ٓآزادی اظہار کے نام پہ فتنہ گری

وقت کے ساتھ بدلتے معاشرے یقیناً نئے رنگ ڈھنگ اختیار کرتے چلے جاتے ہیں،اس حوالے سے معاشی، معاشرتی نظریات بھی تبدیلی سے دوچار ہوتے ہیں،عصر حاضر میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے ارتقاء نے زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب کو جنم دیا ہے۔جمہوری رویوں، آزادی اظہار رائے، رواداری، انسانی حقوق کے حوالے سے زیادہ شعور پیدا ہوا ہے۔دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہونے سے افکار ونظریات نہایت تیزی کے ساتھ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتے ہیں۔لیکن ابھی تک ایسا ضابطہ اخلاق طے کرنا باقی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ان برکات کو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال میں لایا جاتا ہے یا اسے انسانی معاشروں کی اخلاقی، معاشی، جسمانی اور روحانی، ماحولیاتی وغیرہ کی تباہی و بربادی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

دنیا میں اس وقت دو طرح کے معاشرے موجود ہیں ایک کا تعلق سائنس اور ٹیکنالوجی کی تخلیق سے ہے اور دوسرا معاشرہ اپنی معاشی وسیاسی پسماندگی کی وجہ سے اس کا صرف کنزیومر ہے یعنی خریدار ہے ۔ بدقسمتی سے یہ دونوں معاشرے ابھی تک ایسے کسی ضابطہ اخلاق کے تعین میں کامیاب نہیں ہو سکے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے ساتھ سرمایہ دار طبقے کے معاشی مفادات جڑے ہوئے ہیں لہذا اس سرمایہ دار طبقے کے نزدیک انسانوں کی فلاح سے کہیں زیادہ اس کے معاشی و اقتصادی مفادات افضل ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ بھی صرف خریدار اور آپریٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔اب خاص طور پہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ جڑے ہوئے تمام پہلوؤں کو ہم نے استعمال کرنا تو شروع کر دیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ جہاں سے یہ امپورٹ ہو رہی ہے وہاں کی خرابیوں کو بھی ہمارے معاشرے میں امپورٹ کیا جا رہا ہے، ہمارے ارباب اختیار نے کوئی ایسا ضابطہ کار نہیں بنایا کہ اس انفارمیشن ٹیکنالوجی کی یلغار سے معاشرے میں پڑنے والے بد اثرات کا تدارک کیسے کیا جائے،اور اس کے ثمرات سے کیسے استفادہ کیا جائے؟۔بلکہ پوری قوم کو عالمی سطح پہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے معاشی و سیاسی استحصال کرنے والی کمپنیوں اور اداروں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

ایک ایسی قوم جو کہ تعلیمی، معاشی اور سیاسی طور پہ انتہائی پسماندگی کا شکار ہے، اسے ان میدانوں میں آگے لے جانے کی بجائے، بھوک و افلاس، بے انصافی، صحت و صفائی اور تعلیمی مسائل سے نکالنے کی بجائے، اسے عقائد و نظریات کے ایسی بحثوں کے اندر الجھا دیا گیا جس سے بلاگز، ویب ساٹیس اور دیگر سوشل میڈیا کے چینلز کو تو فروغ مل رہا ہے اور ان کے معاشی مفادات کی تکمیل تو ہو رہی ہے لیکن اس کے ساتھ معاشرے کے اندر ایک نظریاتی انتشار و افتراق اور بے چینی پیدا ہو رہی ہے۔اس بے چینی کی اصل وجہ وہ بہروپئے ہیں جو کہ آزادی اظہار رائے، ترقی پسندی، لبرل ازم کی آڑ میں مختلف سطح کے سوشل میڈیاز پہ بیٹھ کر روز و شب کبھی کسی کے عقیدے کو تضحیک کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں، یا کسی شخصیت کی ذات پہ کیچڑ اچھال رہے ہوتے ہیں۔گذشتہ دنوں لاپتہ ہونے والے حضرات کا تعلق بھی ایک ایسے ہی ٹولے سے ہے، جو نہ صرف وطن عزیز میں بسنے والے کروڑوں لوگوں کی دل آزاری میں مصروف تھے بلکہ اگر ان کی شئیر یا لکھی جانے والی دشنام طرازیوں کا اگر تجزیہ کیا جائے تو دنیا میں بسنے والے اربوں مسلمانوں کی دل آزاری کا باعث ہیں۔کیا یہ لبرل ازم ہے؟ کہ آپ دوسرے انسانوں کے عقائد پہ کیچڑ اچھالیں اور ان پہ ہتک آمیز تحریریں شائع کریں۔کیا سیکولر ازم اس کانام ہے؟ کہ دوسروں کے نظریات و افکار و عقائد کو نفرت انگیز طریقے سے ان پہ طعن وتشنیع کریں، ان کی محترم و مقدس شخصیات کے کردار پہ کیچڑ اچھالیں۔ کیا ترقی پسندی اس کا نام ہے؟ کہ آپ معاشرے کے اندر اجتماعیت اور رواداری کی بجائے نفرت اور عداوت کو پروان چڑھائیں۔

