سی پیک کی تکمیل سے بربادی لازمی ہے

لیجئے جناب کالم کے عنوان سے ہی بادی النظر میں قاری یقین شدید الجھن کا شکار ہوگئے ہوں گے۔ میں معذرت چاہتا ہوں اگر کسی کے جذبات کو ٹھیس لگی ہو، بات دراصل یہ ہے کہ چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور کے نام سے جو منصوبہ صرف پاکستان اور چین کے درمیان طے پایا تھا اس منصوبے کی افادیت اور دور رس ممکنہ معاشی اہداف کے پیش نظر دنیا کے کئی دیگر ممالک نے بھی اس منصوبے میں اپنی گہری دلچسپی ظاہر کی ہے، جس سے ملک عزیز کے کھلے اور چھپے دشمنان کی نیندیں اچاٹ ہوگئیں ہیں اور وہ جان گئے ہیں کہ ’’سی پیک کی تکمیل سے بربادی لازمی ہے ‘ ‘ تعصبات، نفرتوں اور پاکستان کو تنہا کرنے کی دشمنوں کی ساری کوششں کی۔

سی پیک منصوبے کی بروقت تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ مذکورہ منصوبے کو دشمنوں کی چالوں سے لازمی بچائیں اور باہمی تعاون کے ذریعے ملک میں بسنے والے مختلف صوبائی و گروہی تعصبات کو پس پشت ڈال کر اس منصوبے کی افادیت کے پیش نظر تمام صوبوں کے تحفظات کو اصولی طور پر دور کیا جائے اور تمام سیاسی جماعتوں سے ہاتھ جوڑ کر یہ درخواست کی جائے کہ خدارا پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے سیاسی میدان میں خون گرما دینے والے معرکے بے شک برپا کرتے رہئے مگر پاکستان کی وسیع تر مفاد میں اس منصوبے میں غیر ضروری سیاسی اسکورنگ سے بازرہا جائے۔

ہم سب کو یہ حقیقت لازمی تسلیم کرنی ہوگی کہ پاکستان پے درپے نئے دوراہوں پر کھڑا ہوتا ہے اور ہم نادانستگی میں اپنے صوبائی، گروہی، سیاسی تعصبات کے ذریعے ملک عزیز کی ترقی و خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ بنتے آرہے ہیں چاہے وہ کالا باغ ڈیم کا مسئلہ ہو یا دوسروں کی جنگ میں اپنی قوم کا مستقبل برباد کرنا جس سے ملک عزیز میں اسلحہ کلچر، ہیروئن کلچر ، بوٹی کلچر، سفارش کلچر اور لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔

ٓٓآخر کیا بات ہے کہ سی پیک پر ہندوستان اتنا خوفزدہ ہے ، ساری دنیا جانتی ہے اور ہم پاکستانی بھی اس منصوبے سے بہت خوش ہیں مگر حقیقت بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ہم سب گوادر کو سی پیک سمجھتے ہیں جبکہ درحقیقت گوادر سی پیک کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ایک ملک چین جس کی دو اعشاریہ پانچ ٹریلین ڈالر کی جی ڈی پی ہے اور ہمارے ملک پاکستان کی جی ڈی پی کوئی ڈھائی سو بلین ڈالر کے قریب ہے، ایک ارب سے زیادہ کی انڈیا کی آبادی ہے جبکہ پاکستان کی آبادی قریبا 20کروڑ سے کچھ زیادہ ہے، تو آخر کیا وجہ ہے کہ سی پیک منصوبے سے انڈیا کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں ۔ بات دراصل یہ ہے کہ سی پیک میں ایک پورٹ ہے جسے ہم گوادر کہتے ہیں۔ ایک پورٹ کو ہمیشہ تین وجوہات کی بنا پر اہمیت حاصل ہوتی جس میں سے پہلی وجہ اس پورٹ کی گہرائی دوسری اس کی برتھ کی تعداد اور تیسری لیبر کاسٹ ہوتی ہے۔ ہمارے ریجن میں سب سے مشہور پورٹ جبل علی کی گہرائی کوئی 9 میٹر ہے، بندر عباس ایران کی گہرائی بھی 9 میٹر ہے، دمام کے پورٹ کی گہرائی بھی 9 میٹر ہے ، دوہا قطر کے پورٹ کی گہرائی 11 میٹر ہے، اومان سلالہ کے پورٹ کی گہرائی 10 میٹر ہے، چابہار جو کہ بڑی مشہور ہورہی ہے جسے ایران اور انڈیا مل کر بنا رہے ہیں اس کی گہرائی 11 میٹر ہے اب ذرا غور کریں کہ گوادر پورٹ کی گہرائی 18 میٹر ہے اب خود سوچئے کہ جبل علی جب اتنی اہمیت اختیار کر سکتا ہے اور گلف کی معیشت کو انقلابی ترقی دلوا سکتا ہے اپنی صرف 9 میٹر گہری پورٹ سے ، تو قابل توجہ بات ے کہ گوادارکی 18 میٹر کی گہرائی کس قدر کلیدی اہمیت کی حامل ہوگی۔ دوسری وجہ کو ڈسکس کرتے ہیں کہ مختلف پورٹس پر برتھ کی مجموعی تعداد کتنی ہیں تو توجہ فرمائے درج ذیل پورٹس اور ان پر برتھ کی تعداد:

