ناغہ ضروری ہے

نارووال میں مستحقین کو ایک لاکھ ساٹھ ہزار صحت کارڈز کی تقسیم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم صاحب نے کہا کہ منگل اور بدھ کو تو گوشت کا بھی ناغہ ہوتا ہے مگر بعض سیاستدان بِلاناغہ جھوٹ بولتے ہیں اور روز نیا شوشہ چھوڑتے ہیں ۔ اُن کی دروغ گوئی سُن سُن کر عوام بھی تنگ آ چکے ہیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ اُن کے جھوٹ سُن سُن کر اُنہیں سُننا ہی چھوڑ دیں ۔ جھوٹ کی سیاست پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک ہے ۔ قوم کو خوشحالی کی راہ پر چلنے دیا جائے ۔ جب غلیظ الزامات لگتے ہیں تو سوچتا ہوں کہ یہ کیسے لوگ ہیں ۔

وزیرِاعظم صاحب نے جو کچھ کہا ، وہ بالکل بجا لیکن اُنہیں کپتان کا وہ نعرہ تو یاد ہی ہو گا کہ’’ میاں جی ہُن جان دیو ، ساڈی واری آن دیو‘‘۔ اگر بات ناغے کی چل نکلی ہے تو پھر کپتان سچ کہتا ہے کہ میاں برادران بھی اگر حکمرانی میں ایک آدھ ناغہ کر لیں تو حرج ہی کیا ہے ۔ آخر کپتان کا بھی تو کوئی حق بنتا ہے ۔ کیا وہ ’’ایویں خوامخواہ ‘‘ ہی میوزیکل کنسرٹ سجا سجا کے جہانگیر ترین کی دولت خرچ کرتے رہے ہیں اور حکومت کے مزے لُوٹیں میاں برادران ۔ یہ تو کوئی انصاف نہ ہوا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ عمران خاں احتجاج نہیں چھوڑتے اور میاں برادران حکومت ۔

ویسے جو کچھ نوازلیگ کہہ اور کر رہی ہے اُس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگلی حکومت بھی وہی لے اُڑے گی ۔ شاید یہی خطرہ بھانپ کر آصف زرداری بھی آن دھمکے ہیں اور بقول تحریکِ انصاف وہ اپنی باری لینے آئے ہیں ۔ کئی بزرجمہر تو یہ کہتے بھی پائے گئے کہ جِن لوگوں نے باریاں باندھی ہیں وہ اتنے طاقتور ہیں کہ اب پیپلز پارٹی کو ’’باری‘‘ دے کے رہیں گے ۔ جبکہ دوسری طرف لیگئیے یہ کہتے ہیں کہ بقول آصف زرداری ’’وعدے قُرآن و حدیث نہیں ہوتے ‘‘اِس لیے کون سی باری اور کیسی باری ، کر لو جو کرنا ۔ ہمیں پریشانی صرف اِس بات کی ہے کہ اگر ’’باریوں‘‘ والی بات سچ ہے تو پھر ہمارے کپتان صاحب کا سیاسی مستقبل کیا ہے؟۔ اب تو تھوڑی بہت اُمید ہے تو صرف پاناما لیکس سے ۔ محترم جج صاحبان نوازلیگ کے وکیل سے ’’اَوکھے اَوکھے‘‘ سوال کر رہے ہیں جن کی بدولت سونامیے خوشی سے نہال ہیں لیکن ہمیں شَک ہے کہ فیصلہ نوازلیگ کے حق ہی میں آئے گا کیونکہ تحقیقاتی کمیشن میں بھی نوازلیگ کو ایسے ہی سوالات کا سامنا تھا لیکن نتیجہ آیا تو تحریکِ انصاف چاروں شانے چِت ۔ اب تو ایک ہی صورت باقی بچتی ہے کہ اگر پاناما لیکس میں فیصلہ نوازلیگ کے حق میں آ جاتا ہے تو پھر میاں برادران ملک و قوم کی بہتری کی خاطر حکومت سے دست بردار ہو کر مسندِ اقتدار عمران خاں کے سپرد کر دیں تاکہ وہ بھی تھوڑا آرام کر لیں اور سونامیے بھی سستا لیں ۔ اگر ایسا نہ ہوا تو عمران خاں 2018ء تو کیا 2023ء میں بھی سڑکوں پر ہی دکھائی دیں گے۔