اگر ان کے کرتوتوں کابلا تعصب تجزیہ کیا جائے تو یقیناًیہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نہ ہی ان کا تعلق لبرل ازم سے یا سیکولر ازم سے ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کے ساتھ ان کا کوئی لینا دینا ہے بلکہ ان کا تعلق اس عالمی سطح پہ کام کرنے والے اس ٹولے سے ہے جن کا کام پوری دنیا کے معاشروں میں انتشار و افتراق پیدا کرنا، پوری دنیا کے معاشروں میں اس طرح کی گندگی موجود ہے، لیکن ان تمام معاشروں کی اکثریت نے انہیں دھتکارا ہوا ہے، اگر آپ یورپ اور امریکہ کا تجزیہ کریں تو اس طرح کے لوگوں کو جو میڈیا میں بیٹھ کر دوسروں کی دل آزاری کرتے ہیں انہیں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔بلکہ ان معاشروں کی اکثریت اس اصول پہ جیتی ہے کہ’’اپنے عقیدے کو سلامت رکھو اور دوسرے کے عقیدے کو مت چھیڑو‘‘ جو حقیقی معنوں میں سیکولر ازم ہے۔

لیکن اس کے بر عکس یہ ٹولہ جس طرح کا کردار ادا کر رہا ہے،اس کا دور تک بھی سیکولر ازم سے کوئی لینا دینا نہیں، بلکہ یہ ایسے نظریاتی دہشت گرد ہیں جو لوگوں کو ذہنی اذیت دے کر تشدد کے مرتکب ہوتے ہیں۔کیا انسانوں کو ذہنی اذیت دینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں؟ایسے افراد کے لئے سخت تادیبی قوانین کا ہونا ضروری ہے، جو معاشرے کو اس ذہنی اذیت اور افتراق و انتشار پیدا کرنے سے باز رکھیں، اورمعاشرے کو ایسے جرائم سے پاک کریں۔

یہ نظریاتی گندگی سے لپٹا ہوا ٹولہ جو اپنے آپ کو ترقی پسند اور انسانی حقوق کا چمپئین کہتا ہے ان کی پشت پناہی عالمی سطح پہ موجود ادارے کرتے ہیں، جو انہیں’’انسانی حقوق‘‘ اور ’’آزادی اظہار رائے‘‘کے نام پہ تحفظ دینے کی کوشش کرتے ہیں،اس میں مخصوص میڈیا گروپس، خاص این جی اوز اور ادارے شامل ہیں جنہیں سامراجی کمپنیوں اورحکومتوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ جو کہ ان ٹولوں سے اپنے سیاسی مقاصد پورے کرواتے ہیں، مثلاً سب سے پہلے انہیں سوشل میڈیا یا دیگر میڈیا چینلز میں متعارف کروایا جاتا، پھر خاص طور پہ مذہب اور مذہبی محترم شخصیات کے خلاف مختلف قسم کی گالی گلوچ اور تضحیک کا سلسلہ شروع کروایا جاتا ہے، ایک وقت ایسا آتا ہے کہ پبلک میں بے چینی شروع ہو جاتی ہے، اور پھر حکومتوں کو ان کے خلاف ایکشن لینے پہ مجبور ہونا پڑتا ہے ،جب ان کی گرفتاری عمل میں آتی ہے یا ان کے عمل پہ پابندی لگائی جاتی ہے تو پھر فوراً ہی وہ عالمی ادارے اورحکومتیں حرکت میں آ جاتی ہیں اور اس ملک اور قوم کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے نام پہ بلیک میل کیا جاتا ہے۔اس طرح کا طریقہ واردات عام ہے۔یہ بلاگرز یا صحافی جن سے یہ کام لیا جاتا ہے انہیں راتوں رات حقوق انسانی کا کارکن اور چیمپئین بنا کر پیش کیا جاتا ہے، باقاعدہ انہیں معاشی اور اخلاقی مدد فراہم کی جاتی ہے، اور ترقی پسندی اور آزادی اظہار رائے کی آڑ میں انہیں ریاستی اداروں کے خلاف بھی کیچڑ اچھالنے اور پروپیگنڈا کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