جبل علی 67
بندر علی 24
دمام 39
دوھا 29
اوما سلالہ 19
چابہار 10
گوادر 120

چائنہ کی معیشت کا انحصار آئل پر منحصر ہے چین ایک روز میں 10.3ملین بیریل استعمال کرتا ہے یعنی کہ 3700ملین بیرل سالانہ، جس میں سے وہ زیادہ تر امپورٹ کرتا ہے ، چائنا کی پچاس فیصد سے زیادہ امپورٹ مڈل ایسٹ سے یعنی جبل علی، سلالہ وغیرہ سے ہوتی ہے اس کا مطلب ہے کہ چائنا 400ملین ڈالر روزانہ کی بنیاد پر آئل امپورٹ کرتا ہے جس کا سیدھا مطلب ہے کہ اپنی قومی امپورٹ یعنی پچاس فیصد کا 80فیصد اسی راستے سے کرتا ہے جو کہ مالکا اسٹیٹ کے سمندری راستے سے ہوتی ہیں ، یہ آئل چین کے شہر شنگھائی پہنچنے کے لئے قریب کوئی سوا تین مہینے کا سفر کرتی ہے، زرا سوچئے کہ سوا تین مہینے میں اس مد میں آمدورفت پر اخراجات کس قدر کثیر ہوجاتے ہونگے، اب جب یہی امپورٹ گوادر پورٹ کے راستے سے ہوگی تو چین میں امپورٹڈ آئل ایک مہینے سے بھی کم وقت میں اپنی منزل پر پہنچ جائے گا۔ جس کا منطقی نتیجہ یہی نکلنا ہے جس کا فیصلہ چین نے نہایت سمجھداری سے کیا ہے کہ گوادر کا راستہ چین کے بہترین معاشی مفادات میں سے ایک ہوگا۔ اب جب چین اپنی ضروریات کے لئے آئل کی امپورٹ کے ٹوٹل 100فیصد میں سے صرف پچاس فیصد بھی گوادر پورٹ سے شروع کرے گا تو پاکستان کے راستے 200ملین ڈالرز روزانہ کا آئل گوادار پورٹ کے راستے جائے گا چنانچہ آئل کی سالانہ امپورٹ جس کا حجم قریب کوئی 70بلین ڈالرز ہے اس کا پچاس فیصد پاکستان کے راستے سے جائے گا تو قریب کوئی 30بلین ڈالرز سے بھی زیادہ قیمت کا آئل پاکستان کے راستے جائے گا جس کے نتیجے میں جہاں چین کو بے انتہا فوائد حاصل ہونگے تو پاکستان جس کی راہداری استعمال ہورہی ہے وہاں کیونکر پاکستان اپنے فوائد نہ حاصل کرسکے گا، چنانچہ راہداری محصولات کے ساتھ ساتھ راہداری کے تمام راستوں پر آمدورفت کے لئے بین الاقوامی سطح کی سڑکیں اور راستے بنائے جائیں گے اور جہاں جہاں سے یہ راہداری یا روڈز گزریں گے وہاں معاشی خوشحالی کا پہیہ خوب چلے گا اور لازمی طور پر ان تمام چیزوں کا مجموعی فائد پاکستان کو حاصل ہوگا جس سے دشمنان پاکستان کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے ہیں اور وہ ان سازشوں میں مصروف ہیں کہ پاکستان کو کس طرح اس منصوبے سے روک دیا جائے ۔

چین نے سی پیک سے بھی بڑا ایک پچیس سالہ منصوبہ ایران کے ساتھ شروع کیا ہے جس منصوبے کی مالیت 600بلین ڈالرز سے بھی زائد ہے اس منصوبے کا نام ہے OBORون بیلٹ ون روڈ۔ OBOR کے ذریعے چائنا کے جنگ جیانگ صوبے کے ذریعے چالیس ممالک کو منسلک کردیا جائے گا جس میں پاکستان بھی آتا ہے ۔ اب زرا غور کریں کہ اگلے دس سال میں ان چالیس ممالک کی ٹوٹل آمدنی 2.5ٹریلین ڈالر ہوجائے گی جس کے پاکستان پر بھی بہت مثبت نتائج ہوں گے۔

