ہم بھی پاگل ،تم بھی پاگل

گوجرانوالہ میڈیکل کالج کی ساتویں سالگرہ پر منعقدہ تقریب کالج کی انتظامیہ پر بہت سے سوالات کو چھوڑ کر چلی گئی جب گوجرانوالہ میڈیکل کالج میں تعینات بائیو کیمسٹری کی سینئر استاد ڈاکٹر عظمیٰ نے وزیر صحت کی آمد سے قبل کالج کی سالگرہ کے موقع پر منعقد کی گئی تقریب میں ہلچل ہی تو مچادی ، محترمہ یکدم نمودار ہوئیں اور مائیک پر آکر پرنسپل میڈیکل کالج پروفیسر آفتاب محسن کی شان میں’’قصیدے‘‘ پڑھنے شروع کر دیئے ۔۔۔ انتظامیہ میں بھگدڑ مچ گئی ۔۔۔ پھر اچانک چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔۔۔۔مائک بند لائٹیں بند ۔۔وزیر موصوف کی آمد بھی منسوخ ہو گئی ، خاتون نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو بھی گالیاں دیں اورکالج انتظامیہ سے بازپرس نہ کرنے پر اپنے شدید غصے کا اظہار کرتی چلی گئیں، یہ یہ سارامنظر میڈیا کے کیمروں نے محفوظ کر لیا۔۔۔کالج انتظامیہ کی جانب سے ڈاکٹر صاحبہ کو دماغی مریضہ قرار دے دیا گیا ہے ۔۔۔ محترمہ پاگل تھیں مگر ان کے پاس پاگل ہونے کا کوئی’’ لائسنس‘‘ نہیں ہے، اگر ایسا ہی تھا تو وہ یہاں پڑھا کیوں رہی تھیں۔۔۔ لائسنسی پاگل اور بغیر لائسنسی پاگل میں ویسے بھی بڑا فرق ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر عظمیٰ کو ہر چھ ماہ بعد اچانک یہ دورہ پڑتا ہے ۔۔ یہ سوال اپنی جگہ رہتا ہے وہ چھ ماہ آج وزیر کی آمد پر ہی پور ے ہونے تھے کہ اتنا کڑاکے دار دورہ پڑ گیا ۔ڈاکٹر عظمیٰ نے جن صاحب کی’’ تعریف و توصیف ‘کے لئے پروٹوکول اور نوکری کی ساری ’’زنجیریں‘‘توڑ کر پروگرام کا ستیاناس کیا ان کی شہرت ہے کہ وہ بڑے ’’دل والے ‘‘ ہیں اورانہوں نے شادیاں بھی دل کھول کے کر رکھی ہیں اور شاید جی بھرنے تک کرتے ہی چلے جائیں گے ۔۔۔(زیادہ شادیاں بھی ویسے پاگل پن ہی کی ایک علامت ہے ورنہ توگھر بھر کا سکون برباد کرنے کے لئے صرف ایک ہی خاتون کی خدمات عمر بھر کے لئے کافی ہوتی ہیں) معلوم کرنے پر پتا چلا ہے کہ گوجرانوالہ میڈیکل کالج میں اچھے اچھوں کو پاگل کر دینے والی کئی خوبیاں موجود ہیں ،پرنسپل کی’’ تعریف ‘‘کے علاوہ تقریب کی ایک اور خاص بات سٹوڈنٹس کی وہ عشقیہ گفتگو تھی جسے سن کر کئی شرکا ء کے سر شرم سے جھک گئے کیونکہ والدین کی اکثریت نے بچیوں کو وہاں ہیر رانجھا نہیں بلکہ ڈاکٹر بنانے بھیج رکھا تھا۔یہ بات شاید پرنسپل صاحب کو معلوم نہیں تھی۔گوجرانوالہ میڈیکل کالج میں ویسے بھی خواتین کا عمل دخل زیادہ ہے ،لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں زیادہ تعداد میں ڈاکٹر بن رہی ہیں،وہاں اس قسم کے ’’عورت پسند ‘‘ پرنسپل کی تعیناتی ویسے بھی خطرے سے خالی نہیں،واقفان حال یہ بھی کہتے ہیں کہ موصوف نے یہاں بطور پرنسپل اتنی ذمہ داری سے کام کیا ہے کہاایک ڈاکٹر صاحب تو اپنی بیوی کی گمشدگی کی درخواست لئے مارے مارے پھرتے رہے ہیں ، پھریہاں تک کہ وہ انکی بیوی ہی نہ رہی ۔۔۔دن دیہاڑے میڈیکل کالج سے کسی ڈاکٹر کی ڈاکٹر بیوی غائب ہو جائے ،ہے نا پاگل کر دینے والی بات ۔۔۔۔؟ میڈیکل کالج میں پروفیسر ز کی آمد کی امید باندھنے کوبھی پاگل پن ہی سے تعبیر کیا جاتا ہے، میڈیکل کالج میں لاکھوں روپے ماہانہ پر تعینات پروفیسر ز صرف اس لئے روز اپنی ڈیوٹی پر گوجرانوالہ نہیں آتے کیونکہ ادارے کے سربراہ خود بھی یہ زحمت ہفتے میں ایک دو دن ہی گوارہ کرتے ہیں۔ہاسٹل کی وارڈن کی’’ خوش لباسی ‘‘بھی پاگل کر دینے والی ہے ،انکی تقرری کن خدمات کے لئے کی گئی ہے اور ان کا لباس دیکھ کر کالج کی بچیاں کیا تاثر لیتی ہوں گی سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ میڈیکل کالج کی ’’ گمشدہ ‘‘ ڈاکٹر بینش رانجھا 6ماہ سے اپنی ڈیوٹی سے غائب ہیں انہیں تنخواہ اور دیگر مراعات کیوں دی جا رہی ہیں؟ یہ سوال بھی پاگل کر دینے والا ہی ہے۔

