سماحۃالشیخ سلیم اللہ خان الموقر سے میرا تعلق

وہ جامعہ فاروقیہ کراچی کے بانی ،رئیس اور شیخ الحدیث تھے،وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور اتحادِ تنظیماتِ مدارس دینیہ پاکستان کے بھی صدر تھے،حضرتِ اقدس کی زیارت اس فقیر کو اس وقت نصیب ہوئی ،جب ہم ابھی دس سال کے تھے،ہمارے والدِ مرحوم ہی حضرت کی خدمت میں داخلہ کیلئے جامعہ فاروقیہ کراچی لے گئے تھے،یہ شاید 79یا80 کی بات ہے۔میں اسی وقت سے حضرت کی خدمت میں گھر کے مہمان خانے میں جانے لگا،کئی بار مجھے یاد ہے، مہمانوں کے لئے حضرت کے دولتکدے سے کھانے پینے کی اشیاء دفترِ جامعہ بھی لانا میرا کام تھا، اس وقت دفتر گھر کے قریب تھا،حالیہ مین گیٹ کی جگہ حضرت کا مکان تھا،جس کا ایک دروازہ روڈ کی طرف اور دوسرا جامعہ کی جانب محرابِ مسجد سے دو چار گز مغرب کی سمت میں تھا۔

ایک بار حضرت مولانا عبد المجید ندیم شاہ صاحبؒ تشریف لائے تھے،میں ان کے لئے ناشتہ لایا،حضرتِ اقدس نے اپنے مبارک ہاتھوں سے ڈبل روٹی پیس پر مکھن یاجیلی لگاکے مجھے اس کے کھانے اور تہ کرکے پکڑنے کا طریقہ ارشاد فرماکر عنایت فرمایا،طریقہ اس لئے بتایاکہ میں نے اسے جس انداز سے لیا،وہ ادب ونفاست کے بالکل خلاف تھا،چائے بھی ساتھ تھی،میں اس دن بڑے ٖفخرسے اپنے حجرے کے ساتھیوں اور کلاس فیلوز کو بتاتارہا،کہ حضرت اقدس نے مجھے اپنے مبارک ہاتھوں سے ناشتہ کرایاہے،حضرت والوں کے یہاں پردے کا سختی سےاہتمام ہے،اس لئے ہم اور ہماری طرح دیگر بچے اگرگھر کے لئے کچھ لاتے یاگھر دینے جاتے،تو دروازے کے پاس سے رکھی ہوئی چیز اٹھالاتے اور باہر سے لایاہواسامان دروازے میں رکھ کر بیل بجادیتے۔

کئی بار حضرت کے ساتھ مین بازار شاہ فیصل سے گھرکاسامان بھی لانے کا موقع ملا،حضرت کے برادرِ خورد قطبِ زماں حضرت مولانا عبد القیوم خاں صاحب مرحوم ومغفورکو تو بہت سے ساتھیوں نے سودا سلف خود خریدتے اور لاتے ہوئے دیکھا ہوگا،مگر بڑے حضرت کو کم یا بالکل نہیں دیکھا ہوگا۔

جس وقت میرے بابا مرحوم جامعہ میں داخلے کے واسطے مجھے لے گئے تھے،اُس و قت حضرتِ اقدس اپنے گھر سے جامعہ کے صحن میں تشریف لاتے ہوئے نمودار ہوئے ،تو میرے بابا کو کسی نے بتایا،وہ رہےبڑے مولانا صاب،میرےبابا میرا ہاتھ پکڑے حضرتِ اقدس کی طرف بڑھے،دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا،میں نے بھی حضرت سے ہاتھ ملایا،اُس وقت کاسیاہ ڈاڑھی اور جالی دار ٹوپی والا وہ چمکتا دمکتا مسکراتا چہرۂ انور میری آنکھ کے کیمرے نے جس طرح کیچ اپ کیاتھا،وہ آج تک میرے دماغ کے نہاں خانوں میں محفوظ ہے۔وہ عجیب روح افزادور تھا،جدید جامع مسجد فاروقی کے علاوہ جامعہ کی عمارتیں کچی اور بوسیدہ تھیں، مگر حضرت شیخ صاحب خود ،نیز حضرت مولانا عنایۃ اللہ خان شہید،حضرت مفتی نظام الدین شامزئی شہید،حضرت مولانا محمد یوسف کشمیری ،حضرت مولانا محمد انور ،حضرت مولانا سید حمید الرحمن شہید،حضرت مفتی محمد اقبال شہید،حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان ،حضرت مولانا عبید اللہ خالد اور حضرت مولانا عبدالرزاق سب ہی تروتازہ،توانا اور شبابی قوت وطاقت سے معمور ومنوّر تھے۔

