بلاول زرداری کا کامیاب شو…… پیپلزپارٹی حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے

 پیپلزپارٹی کے سربراہ پنجاب میں اپنی جماعت کی بحالی کے لیے خم ٹھونک کرمیدان میں آ چکے ہیں۔ پی پی کے جیالوں کی اکثریت اپنے لیڈروں کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے گھروں میں جا بیٹھی تھی، لیکن بلاول نے ان کو ایک بار پھر باہر نکلنے پر تیار کیا ہے۔ بلاول بھٹو کے لاہور سے فیصل آباد تک چھوٹے بڑے شہروں میں بھرپور استقبال اور فیصل آباد میں کامیاب جلسے نے ثابت کر دیا ہے کہ اگر محنت کی جائے تو پیپلزپارٹی کو ایک بار پھر پنجاب میں زندہ کیا جاسکتا ہے۔ 2013ء میں پیپلزپارٹی کو پنجاب میں ہونے والی بدترین شکست کے بعد پیپلزپارٹی کے ناقدین کا کہنا تھا کہ پی پی کا ’’وقت تمام‘‘ ہوا، اب اس کی ’’واپسی‘‘ ناممکن ہے، لیکن آصف زرداری نے نو آموز بلاول بھٹو زرداری کو پنجاب میں انتہائی تجربہ کار شہباز شریف اور ان کے برادر بزرگ میاں نواز شریف سے مقابلہ کرنے کے لیے اتارا ہے۔ 2013ء میں اقتدار سندھ تک ’’محدود‘‘ ہونے پر آصف زرداری پر واضح ہوگیا تھا کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) سے اقتدار چھینے بغیر وفاق میں حکومت ایک خواب ہی رہے گا، لیکن اب بلاول کو پنجاب میں متحرک کر کے پنجاب میں اپنی سیاست کو دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ شریفوں نے پنجاب کے عوام کو یرغمال بنارکھا ہے، جب کہ بہت جلد عوام کو نواز شریف اور شہباز شریف سے چھٹکارے کی خبر بھی ملے گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم اس کرپٹ نظام کے خلاف ہیں، اس سسٹم کے خاتمے کے لیے عوام کو گھروں سے باہر نکلنا ہوگا۔ پیپلز پارٹی اپنے 4 مطالبات پر قائم ہے اور اسے پورے کراکر دم لے گی۔

ریلی میں نواز حکومت کے حوالے سے کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی گئی، تاہم ایک طویل عرصے کے بعد پیپلزپارٹی کی پنجاب میں ایک موثر سیاسی سرگرمی تھی۔ اگرچہ بلاول کی ریلی کو بہت زیادہ کامیاب نہیں کہا جاسکتا، لیکن کئی سال بعد پنجاب میں پیپلزپارٹی کا متحرک ہونا اور پی پی قیادت کا عوام کے ساتھ رابطہ ایک خوش آئند بات ہے۔ پیپلزپارٹی کی پنجاب میں شکست کے بعد یہ سمجھا جاتا ہے کہ پنجاب مسلم لیگ ن کا ہے، حالانکہ پی پی کی اٹھان پنجاب سے ہی ہوئی تھی، لیکن الیکشن میں ناکامی کے بعد بالکل خاموش ہوگئی، لیکن اب بلاول نے ایک بار پھر پنجاب میں اپنی جماعت میں نئی روح پھونک دی ہے، جس سے پی پی بہت زیادہ محنت کر کے شاید حکمران جماعت کو ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔ پنجاب میں پی پی فی الحال حکمران جماعت کو مشکلات سے دوچار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس پوزیشن میں آنے کے لیے پی پی کو بہت زیادہ محنت کرنا ہوگی۔ سیاسی امور کے ماہرین اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ بلاول بھٹو زرادری کے حکومت سے جو مطالبات ہیں، یہ ایسے نہیں ہیں کہ ان کو بنیاد بنا کر چلائی جانے والی کوئی تحریک کامیاب بھی ہوجائے۔ بلاول کے چار مطالبات یہ ہیں:سابق صدر آصف زرداری کے دور میں اقتصادی راہداری پر ہونے والی اے پی سی کی قرار دادوں پر عمل ہونا چاہیے۔ پاناما لیکس پر پیپلزپارٹی کے بل کو منظور کیا جائے۔ فوری طور پر ملک میں مستقل وزیرخارجہ کو تعینات کیا جائے۔ پارلیمنٹ کی نیشنل سیکورٹی کمیٹی کو ازسر نو تشکیل دیا جائے۔ اب ان میں سے کوئی بھی مطالبہ ایسا نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر عوام کو تحریک کی جانب متوجہ کیا جاسکے اور تحریک کو کامیاب بنایا جاسکے۔ تحریک انصاف کے برعکس پیپلز پارٹی کسی بڑے مسئلے پر نواز شریف کے خلاف کھل کر سٹینڈ نہیں لیتے، جیسا کہ تحریک انصاف کے طریقہ کار سے اختلاف ہی سہی، لیکن انہوں نے کرپشن کے الزام پر سٹینڈ لیا ہے، مگر پیپلز پارٹی کا کرپشن پر بھی سٹینڈ کمزور ہے تو لوگ کس بات پر ان کے ساتھ اکٹھے ہوں گے۔ تاہم تجزیہ کار اس موقف کی تائید ضرور کرتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاہور سے فیصل آباد تک شاندار ریلی کی قیادت کر کے پنجاب میں اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت پیپلزپارٹی کو متحرک کردیا اور پارٹی کے علاوہ کارکنوں میں نئی روح پھونک دی ہے۔ بلاول نے حکومت مخالف تحریک کا باقاعدہ آغاز وسطی پنجاب سے کر کے پارٹی میں آکسیجن ڈال دی ہے، اس سے پنجاب میں پارٹی فعال ہوگی۔ ریلی کے ذریعے پیپلزپارٹی نے بھرپور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، یہ بلاول کا وسطی پنجاب میں پہلا کامیاب شو ہے۔ لاہور سے فیصل آباد تک بلاول کا جگہ جگہ استقبال کیا گیا۔ 1988 میں پیپلزپارٹی نے شیخوپورہ سے قومی اسمبلی کی تمام نشستیں جیتی تھیں اور شیخوپورہ کو لاڑکانہ کہا جاتا تھا۔ اب دوبارہ شیخوپورہ میں پیپلزپارٹی کی بڑی گہما گہمی دیکھنے میں آئی ہے۔ لوگوں نے گھروں کی چھتوں پر کھڑے ہوکر بلاول کا استقبال کیا۔ شاہ کوٹ، مانانوالہ، فیروزوٹواں اور کھرڑیا نوالہ میں بھرپور استقبال کیا گیا۔ اس وقت پیپلز پارٹی کوپنجاب میں تنظیم سازی پر توجہ دینی چاہیے، بلاول نے تنظیم سازی کے بغیر بڑی ریلی نکال لی ہے، اگر تنظیم سازی مکمل ہونے کے بعد ریلی نکالی جاتی تو یہ ریلی کئی گنا بڑی ہوتی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں اپنی اہمیت کھو چکی ہے۔ تین برسوں سے پاکستان پیپلز پارٹی شکست کا تسلسل جاری رہا۔ گزشتہ سال آزاد کشمیر اور پنجاب میں بلدیاتی سربراہوں کے انتخابات میں ہار کا سامنا ہوا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو مشکل حالات میں پرچم اٹھا کر میدان میں نکل آئے، تنظیم سازی، رابطہ مہم کے دوران جارحانہ سیاست سے کارکنوں میں ولولہ تازہ پیدا ہو گیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اسی سال بھرپور عملی سیاست کا آغاز کیا، اپریل میں چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی تنظیموں کو ختم کر کے رابطہ کمیٹیوں کو تین مہینوں میں نئے عہدیداروں کے چناؤ کا ہدف دیا، جن کا نومبر میں اعلان ہوا۔ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے دوران ریلی، جلسے اور جلوس کیے، لیکن ڈوبتی کشتی بچانے میں کامیاب نہ ہو سکے اور پیپلز پارٹی حکومت سازی سے محروم ہو گئی۔ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو تبدیل کر کے ان کی جگہ وزارت اعلیٰ کا قلمدان مراد علی شاہ کے سپرد کیا، شہدائے کارساز کی یاد میں کر اچی میں ریلی کی قیادت کی گئی۔ پنجاب، جنوبی پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے صدر، جنرل سیکرٹری اور انفارمیشن سیکرٹری کے عہدوں کا اعلان کرنے کے بعد نومبر کے آخر میں بلاول ہاؤس لاہور میں 49ویں یوم تاسیس کی سات روزہ تقریبات منائی گئیں، جن میں حکومت کے خلاف بھرپور احتجاج کا عزم کیا گیا۔ پیپلز پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ 2016ء میں ہمارے لیے مشکل حالات تھے، لیکن اب پارٹی کو نئی قیادت مل گئی اور بلاول بھٹو نئی ٹیم لے کر میدان میں نکل آئے، جس کی وجہ سے مستقبل سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔

پارٹی رہنماؤں کا بلاول بھٹو زرداری سے کئی امیدیں وابستہ ہیں، جو یہ امید رکھتے ہیں کہ بلاول کی شکل میں نوجوان قیادت پنجاب میں جماعت کو دوبارہ زندہ کرے گی۔ ایک رہنما کے طور پر وہ پارٹی کو دوبارہ منظم کرنا اور اس کا احیا چاہتے ہیں۔ بلاول اپنے لوگوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ پی پی پی ملک میں جاری سیاسی بحران میں ’’ن لیگ سے دوستانہ اتحاد‘‘ کا بوجھ اٹھا رہی ہے، اس وقت پنجاب سے پارٹی قیادت کو لگتا ہے کہ پارٹی چیئرمین ملک کے سب سے اہم صوبے میں ناراض اور نظرانداز کیے جانے والے کارکنوں پر توجہ دیں گے۔ پیپلزپارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پی پی پی کے سنیئر اور نوجوان کارکنوں کو لگتا ہے کہ بلاول ہی ان کی واحد امید ہیں، اگر وہ مسلم لیگ ن کی پالیسیوں کو چیلنج نہیں کرتے تو یہ پنجاب میں ہمارے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ کوئی بھی پارٹی پنجاب میں مضبوط موجودگی نہ ہونے پر بڑی یا مستحکم نہیں رہ سکتی، کیونکہ سیاسی اعتبار سے یہ صوبہ ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ مسلم لیگ ن ہمیشہ سے مخصوص علاقوں پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے اور سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان اس کی توجہ کا مرکز نہیں، وہ صرف اسی مخصوص سیاسی پلیٹ فارم کو اہمیت دیتی ہے، کیونکہ یہ رجحان ساز صوبہ ہے۔ پی پی کے رہنما یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں پی پی پی نے پنجاب کو نظرانداز کیا ہے۔ سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب کی قیادت آصف علی زرداری کی جگہ بلاول بھٹو کو صوبے میں متحرک دیکھنا چاہتی ہے۔ 2013 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی جہاں پنجاب میں شکست کے بعد صوبائی قیادت مایوسی کا شکار ہوگئی، وہیں پیپلز پارٹی کو پنجاب میں بحال کرنے کے لیے بلاول بھٹو زرداری کو متحرک کرنے کی حکمت عملی بھی ترتیب دی گئی۔ بلاول بھٹو کی پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں سیاسی سرگرمیاں بھی اسی حکمت عملی کی ایک کڑی تھیں اور بلاول بھٹو زارداری نے خود یہ اعلان کیا تھا کہ وہ لاہور میں مستقل قیام کرکے اسی شہر میں سیاست کریں گے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بلاول زرداری حکمران شریف بردارن کو چیلنج دے سکتے ہیں، جبکہ ان کے والد آصف علی زرداری کا طرز سیاست اس سے مختلف ہے۔ پنجاب آبادی کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس سے کامیاب ہونے والی جماعت ہی ملک کے وزارت عظمی کا منصب سنبھالتی ہے۔ پیپلز پارٹی میں ایک گروپ کا یہ واضح موقف ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی وجہ سے صوبہ پنجاب میں پیپلزپارٹی میں دوبارہ جان ڈالی جاسکتی ہے، جبکہ تاریخی حوالے سے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پیپلز پارٹی بہرکیف ایک عوامی اور مزاحمتی پارٹی ہے۔ یہ جب سے معرض وجود میں آئی ہے کچھ نہ کچھ مزاحمت ضرور کرتی رہی ہے۔ اس کے جیالے کارکنوں کا موڈ اور مزاج بھی مزاحمتی ہے، اگر بلاول ان پر محنت کریں تو حکمران جماعت کو ٹف ٹائم دینا زیادہ مشکل نہیں ہے۔

پنجاب میں وہی سیاسی جماعتیں جگہ بنانے میں کامیاب ہوتی ہیں جو جارحانہ سیاست کو لے کر چلتی ہیں۔ بلاول بھٹو یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ انہیں بھی اپنے والد کے برعکس لب و لہجہ اپنانا ہوگا۔ اسی لیے بلاول بھٹو جب سے میدان میں اترے ہیں، اپنے والد آصف زرداری کے برعکس جارحانہ لب و لہجہ اپنائے ہوئے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ کامیابی کے لیے مخالفین کی ’’سوفٹ بیلی‘‘ پر وار کرنا ضروری ہے۔ بلاول بھٹو نے پاکستان کے تمام مسائل کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو ٹھہرایا ہے اور اعلان کیا ہے کہ شریف حکمرانوں سے اس سال قوم کو نجات مل جائے گی، مگر اس کے ساتھ ہی بلاول کو احساس ہے کہ یہ کام عوام کی شرکت کے بغیر ممکن نہیں، لہٰذا وہ کھل کر کہتے ہیں کہ عوام بھی کرپٹ نظام سے چھٹکارا پانے کے لیے گھروں سے باہر نکلیں۔ پیپلز پارٹی پنجاب کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ سخت گیر موقف اختیار کرکے ہی پیپلز پارٹی کو صوبے میں زندہ رکھا جاسکتا ہے، اس مقصد کے لیے بلاول بھٹو بہترین انتخاب ہیں۔ پیپلز پارٹی پنجاب کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو کے متحرک ہونے سے صوبے میں پارٹی میں کچھ حرکت ضرور آئی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے متحرک ہونے سے پیپلز پارٹی پنجاب کے رہنماؤں اور کارکنوں میں یہ امید پیدا ہوگئی کہ پارٹی میں دوبارہ روایتی عوامی سیاست ہو گی۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 629527 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.