ڈاکٹر عظمیٰ پہلے سے پاگل تھی یا اسے میڈیکل کالج کے حالات نے پاگل کر دیا ہے۔۔۔؟یقین سے کہنا مشکل ہے ۔۔ کیونکہ یہاں میڈیکل کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ’’ میں تیرے پیار میں پاگل ‘ ‘بھی خوب چل رہا ہے ،پرنسپل صاحب کالج چلا رہے ہیں پاگل خانہ یا پھر کچھ اور ۔۔۔۔۔ اسکا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گالیکن اپنا دورہ منسوخ کر دینے کی بجائے ڈاکٹر عظمیٰ کے’’ پاگل پن‘‘ کی’’ تحقیقات‘‘ کے لئے وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق کو لازمی آنا چاہئے تھا، سنا ہے پرنسپل نے ڈاکٹر عظمیٰ کو الگ بٹھاکر کافی’’ سمجھایا بجھایا‘‘ ہے،کسی ممکنہ انکوائری سے پہلے کی تیاری اچھی ہوتی ہے ۔۔۔ پرنسپل صاحب خود’’ دل کے مریض ‘‘ہیں ،اس مرض میں تو بادشاہوں کی سلطنتیں بھی لٹ جاتی ہیں ۔۔۔میڈیکل کالج تو ویسے بھی انکے باپ دادا کی کمائی کا نہیں بنا۔۔۔۔یہ عوام کے خون پسینے کی ٹیکس کی کمائی سے چلتا ہے ، عوام کا یہ پیسہ کسی دل پھینک پروفیسرکی عیاشیوں کے لئے ہرگز نہیں ہے۔۔ اس قیمتی اثاثے کو یوں نہ لٹائیں ۔۔۔کبھی گوجرانوالہ میں میڈیکل کالج کے قیام کی بات کرنا بھی’’ پاگل پن‘‘ تھاکسی جنونی اور’’ پاگل ‘‘وزیر اعلیٰ نے گوجرانوالہ میں میڈیکل کالج بنا ہی دیا ہے تو اسے اپنی عیاشیوں کے اڈے میں تبدیل نہ کریں ۔ ڈاکٹر عظمیٰ اور ان جیسے نہ جانے کتنے بغیر لائسنسی پاگل ہمارے معاشرے میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔ ان میں ہم جیسے لکھنے والے بھی شامل ہیں ،جنہیں اروپ تھانہ میں لٹی خاتون کے بارے میں زنا ء بالرضا کی انوکھی منطق پیش کرنے والے پولیس کے سپہ سالار، ،سڑکوں اور گلیوں سے کوڑا اٹھاکر گوندلانوالہ گاؤں میں پھینکوانے جیسے معمولی کام پر مامور افسران کی آٹھ آٹھ لاکھ تنخواہوں،7ایکڑ کے ڈی سی ہاؤس میں بیٹھ کر عوامی مفاد کے دفاتر،سکولوں کے لئے سرکاری اراضی دستیاب نہ ہونے کا رونا رونے والے افسروں ،ہیپاٹائیٹس پروگرام میں کروڑوں کے بجٹ کو’’ ٹیکے ‘‘لگانے والوں کی قابلیت ،فرض شناسی اور دیانتداری کے قصوں،کارپوریشن میں تعیناتی کے لئے کرپٹ مافیا کے اثرورسوخ اور لوٹ مار کی کہانیوں نے سچ مچ میں دیوانہ ہی تو کر دیا ہے ۔۔۔ دوسری طرف صاحبان اختیار بھی اپنی طاقت کے گھمنڈ اور نشے میں پاگل ہیں ہو کر دولت اور جسم کی ہوس لئے سانڈ بنے ہوئے ہیں ،جسم ادھیڑ ادھیڑ کر پھینک رہے ہیں دس دس ہاتھوں سے قوم کی متاع کو لوٹ رہے ہیں ۔۔۔مگر انکی بھوک نہیں مٹ رہی، یہ تماشا صبح و شام جاری ہے۔۔ کچھ عجب نہیں کہ ہم جلنے کڑھنے ۔۔۔روز جینے اور روز مرنے والے بغیر لائسنسی پاگل ان دولت اور ہوس والوں کے خلاف سینے پیٹتے ہوئے کسی دن سڑکوں پر نکل آئیں، اپنے سر وں کا ایک ایک بال اپنے ہاتھوں سے نوچ ڈالیں اور ان بڑے بڑے افسران کے گھروں کی دیواروں سے سر پٹختے ہو ئے لہو لہان ہو کر چیختے چلاتے جائیں
ہم بھی پاگل تم بھی پاگل
ہم بھی پاگل تم بھی پاگل
Faisal Farooq
About the Author: Faisal Farooq Read More Articles by Faisal Farooq: 107 Articles with 66750 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.