اب توہم بھی دادا،نانا بننے کے بعد بڑھاپے سے بغلگیر ہیں اور متعدد بیماریوں سے رشتے ناتے قائم کئے ہوئے ہیں،متنبی کا مشہور جوانی والے اشعار اپنے آپ کو دلاسہ کےلئے دہراتے رہتے ہیں،ورنہ ہمیں معلوم کہ جوانی میں بھی ہم کوئی تیر نہ مارسکے تھے،پرمذکورۃ الصدر نفوسِ قدسیہ کے کیاکہنے،کاش کسی کو جامعہ کے ان مشائخ کا وہ دورِ شباب ورعنائی یاد ہو،وہی صحیح طرح سےاُن رونقوں کا اندازہ کر سکے گا،بہر حال جامعہ تو پھر بھی روبترقی ہے،اللہ کرے یہ چمن تاقیامت یوں ہی لہلہاتارہے اور رہے گا ان شاء اللہ،رہی بات ہمارے حضرت کی تووہ آج تک بھی الحمد للہ قوت نظریہ وفکریہ کے اعتبار سے یکدم نوجوان تھے، باری تعالیٰ اُ ن کے فرمودات و فیوضات کوچہار دانگِ عالم میں پھیلائے،اللہم آمین یا رب ّالعالمین۔

حضرۃالشیخ سے میرا تعلق ہمہ جہتی ہے،شاگردانہ تو ہے ہی،اصلاح وارشادکا ارتباط رسمی ہو یا غیر رسمی اتنا ہے کہ حضرت کی اولادِ کرام کے بعد شاید وباید اتنا تعلق کسی کا بھی ہو۔نیز حضرت اقدس کے ابناء،احفاد اور اعزہ سے بھی یہی رشتہ بہت مضبوط ہے،ویسے حضرت کی شخصیت اس حوالے سے جامع ہے،جن لوگوں نے حضرت کے یہاں زانوئے تلمذ تہ کیا ہے،وہ لامحالہ حضرت سے اصلاح وارشاد میں بھی کسبِ فیض کرتے رہے،گویا حضرت ان کے شیخ ،استاذ ومعلم ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے پیر ومرشد بھی ہوئے،پھرحضرت چونکہ ایک عبقری اورنابغۂ روزگار معلم ومدرس ہیں،لہذا مرید بن کر آنے والوں نے حضرت سے علوم ومعارف بھی ضرور سیکھے،اس لئے وہ ان کے استاذ بھی ہوئے،کیونکہ حضرت جیسی شخصیت میں تعلیم وارشاد ہمیشہ کے لئے جُڑے ہوئے تھے،ہاں بعض حضرات ایسے ہوتےہیں،جن کے یہاں صرف تدریس ہی اول وآخر سب کچھ ہے،یا پھر کچھ کے یہاں پیری مریدی ہی سب کچھ ہے۔پر حضرتِ اقدس کے متقید تلامذہ ہی کیا،جنہوں نے حضرت سے صرف سند حدیث لی ،یا حضرت نے ان کی دستارِ فضیلت بندھوائی،وہ سب جہاں حضرت کی شاگردی میں آتے ہیں،وہاں حضرت ہی ان کے لئے سب سے بڑے مرشد ومربی بھی ہیں،اسی طرح جس جس نے حضرت سے اصلاح وارشاد کا تعلق قائم کیا،وہ خود بخود حضرت کے تلامذہ کی صف میں آگئے۔یہ اور بات ہے کہ اس قانون کو ہر جگہ منطبق نہیں کیا جاسکتا،البتہ حضرۃ الشیخ ارشاد وتعلیم کی جن چوٹیوں پر ہیں،وہاں سے افادہ واستفادہ من الجانبین بالارادہ وبلاارادہ دونوں طرح کا ہی ہے،پھر ایسا کون ہوسکتاہے،جو حضرت سے پڑھے اور ان سے استرشاد نہ کرے،نیز ایسا بھی کوئی ہوسکتا ہے جو حضرت کے پاس استرشاد کی غرض سے تو آئے، لیکن آپ کےعالی شان علمی مقام سے نا اشنا رہ کر اس طرف اس کا ذہن نہ جائے۔خلاصہ یہ کہ حضرۃ الشیخ اپنے بہت بڑے علمی ،عملی اور رہبری کے مقام کی وجہ سےتلامذہ کے مرشد اور مسترشدین کے معلم واستاذ تھے۔

ہم عمرے کے سفر میں تھے،رات گھر پہنچے، تھکاؤٹ بہت تھی،تو موبائل وغیرہ بند کرکے سوگئے،رات عشاء کے بعد حضرت کے انتقال کی خبر عام ہوچکی تھی ،مگر ہمیں پیر کےدن صبح سویرے پتہ چلا، اللہ تعالی کا شکر ہے جنازے میں شریک ہوئے،باری تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل نصیب سے نوازے۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 814445 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More