سکول میں خود کشی!

 اُس کو خود کشی کئے چار روز گزر چکے ہیں، خبر ایک ہی روز اخبار میں آئی اور ٹی وی چینلز نے دکھائی ، ممکن ہے کسی نے اگلے روز بھی اس کے کچھ بقایا جات چلا دیئے ہوں، مگر بظاہر یہ کوئی بڑی خبر نہیں بن سکی۔ ہوتا بھی کیوں کہ خود کشیاں اور حادثات ہوتے رہتے ہیں، اور ان کی خبریں وقت کی گرد تلے دب کر دنیا کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔ ایک نجی سکول میں سکول پہنچتے ہی ایک پندرہ سالہ لڑکے نے اپنے ہی چھوٹے بھائی کو ایک خط دیا کہ وہ سو تک گنتی گن کر خط پرنسپل صاحب کو دے آئے، چھوٹے بھائی نے جاتے ہوئے گنتی ابھی پچاس تک ہی گنی تھی، کہ کلاس روم میں گولی چلنے کی آواز آئی، سب لوگ دوڑے، لڑکے نے اپنے پیٹ میں گولی مار لی تھی، وہ اس روز گھر سے اپنے والد صاحب کا ریوالور لایا تھا۔بعد میں خط سے معلوم ہوا کہ وہ اپنے ہی سکول کی ایک ٹیچر کے عشق میں مبتلا تھا، اس نے حالات ساز گار نہ پائے تو مزید جینے کو اس نے بے کار جانا اور اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ ٹی وی ، اخبارات نے خبر دی، مگر اگلے ہی روز جانا کہ بس ایک دن کی خبر کافی ہے، اس خبر کی ان کی نگاہ میں اتنی ہی اہمیت تھی۔

چینلز ہوں یا اخبارات، کس قسم کی خبر کو کتنی اہمیت اور کووریج ملنی چاہیے، اس کا دارومدار اخبارات کی پالیسی پر ہے، ہر ادارے کی اپنی ترجیح ہے، اور یہ راز کسی سے پوشیدہ نہیں کہ کم از کم چینلز کو تو ’’ریٹنگ‘‘ کی بیماری لاحق ہے، انہوں نے وہی کرنا ہے، جس سے ان کی ریٹنگ ’’شوٹ ‘‘کر جائے، اور اگلے چند روز میں کوئی ادارہ اپنے سروے کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتائے کہ فلاں چینل سب سے زیادہ دیکھا گیا، یا فلاں ایشو کو ناظرین میں زیادہ پذیرائی ملی۔ اسلام آباد کے قریب ترنول کے ایک نجی سکول میں ہونے والی اس خود کشی کو زیادہ کوریج کیوں نہیں ملی؟ یہ نہیں کہ اس میں سکول کی بدنامی تھی، اس لئے چینلز نے رحم کر دیا، یا یہ کہ اس خبر سے نئے نئے انکشافات نہیں ہونے تھے، اس لئے اسے اہمیت نہیں دی گئی۔ ایسی بہت سی خبریں بہت دنوں تک زیر بحث آتی رہتی ہیں، چینلز ہر پہلو سے ان پر نظر ڈالتے ہیں، پیکیجز بناتے ہیں، جہاں ظلم یا مظلومیت کی کہانی ہو ، وہاں جذبات کو بھڑکانے کا اہتمام بھی کر لیا جاتا ہے، یہ نشریاتی ادارے کمزور اور مظلوم کی آواز بھی بن جاتے ہیں، کسی بھی من پسند خبر کو ہر پہلو سے نمایاں کر کے لوگوں کو دکھایا جاتا ہے۔ ہمارا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اس خبر کو بہت زیادہ نمایاں کرکے سکول کی بدنامی کا بندوبست کیا جاتا، یقینا سکولوں پر اس قسم کے واقعات کے اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں۔

یہی خبر اگر خود کشی سے پہلے منظر پر آجاتی تو بھی بہت سی تنظیمیں اور افراد میدان میں اتر آتے اور اس ظالم سماج کا مکروہ اور سیاہ چہرہ قوم کے سامنے بے نقاب کردیتے جو دو دلوں کو باہم ملنے کی راہ میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ کون سا دن جاتا ہے جب اخبارات میں ایسے جوڑوں کی تصویریں موجود نہیں ہوتیں، کہ ہم نے شادی کر لی ہے، والدین دشمن بن گئے ہیں۔ بعض اوقات لڑکی کے بھائی حد سے زیادہ جذباتی ہو جاتے ہیں، اورجوڑی میں سے دونوں یا پھر ایک کو صفحہ ہستی سے مٹاکر اپنی غیرت کو آسودگی بہم پہنچاتے ہیں ۔ اب بھی خدانخواستہ یہی کام کوئی اور کردیتا تو یہ ایک بڑی خبر بن جاتی، غیرت کے قتل پر قاتل نے جیل تو جانا ہی تھا، اسے انسانی حقوق کا سب سے بڑا دشمن بھی قرار دیا جاتا، وہ ایک عرصہ تک لکھنے والوں کی تنقید کا نشانہ بھی بنتا۔ اب خبر میں کچھ نہیں، معاملہ بھی یکطرفہ لگتا ہے۔ مگر اب ضرورت اس امر کی تھی کہ کچھ اربابِ اختیار سر جوڑتے، کچھ دانشورانِ ملت غور کرتے، کچھ محکمہ تعلیم سوچتا، کچھ معاشرے کے سنجیدہ طبقہ کے لوگ ، کچھ سماجی تنظیمیں آخر کوئی تو سوچتا کہ ایسے واقعات کی نوبت کیوں آتی ہے؟ آخر ایک پندرہ سالہ لڑکا اس انتہائی مقام تک کیسے پہنچ گیا؟ ہم تعلیم اور تربیت کے ضمن میں انہیں کیا سکھا رہے ہیں؟ مخلوط ماحول میں نوجوان کیا کچھ سوچتے ہیں اور کیا کچھ کر سکتے ہیں؟ اگر تعلیمی اداروں میں بھی خود کشیاں اور نشہ کی لعنت عام ہو رہی ہے تو اس کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ نصاب میں، کچھ تربیت میں، کچھ قانون میں، کچھ سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427141 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.