کپتان صاحب کو آزمانے میں حرج ہی کیا ہے ۔ وہ جتنے بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں ، اُن میں سے اگر 10 فیصد پر بھی عمل درآمد ہو گیا تو گارنٹی ہم دیتے ہیں کہ قوم کی تقدیر بدل جائے گی ۔ یہی بات جب ہم نے ایک لیگئیے کو سمجھانے کی کوشش کی تو اُس نے ایک لطیفہ ’’پھڑکا‘‘ دیا ۔ اُس نے کہا کہ ایک بِلّی بہت بھوکی تھی اور چوہے کے بِل سے باہر نکلنے کے انتظار میں سوکھ کر کانٹا ہو رہی تھی لیکن چوہا تھا کہ باہر آنے کو تیار ہی نہیں تھا ۔ آخر کار بلی کو ایک ترکیب سوجھی ۔ اُس نے چوہے سے کہا ’’ بھانجے ! اگر تم اِس بِل سے نکل کر ساتھ والے بِل میں چلے جاؤ تو میں تمہیں پانچ سو روپے دوں گی ‘‘۔ چوہے نے لالچ میں آ کر بِل سے سَر باہر نکالا لیکن پھر فوراََ ہی پیچھے کر لیا ۔ بِلی نے پوچھا ’’بھانجے کیا ہوا؟‘‘۔ چوہا بولا ’’خالہ ! پَینڈا تھوڑا تے پیسے بوتے نے۔۔۔۔ کوئی چکر اے ‘‘( خالہ ! فاصلہ کم اور پیسے زیادہ ہیں ، یقیناََ کوئی چکر ہے)۔ لیگئیے کہتے ہیں کہ جِن تخیلاتی و تصوراتی جہانوں کی کپتان صاحب سَیر کرواتے نظر آتے ہیں ، اوّل تو وہ فی زمانہ ممکن ہی نہیں ، اگر ممکن ہو بھی تو کپتان کے افعال اِس کی گواہی نہیں دیتے ۔ وہ خود تو تین سو کنال کے گھر میں رہتے ہیں اور جہانگیر ترین کے جہاز کے بغیر سفر کرنا پسند نہیں کرتے لیکن بات غریبوں کی کرتے ہیں ۔ ایسا روٹی ، کپڑے اور مکان کا لالچ بھٹو مرحوم نے بھی دیا تھا جو چار عشرے گزرنے کے بعد بھی پیپلزپارٹی پورا نہیں کر سکی ۔ میں نے کہا کہ آپ لوگوں کو تین سو کنال کا گھر تو بہت یاد ہے ، کبھی جاتی اُمرا پر بھی نگاہ دوڑا لیا کرو تو اُس نے رسانت سے جواب دیا ’’ ہم نے کبھی کوئی ایسا دعویٰ نہیں کیا جیسا کپتان صاحب گلی گلی کرتے پھرتے ہیں ۔ ابھی کل ہی اُنہوں نے کہا کہ نیب صرف اُسی صورت میں ہی بدل سکتی ہے ، جب کوئی ایسا وزیرِاعظم آ جائے جس کا دامن داغدار نہ ہو ۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اگر نیب اُن کے سپرد کر دی جائے تو اُسے سیدھا کرکے رکھ دیں گے ۔ گویا گھوم پھِر کے ’’کھوتی بوڑھ تھَلّے‘‘ یعنی اقتدار کپتان صاحب کے سپرد کر دیا جائے تو پھر سَتّے خیراں‘‘۔ اُس لیگئیے کی باتوں سے’’اوازار‘‘ ہو کر ہم نے کھِسک لینے میں ہی عافیت جانی ۔ گھر آ کر ہم نے سوچا کہ اِن لیگیوں کے ساتھ سَر کھپانا محض کارِ بیکار ہے ۔ یہ لوگ سیدھے ہاتھوں حکومت چھوڑنے والے ہیں نہ ناغہ کرنے والے ۔ خود تو دوسروں کوناغے کی تلقین کرتے ہیں لیکن جب اپنی باری آتی ہے تو کھِسک لیتے ہیں۔ اِس لیے اِن سے جان چھڑانے کے بَس دو ہی طریقے ہیں ۔

پہلا یہ کہ پاناما لیکس میں سپریم کورٹ اِن کے خلاف فیصلہ دے دے ، جس کا دور دور تک کوئی امکان نظر دہیں آتا ، اِس لیے ’’نہ پائے رفتن ، نہ جائے ماندن‘‘ کے مصداق دوسرا طریقہ ہی اختیار کرنا پڑے گا جِس کا اعلان کپتان صاحب پہلے ہی کر چکے ہیں ۔ جب پاناما لیکس پر قائم ہونے والے سپریم کورٹ کے بنچ کے سَربراہ محترم جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل 62/63 کی بات نہ کریں ۔ اگر اِس پر عمل درآمد ہو گیا تو سوائے امیرِ جماعت اسلامی سراج الحق کے کوئی باقی نہیں بچے گا ۔ تَب سپریم کورٹ سے باہر نکل کر کپتان نے اعلان کیا کہ آرٹیکل62/63 پر عمل درآمد ہونا چاہیے ، خواہ اُن کے سمیت ساری اسمبلی ہی خالی کیوں نہ ہو جائے ۔ محترم جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تو اگلے ہی دِن اپنے الفاظ واپس لے لیے لیکن بات اُنہوں نے پَتے کی کہی ۔ ہم سوچتے ہیں کہ اگر جماعت اسلامی کی حکومت آجائے اور محترم سراج الحق حکومتی سَربراہ بن جائیں تو کتنا مزہ آئے لیکن اندر بیٹھا شیطان کچوکے مار رہا ہے کہ اگر محترم سراج الحق ملکی سربراہ بن گئے تو پھر سمجھو ’’مُلّا عمر‘‘ کی حکومت لَوٹ آئی ۔ پھر کہاں کا میوزیکل کنسرٹ اور کیسا دھوم دھڑکا ، اِس لیے ’’حاضر سٹاک‘‘ پر ہی گزارا بہتر ہے ۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 863 Articles with 553095 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More