ترک کیا تو معاشرے سے عورتوں اور مردوں پر مشتمل خاندانی نظام گیا۔ کوئی ماں اپنے بیٹے کے سامنے تقریبا ننگی ہے ۔بھائی بہن میں کوئی پردہ نہیں۔ اور اسی طرح شوہر بیوی کے درمیان کوئی راز نہیں۔ اس کے کون کون بوائے فرینڈز ہیں اس کو پتا اور اس کے کتنی گرل فرینڈز ہیں اسے معلوم۔ زندگی کا گزارہ سمجھوتوں کی تلوار تلے۔لیکن ایک سوال کھٹکتا ہے کہ اگر مغرب کی عورت یا مغرب ذدہ عورت آدھی ننگی پھرتی ہے تو پھر پوری ننگی کیوں نہیں پھرتی ؟ کون سی چیز مانع ہے ۔ یا پوری ننگی پھرنے سے کوئی منع کرتا ہے؟ کوئی قانون ہے یا کوئی ایسی معاشرتی پابندی ہے جو وہ اپنے بیٹے اور بھائیوں کے سامنے پوری ننگی نہیں ہوتی ۔کوئی بیٹی اپنے باپ کے سامنے پوری ننگی نہیں ہوتی؟ اخر کوئی وجہ ہے ۔ سو فیصد جسم میں سے ایک عاد جگہ چھپا دیتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے اس جگہ روشن خیال عورتوں کو بھی کچھ شرم سے آتی ہے کچھ جھرجھری سے آنے لگتی ہے ۔ پھر کوئی پردے اور بے پردگی کا تصور آجاتاہے۔اس کامطلب یہ ہوا کہ انسانیت پردہ کرنے میں اطمینان محسوس کرتی ہے۔اس کامطلب ہے کہ انسان کے ذہن میں پردے کا تصور ہے۔ پھر کوئی یہ نہ کہے کہ پردے کا تصور کیوں۔ مرد ننگا کیوں نہیں پھرتا ؟ مرد صرف چڈیوں میں بازاروں میں دفتروں میں کام کیوں نہیں کرتے۔ کیوں تھری پیس سوٹ پہنے اور ٹائی باندھے مرد ترقی یافتہ اور روشن خیال لگتاہے۔ اس حساب سے تو ایسے مرد کو بھی دقیانوسی سمجھا جانا چاہیے تھا ڈبل سٹنڈرڈ کیوں؟؟ میرا خیال ہے کہ یہ سب کچھ جنسی ہوس کی تسکین کی خاطر ہورہا ہے۔ عورت بے پردہ اس لیے پھرتی ہے کہ وہ مرد کی نظروں میں آئے اور مرد کی جنسی ہوس کی تسکین ہو۔ اور عورت چونکہ ایک خوبصورت چیز ہے اسے یہ زعم ہے کہ اس کی خوبصورتی پردے تلے چھپ رہی ہے لہذا وہ چاہتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اوپن ہو اور مرد کی ہوس میں ڈوبی نگاہوں کی تپش کو اس دلربا کے حسن سے ٹھنڈک مل جائے اور اسے کچھ داد آفرین مل جائیں۔بس اسی خود فریبی کاشکار ہوکر عورتوں نے اپنے جسم کی نمائش کا سامان کرلیا اور مردوں کو اپنے دام میں پھنسا نا چاہا۔کیونکہ مردجنسی بھوک کا شکار ہیں اور وہ بھی اس بازار حسن کے حسین نظاروں سے خوش ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے جسے سب نے اپنے حساب سے کئی اچھے اچھے نام رکھ لیے۔ کسی نے ترقی پسند کہہ لیا تو کسی نے روشن خیال کہہ لیا۔زمانہ قبل اسلام لوگ ترقی یافتہ نہیں تھے اسے دور جہالت کہا جاتا تھا جہاں عورت کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔ اسلام نے تعلیم عام کی لوگوں کو سوچنے سمجھنے کی دعوت دی اور عورت کو خاندانی نظام کا اہم جزء قرار دیا۔اور عورت اور مرد کو پردے کا پابند بنایا۔اور اسلام سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور روشن خیال ثابت ہوا۔ آج یہی عورت اسلام کے دامن میں گٹھن محسوس کررہی ہے اور پردے سے نکل کر سربازار بکاؤ مال بننا پسند کررہی ہے اور جو پردے کی پاپندی کرتی ہیں انہیں stereo typsہونے کا طعنہ دیتی ہیں۔ اور جاہل کہتی ہیں۔ آج کی عورت ترقی یافتہ ہوگئی ہے اور ترقی معکوس کا سفر کرکے stone age کی جانب دوڑے چلی جارہی ہے۔ عورت ترقی پسند نہیں عورت روشن خیال نہیں۔ اگر روشن خیال ہوتی تو پردہ کرتی اور انسانیت اور حیوانیت کا فرق سمجھتی۔روشن خیال بننا ہے تو پوری طرح بنو اور بتاؤ کہ ننگ پن میں ترقی اور روشن خیالی ہے نہ کہ چتھیٹروں میں۔یا پھر پورے جسم کو ڈھکو اور دیکھو کہ روشن خیالی پر کوئی آنچ آرہا ہے۔
habib ganchvi
About the Author: habib ganchvi Read More Articles by habib ganchvi: 23 Articles with 21380 views i am a media practitioner. and working in electronic media . i love to write on current affairs and social issues.. .. View More