وزارتِ تعلیم اور صوبے!

 وفاق میں وزارتِ تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وزارت کو چلانے کے لئے ایک مکمل وزیر کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی بلکہ ایک وزیر مملکت کو ہی کافی جانا گیا ہے۔ تاہم حکومت نے ایک پڑھے لکھے یعنی انجینئر کو وزارت کا قلمدان سونپ دیا، میاں بلیغ الرحمن امریکہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آئے تھے، جنوبی پنجاب کے اہم ضلع (بہاول پور) سے ان کا تعلق ہے۔ وہ قومی اسمبلی کا ممبر ہونے کے باوجود گزشتہ دورِ حکومت میں وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر رہ چکے ہیں۔ شاید ان کے مشورے میاں برادران کو زیادہ پسند آئے ہو ں گے، کہ انہوں نے اِس مرتبہ وفاق میں موصوف کو مشیرسے ترقی دے کر وزیر بنا دیا، یہ الگ بات ہے کہ وزارت کی زیادہ مصروفیات نہ ہونے کی بنا پر پوری وزارت کا اہتمام کیا ہی نہیں گیا۔ وزارت میں کام نہ ہونے پر جب حکومت نے محسوس کیا کہ وزیر صاحب تو فراغت سے بھی اکتا رہے ہیں،اور دوسری طرف وزارتِ داخلہ کا بوجھ حد سے زیادہ ہے، تو موصوف کو داخلہ کا بھی چھوٹا وزیر بنا دیا گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ چوہدری نثار علی خان زیادہ مصروف رہتے ہیں، بعض اوقات اسمبلی کے اجلاس میں نہیں جاسکتے، مگر داخلہ امور کے بے شمار مسائل اسمبلی میں زیر بحث آتے ہیں، معزز ممبران کے سوالوں کے جواب نہ آئیں تو بھی حکومت کو تلخ و ترش سننی پڑتی ہیں، لہٰذا مناسب جانا گیا کہ جہاں کسی اہم مسئلے پر تقریر کرنی ہو تو چوہدری صاحب اسمبلی جایا کریں گے اور جب مشکل سوالوں کے جواب دینے ہوں تو بلیغ صاحب کو آگے کر دیا جائے گا، اسی فارمولے پر عمل ہو رہا ہے۔ صوبوں کو خود مختاری ملنے کے بعد تعلیم کے بارے میں قومی اسمبلی میں کوئی سوال ہی نہیں کرتا۔

انجینئر بلیغ الرحمن کی وزارتِ تعلیم اگرچہ تقریباً نام تک ہی محدود تھی، مگر انہوں نے خود کوکچھ مصروف رکھنے کے لئے منصوبہ بندی کی، قوم کو بتایا کہ ان کے لئے ایک نصاب تیار کیا جائے گا، تعلیمی پالیسی تشکیل دی جائے گی، بجٹ کا چار فیصد تعلیم پر خرچ کردینے کا انقلابی اعلان بھی کیا۔ اپنے خوابوں میں رنگ بھرنے کے لئے قومی نصاب کونسل بنائی، بین الصوبائی ایجوکیشن منسٹرز کی کانفرنس تشکیل دی۔ مگر شومئی قسمت کہ اس کانفرنس کے اجلاس کی تعداد 9ہو چکی ہے، اگلا اجلاس ڈبل فگر میں داخل ہو جائے گا، مگر ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔ اگر کسی اجلاس میں از راہِ کرم تمام ممبران اکٹھے ہو بھی جائیں تو کسی بات پر متفق نہیں ہوتے، شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سوچ رکھا ہے کہ جب کسی بات پر اتفاق ہی نہیں کرنا تو پھر اکٹھے ہونے والے تکلف کی ضرورت ہی کیا ہے؟ گزشتہ دنوں ختم ہونے والے اجلاس میں بھی پنجاب اور سندھ کے وزرائے تعلیم نے تشریف لانا ضروری خیال نہیں کیا۔ نہ جانے یہ وزراء کس بات سے خوفزدہ ہیں، وزیر مملکت تو شریف آدمی ہیں، ان کی کسی بات کے گراں گزرنے کے امکانات زیادہ قوی نہیں، اگر ان کی کسی بات کو زیادہ قابلِ اعتراض قرار بھی دیا گیا تو وہ یہی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے قائدین کی تعریف اور ان کے ویژن کے ذکر پر جذباتی ہو کر زمین آسمان کے قلابے ملانے لگیں، آخر اتنا تو اِن کا فرض ہے ۔

اگرچہ وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت وغیرہ نے قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ نصاب میں شامل کرنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے، ناظرہ قرآن کے ساتھ ترجمہ کے ساتھ پڑھائے جانے کا عمل قابلِ تحسین ہے، وقت کی بہت اہم ضرورت بھی، مگر بات یہاں بھی عمل کی آجاتی ہے۔ دیگر معاملات میں بھی موصوف صوبائی وزرائے تعلیم کا دل نرم کرنے کے لئے انہیں بتاتے ہیں کہ بھائی پورے ملک میں تعلیمی نصاب کو یکساں کرنے کے لیے آپ کی صوبائی خود مختاری پر کوئی حرف نہیں آئے گا، صوبائی یا مقامی ہیروز آپ کے اپنے اپنے ہی ہونگے، زبان، ثقافت اور رہن سہن وغیرہ بھی اپنے صوبائی نصاب میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ مگر صوبائی حکومتیں ہیں کہ ماننے کا نام نہیں لیتیں، کسی ایک بات پر اکٹھی نہیں ہوتیں۔ صوبائی خود مختاری دیتے وقت تعلیم کے محکمے کو صوبوں کے حوالے کرنے کا یہ بڑا نقصان ہوا ہے، اس کا ایک بہتر حل یہی ہے کہ کسی نئی آئینی ترمیم کے موقع پر کم از کم تعلیم کو مرکزی وزارت بنا دیا جائے، اور اس کا قلمدان بے شک کسی طاقتور وزیر کے سپرد کر دیا جائے، تاکہ پورے ملک کی سوچ تو یکساں ہو سکے۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 426932 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.