جھوٹ کے پاؤں ہوتے ہیں اور بہت سارے ہوتے ہیں!!

ذہن خرافاتی ہو گیا ہے لوگ نہ جانے دوغلے کیوں ہیں ؟معیار زندگی میں اپنی اور دوسروں کی ذات میں تضاد کیوں ہے؟یا وہ زیادہ با شعور ہیں اور زندگی جینا سیکھ چکے ہیں سب کچھ ایسے نظر آتا ہے جیسے ہم الٹے لٹک رہے ہوں !بچپن سے اب تک کتابوں میں پڑھا جھوٹ گناہ کبیرہ ہے سود حرام ہے غیبت کرنا ایسا ہے جیسے اپنے سگے بھائی کا کچا گوشت چبانا لیکن وہ کتابوں میں لکھا سب جھوٹ لگتا ہے ۔ماں باپ اوراستاد بھی جھوٹے تھے جو صاف من والے بچوں کو ایسا سبق پڑھاتے تھے جس کا زندگی گزارنے سے دور دور تک کوئی رشتہ نہ ہو ۔ہر طرف جھوٹ کی شان بڑی ہے اور سچ کہیں روپوش ہے جیسے کوئی مخمل کی چادر اوڑھے کانٹے دار پودوں کے باغ سے گزر رہا ہو اور کبھی دائیں تو کبھی بائیں اپنا پلّو بچاتا پھرتا ہو ۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب میں نے گھر میں رکھا ایک گلدان توڑا اور جھوٹ کہا کہ میں نے نہیں توڑا لیکن جب جھوٹ پکڑا گیا تو سزا ملی لیکن اب تو جھوٹ پکڑا بھی نہیں جاتا ۔پکڑا بھی کیسے جائے کسی کے ہاتھ تو آتا نہیں جب بھی آتا ہے بس رکتا ہے اور پھر بھاگ جاتا ہے جیسے اب عملی زندگی میں آکر اساتذہ کا جھوٹ پکڑا گیاتو اساتذہ ہی نہیں موجود ،عوامی نمائندے آتے ہیں ووٹ مانگنے اور جھوٹ کا پہاڑ کھڑا کر دیتے ہیں لیکن جب وہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو بعد میں نظر تک نہیں آتے ،ملنا پسند نہیں کرتے ۔۔ویسے تو عوام یہ سوچتی ہے کہ وہ اب بڑا آدمی ہو گیا ہے ہمیں کیوں ملے گا!! لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ان کا اب سامنا نہیں کر سکتا کیونکہ اس نے وہ وعدہ وفا نہیں کیا جو اس نے کیا تھا ۔۔۔کوئی اسے جھوٹا کہے کتنی شرم کی بات ہے !جیسے ایک نصاب میں لکھاہے کہ سو د حرام ہے لیکن جب ہم اعلیٰ تعلیم کا نصاب پڑھتے ہیں اور بینکاری کی تعلیم حاصل کرتے ہیں تو پہلے جو پڑھا سب جھوٹ لگتا ہے ۔۔۔جیسے وزیر اعظم پوری قوم سے خطاب کرتے ہیں کہ میں نے اپنے اثاثے جس طرح سے بنائے ان کی تفصیل یہ ہے !!لیکن جب انکا جھوٹ سامنے آتا ہے تو وہ یہ کہ کر نکل جاتے ہیں کہ عوام کے سامنے تو محض ایک سیاسی بیان تھا۔۔۔ قرآن کی قسمیں کھانے والوں پر اعتبار نہیں ۔۔۔لیکن جو بیس کروڑ عوام کے سامنے جھوٹ بول رہا ہے اس پر یقین بے پناہ ہے ؟؟؟؟جھوٹ بولنے والے پر اﷲ کی لعنت ہوتی ہے!! لیکن اب تو کسی کی شکل بھی نہیں بگڑتی تو جھوٹ کیسے پکڑا جائے ؟؟ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے اتنے جھوٹ بولے جاتے ہیں کہ پہاڑ کھڑا کر دیا جا تا ہے جس کے پیچھے سالوں سچ کھڑا چیخیں مارتا مارتا مر جاتا ہے۔۔۔۔ ملک میں محکمہ پولیس اور عدالتیں عدل و انصاف قائم کرنے والے ادارے ہیں لیکن ایک نے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔۔۔۔ تو۔۔ ۔ دوسرا ثبوت مانگتا ہے !جو شخص جرم کرتا ہے اسکی کوشش یہ ہوتی ہے کہ چاہے اس نے قتل ہی کیوں نہ کر دیا ہو لیکن ایک لمحہ نہ گزرے اور کسی طرح اس کی جان بخشی ہو جائے ۔۔۔