لیکن یہی مغربی ادارے اور ملکی حکام کبھی کسی گروپ کو جو کسی ’’بھینسے‘‘’’موچی‘‘ کے نام پہ سوشل میڈیا پہ ’’ہولو کاسٹ‘‘، ’’جیزز،بائبل ‘‘یا’’ تالمود‘‘ کی تضحیک کرے،تو اس کا کیا حشر کریں گے؟؟؟کیا انہیں آزادی اظہار رائے کی بنیاد پہ ہیرو بنا کر پیش کریں گے،کیا ان کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو انسانی حقوق کا دشمن قرار دیں گے؟ جیسا کہ وہ ہمارے معاشرے میں ہمارے پیارے نبیﷺ کی ذات پہ اور اسلامی عقائد پہ کیچڑ اچھالنے والوں کو قرار دیتے ہیں؟یہ طرز عمل حقیقت میں نہ صرف منافقت ہے بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا جا رہا ہے۔اس قسم کے ہتھکنڈوں کے ذریعے وہ نہ صرف ایک ترقی پسند مذہب اسلام اور دنیائے انسانیت کے لئے ایک عظیم تر اعلیٰ کردار رکھنے والی ہستی پیغمبر اسلام ﷺ کی ذات کو بدنام کرنے کی مذموم حرکت ہے۔یقیناً علمی یا نظریاتی اختلافات رکھنا ایک انسانی حق ہے،لیکن کسی کی تحقیر کرنا کسی بھی صورت میں کسی بھی مذہب، قانون، اور سماج میں جائز نہیں سمجھا جاتا۔

اس طرح کے ٹولوں سے اس وقت دو طرح کے کام لئے جا رہے ہیں ایک تو ہے’’ آزادی اظہار رائے‘‘ کے نام پہ مذہبی عقائد کو نشانہ بنانا اور دوسرا انسانی حقوق کے نام پہ سیاسی مقاصد کا حصول۔جیسا کہ ہمارے ملک میں سیاسی و معاشی عدم استحکام پیدا کرنے اور خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو روکنے کے لئے دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والی عالمی ایجنسیاں متحرک ہیں، ان کا سب سے اہم شکار بلوچستان ہے ۔جہاں کئی دہائیوں سے ایسے گروپوں کو مضبوط کیا گیا جنہوں نے قتل و غارت اور دہشت گردی کا طویل سلسلہ شروع کئے رکھا ہے۔ریاست کے خلاف ان کومسلح و منظم کر کے کھڑا کیا گیا اور دوسری طرف انسانی حقوق کے نام پہ ایسی این جو اوز اور میڈیا گروپس ، بلاگرزکو ریاست کے خلاف پرو پیگنڈے پہ لگا دیا گیا۔اس طرح اس عالمی سامراجی ایجنڈے کو تکمیل تک پہنچانے کی حکمت عملی پہ کام جاری ہے، لیکن اس ساری حکمت عملی کے خلاف ریاستی حکمت عملی خاصی کامیاب ہو چکی ہے، ریاستی ادارے جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی حفاظت کریں وہ اپنا کام انتہائی کامیابی سے سر انجام دے رہے ہیں۔اور ایسے عناصر سے بلوچستان کو صاف کر رہے ہیں جو دہشت گردی میں ملوث ہیں۔آئے دنوں یہ خبریں سننے کو مل رہی ہیں کہ جو لوگ اس سازش کا شکار ہوئے اب تائب ہو کر ہتھیار ڈال رہے ہیں اور ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لئے سماجی دھارے میں شامل ہو رہے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ عالمی سطح پہ گمشدہ لوگوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے جنہیں اٹھا کر’’ گوانتا نابوبے‘‘ میں امریکہ،عراق اور افغانستان کی جیلوں میں رکھا گیا اور ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا گیا اور کیا جا رہا ہے ان کے خلاف تو اس نام نہاد ٹولے کو اس قدر متحرک نہیں دیکھا جتنا ان کو بلوچستان کی فکر کھائے جا رہی ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ جوں جوں سی پیک کا منصوبہ بلوچستان میں کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے ان عالمی اور ملکی نام نہاد انسانی حقوق کے دہشت گردوں کو بلوچستان کی فکر زیادہ کھائے جا رہی ہے۔ نام نہاد ترقی پسندٹولے کوزیادہ سے زیادہ متحرک ہے کیا جا رہا ہے۔اور آزادی اظہار رائے اور انسانی حقوق کے چیمپئن کے طور پہ پیش کیا جا رہا ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ٹولے کا ہر سطح پہ بھر پور محاسبہ کیا جائے، ان کے ایسے اقدام جو حقیقی معنوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے کی بنیاد پہ انہیں قانون کے تحت سخت سے سخت سزا دی جائے۔اور ان کے ایسے کسی بھی اقدام پہ پابندی لگائی جائے جس سے معاشرے میں انتشار و افتراق پیدا ہونے کا خطرہ ہو یا ریاست کو کمزور کرنے کا باعث ہو۔اور دوسری طرف ریاستی اداروں اور حکومتوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ حقیقی معنوں میں پانچوں صوبوں کے حقیقی عوامی مسائل پہ توجہ دیں اور بہتر انداز سے حل کرنے کا میکنزم بنائیں،تاکہ ایسے فتنوں کو معاشرے میں جگہ بنانے کا موقع نہ مل سکے-
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 134579 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More