اس مسلمہ حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سیاسی مہم جوئیوں سے کسی بھی ملک کے معاشی خطرات بڑھ جاتے ہیں ، آزاد جموں و کشمیر بھی سی پیک کا حصہ ہے وہاں کوہالہ میں 1100 میگا واٹ بجلی کا کا پروجیکٹ لگ رہا ہے، نیلم جہلم میں 990میگا واٹ بجلی کا پروجیکٹ لگ رہا ہے، ، گلگت بلتستان کے راستے تیرا سو کلومیٹر کی روڈ بن رہی ہے۔ انڈیا کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر میں انوناچل پردیش ہے وہاں چین کسی طور کوئی پروجیکٹ لگانے پر تیار نہیں اب وہاں کے مجبور و محکوم کشمیری بھی سوچیں گے کہ ہم پر ہندوستانی مظالم ہیں اور 13سو کلو میٹر کی روڈ پاکستان میں بن رہی ہے۔ 2.5ٹریلین ڈالرز کی ٹریڈ کا حصہ بھی پاکستان، آزاد جموں و کشمیر بنتا جارہا ہے ۔

انڈیا کی کئی ریاستوں میں بہت بڑے مسائل ہیں جیسے آسام میں ، جموں کشمیر میں ، خالصتان تحریکیں، تامل ٹائیگرز وغیرہ جن سے انڈیا کی معیشت پر کافی منفی اثرات پیدا ہوتے ہیں۔ انڈیا میں 31بلین ڈالرز براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری سے آتے ہیں اور انڈیا کا خسارہ 1.3ٹریلین ڈالرز کا ہے ، انڈیا کو معاشی ترقی کے لئے فارن ڈائرکٹ انوسنٹ لازمی چاہیئے مگر گزشتہ کئی بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق انڈیا سرمایہ کاری کے لئے اتنا موزوں نہیں رہا۔ اب جب چین سمیت ہم ان چالیس ممالک کا معاشی حصہ بن جائیں گے تو ہمارے ملک کو بھی 2.5ٹریلین ڈالر ز کی معیشت سے ترقی کے وسیع تر مواقع حاصل ہوجائیں گے اور ہماری معاشی ترقی بالفرض کم از کم سات فیصد کے حساب سے بھی گروتھ کرے گی تو اگلے دس برسوں میں قریبا کوئی 500 سے 600بلین ڈالرز سالانہ ہماری معیشت میں آئیں گے اور دس سے پندرہ سالوں میں ہم ٹریلین ڈالرز کے قریب پہنچ جائیں گے چنانچہ معاشی ترقی اور ان چالیس ممالک کے ساتھ ورکنگ ریلیشن کے باعث ہم ایک محفوظ ، باوقار اور ترقی پسند معاشی منصوبے کا حصہ بن جائیں گے جس کے بعد دشمنوں کا ہم پر ہاتھ صاف کرنا تو دور کی بات سوچنا بھی ممکن نہیں ہوگا کیونکہ معاشی ترقی سے ممالک کی حیثیت بڑھ جاتی ہے جن کی مثالوں میں امریکہ، چین، جاپان، انگلینڈ، جرمنی فرانس وغیرہ ہیں۔

بدقسمتی سے ہماری قومی ترقی و خوشحالی روکنے میں جہاں کارگر وار دشمنوں نے کئے ہیں وہیں ہمارے اندرونی اختلافات، خلفشار، نااتفاقی اور تعصبات نے بھی ہماری قومی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں بوئے گئے بیجوں کو خوب پانی دیا ہے جن سے ہمارے قلب اور ادغان میں غیر محسوس طور پر گروہی اور صوبائی نفرتوں کی جڑیں مضبوط ہوتی چلی گئیں ہیں ہم سب ایک دوسرے کی طرف شک و شبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ پنجاب یہ کر رہا ہے، سندھ وہ کر رہا ہے، خیبر پختونخواہ میں ایسا کیوں ہورہا ہے بلوچستان میں ویسا کیوں ہورہا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے ملک و قومی کی باوقار ترقی اور خوشحالی کی راہ میں حائل مزید کسی سازش کو کسی طور کامیاب نہ ہونے دیا جائے جس کے لئے لازم ہے کہ اپنے فروعی اختلافات کلی طور پر بھلا کر ملک وقوم پر رحم کرتے ہوئے اقوام عالم میں ایک باوقار قوم کی حیثیت حاصل کرنے کی کوششیں کی جائیں تاکہ تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں یہ الزام نہ دے سکیں کہ انہیں اس ملک نے دیا ہی کیا ہے۔ مگر بلاشبہ اس کے لئے شیخ چلی کے منصوبے کافی نہیں ہونگے بلکہ ہمیں باہمی اتحاد، یگانگت ، الفت اور درگزر کے انسانی جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے قائد کے وژن کے مطابق محنت اور صرف انتھک محنت کے ساتھ اتحاد، یقین اور نظم و ضبط کے آفاقی اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے دنیا پر یہ واضع کرنا ہوگا کہ ہاں جناب !بالکل صحیح بات ہے کہ پاکستان اپنے بے پناہ وسائل اور افرادی قوت سے کماحقہ فوائد حاصل نہ کرسکا مگر اب پاکستان انشاء اللہ ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہونے جارہا ہے ۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ آمین

اس مضمون میں میر محمد علی خان صاحب کے نکات پر میں ان کا بے حد مشکور و ممنون ہوں۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 493836 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.