اور۔۔۔ اگر کسی کا ایک روپیہ بھی چوری ہو جائے تو وہ چاہے گا کہ ایک لمحہ نہ گزرے اور چوری کرنے والے کو جان سے ہی مار دے۔۔۔۔ اسی دھکم پیل اور لفظوں کی کھینچا تانی میں اس ڈھٹائی سے جھوٹ بولے جاتے ہیں کہ دیکھتے دیکھتے ہتھیلی پر سرسوں جما دی جاتی ہے۔۔۔ ۔ملک میں اس وقت اسی طرح کی ایک لڑائی چل رہی ہے جس میں جھوٹ کا سہارا لے کر اداروں کا معیار بھی خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اداروں کا معیار بھی کیا۔۔۔۔کہ لوگ انصاف اور احتساب جیسے الفاظ سے عاری ہو جائیں ؟؟جاوید ہاشمی کہتے ہیں کہ عدالتی مارشل لاء لگانے کی کوشش کی گئی کتنی بڑی کوشش کی گئی سب کو پتہ ہے !عدالتی بنچ پر اعتراض ہے کہ یہ پراپیگنڈہ ہے اور تو اور ہمارے ملک کا بڑا میڈیا بھی اس میں کافی حد تک شامل ہے جس کا حق تو یہ تھا کہ عوام تک سچ پہنچائے۔۔ چاہے جو بھی ہو لیکن اب وہ عوام کو ٹرک کی اسی بتی کے پیچھے لگاتے ہیں جو پٹھان جھوٹ کا بھرا لیکر جا رہا ہوتا ہے ۔ حیف صد حیف کہ جھوٹ کا بول بالا ہے اور سچ پکڑے جانے کے ڈر سے کہیں پسِ پشت سہما پڑا ہے ۔۔۔ادارے روز روز نہیں بنتے اور جمہوری حکومتیں تو مانند موسم ہیں اس لئے یا تو اداروں کو چاہئے کہ وہ تاریخ میں پاکستان کا نام روشن کریں کیونکہ راقمِ تاریخ رقم کر رہا ہے کتابوں میں جو لکھا وہ ہمیشہ رہتا ہے آج پاکستان کی عزت و آبرو اور عالمی دنیا میں ساکھ اداروں کے ہاتھ میں ہے وہ عدل و انصاف کے معیار کو قائم کر کے پاکستان کا امیج مثبت انداز میں پیش کرتے ہیں یا منفی اثرات میں سب ان کے عملی اقدامات پر منحصر ہے ۔قانون سب کیلئے یکساں ہے اور ہم اسلامی جمہوریہ میں رہتے ہیں جہاں تمام وہ گناہ جو شریعی مناسبت سے قابل سزا ہیں کی سزا ہونی چاہئے جھوٹ اخلاقی جرم تو ہے ہی لیکن جھوٹ چونکہ ایک گناہ کبیرہ بھی ہے اسی لئے اسکی سزا بھی سزائے موت کے جیسی ہونی چاہئے ۔اگر اس بار ایسا نہ ہو ا تو قلم قبیلہ کو اپنے وطن کی عزت بہت پیاری ہے پھر وہ سارے نصابوں کو جھوٹ لکھیں گے جو آج اس ملک میں رائج ہیں ۔ہمارے معاشرے میں اس وقت حقیقت میں جو نظام چل رہا ہے اس میں چور اچکا چوہدری ہے اور غنڈی عورت شہزادی ہے انصاف کی تو بات کہاں ! ہر طرف پیسے کی جے جے کار ہے اسلام کی بات کرنے والے کو دہشتگرد جبکہ معاشرہ برباد کرنے والی برائیوں کو ترقی کہا جا رہا ہے اور اس ترقی کے خلاف بولنے والے کو پاگل قدامت پسند تصور کیا جاتا ہے ۔سنا تھا جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے یہاں پہ جھوٹ اتنی تیز دوڑتا ہے کہ اس کی گرد کو بھی نہیں پکڑا جا سکتا ۔علم اس لئے حاصل کیا جاتا تھا کہ انسان میں شعور اور اخلاقی تربیت پیدا ہو لیکن ہمارے معاشرے میں اس وقت تعلیم کا واحد مقصد نوکری ہے تو ایسے حالات میں ایسی قوم صرف بد تہذیب نوکر ہی پیدا کر سکتی ہے کوئی محمد بن قاسم یا ٹیپو سلطان نہیں !
Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 165654 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More