اردو کا مستقبل:امکانات اور اندیشے

اردو ایک طرف بین الاقوامی سطح پر پھیل رہی ہے اور دنیا کے گوشے گوشے میں ادبی تقریبات منعقد ہو رہی ہیں لیکن اصل وطن میں بہت سارے مسائل قائم ہورہے ہیں۔ اس سے بے خبر رہنا خطرناک ہے۔
زبانیں سیاسی حکمرانوں کی طرح اچانک پیدا نہیں ہو تیں اور نہ ختم ہو تی ہیں ۔ یہ جغرافیائی خطوں کی طرح سے لکیروں اور ناموں سے نئے طور پر نہیں پہچانی جاتیں ۔ تاریخ اور تہذیب کے پیچیدہ اور طویل سلسلے کے نتیجے میں کوئی زبان پیدا ہو تی ہے اور اپنے ارتقا کی کڑیا ں طے کرتی ہے۔ اردو نے کم و بیش ایک ہزار برسوں کی تاریخ میں ایسی مشکلیں بار بار جھیلی ہیں اور تاریخ کے جبر سے مقابلہ کر کے اپنے بولنے والوں کے سہارے ایک نئے ماحول میں قدم رکھنے میں ہر بار کامیاب رہی۔ یہ با ت درست کہ عالم کاری کے دور میں زبانوں اور خاص طور سے کلاسیکی اہمیت کی زبانوں کا وجود صبر آزما دور سے گزر رہا ہے۔ اقلیت آبادی اور اس کے زبانوں کے اہل وا ل مشکل ادوار میں پھنسے ہو تے ہیں ۔ لیکن ان اندھیروں ان زبانوں اور ان کے بولنے والوں کے اندر مقابلہ آرائی اور جدّو جہد کی صلاحیتیں پیدا ہو تی ہیں ۔ اردو اس اعتبار سے وقت اور حالات کے تحت خود کو مضبوط اور توانا کر نے میں کامیاب رہی ۔

یہ ایک عام شکایت ہے کہ اردو میں روزگار کے مواقع کم سے کم ترہوتے جارہے ہیں ۔ ایسے سوال خاص طور سے اردو مضمون میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے ہوتے ہیں ۔ یعنی یونی ورسٹیوں میں کم سے کم تقرریاں ہو تی ہیں ایسے میں باقی فارغین کہاں جائیں گے ۔ اور جب انھیں ملازمت نہیں ملے گی تو پھر کیوں کر اردو زبان کو اپنا مضمون بنائیں؟ بات معقول ہو تے ہوے بھی اس وجہ سے ادھوری ہے کہ فزکس اور کمیسٹری پڑھ کر یا ہندی ہندی بنگالی کو آزما کر کسے اور کتنی ملازمتیں مل رہی ہیں ؟ جب آزادانہ مقابلہ جاتی امتحانات میں کامیاب افراد ہی مختلف انداز کی ملازمتوں میں جاتے ہیں تو اردو کے طالب علم کو کس نے اس دوڑ سے باہر کر دیا ؟ آپ اگر عصرِ حاضر کے عمومی تقاضو ں کو نہیں سمجھتے ہیں تو خسارے میں کوئی دوسرا نہیں رہے گا ۔ صلاحیت اور بہترین مہارت سے مقابلہ جیتے جاتے ہیں ۔ یہ کس نے کہہ دیا کہ اردو پڑھنے والے کو جنرل اسٹڈیز سے بے رخی برتنی چاہیے ؟سوال یہ ہے کہ عمومی تعلیم میں مہار ت کے مرحلے میں اردو کس کے لیے رکاوٹ بنی؟ حقیقی بات یہ ہے کہ ہمارے شعبہ ہاے اردو اپنے طلبا کو اسکول کا استاد اور یو نی و ر سٹی میں لکچرر بننے کے علاوہ کچھ دوسرے مواقع کی طرف بھیجنے کے لیے کسی طرح کی کوششیں نہیں کرتے ۔ کیا آئی، اے ،ایس اور پی ، سی ایس امتحانوں کے لیے اردو کے طلبا کو ان کی زبان کامیابی نہیں دلا سکتی ہے ؟ جو اشخاص مستعد ہیں انھیں اعلاٰ ملازمتیں ملتی جارہی ہیں ۔ سوال اپنی طالب علمانا صلاحیتوں کو پہچاننے اور اس پر مشقّت کرنے کا ہے ۔ آج بھی اخبارات ، ٹی وی چینل اور فلم انڈسٹری بہ شمول ٹی وی پرو ڈکشن اتنا بڑا زخیرۂ ملازمت ہے جس کے لیے اردو داں طالب علم ذرا سی مشقّت کرے تو دوسرے لوگوں پر وہ فوقیت حاصل کر سکتا ہے ۔ جہاں جہاں زبان کی تخیلی اور سوتی حسن کی ضرورت ہے ، وہاں اردو کے تعلیم یافتہ افراد کے لیے اچھی خاصی جگہیں موجود ہیں ۔ ٹی وی اسکرین پر ’کھبریں‘اور ’نیوج‘بولتے کردار کسی کو نہیں چاہیے ۔ اردو کا جو اچھا طالب علم ہے ، شاید ہی ایسی کوتاہیاں کرتے ہوے نظر آئے ۔ اس لیے اردو آبادی کے لوگوں کو ان کے تناسب سے زیادہ ان چینلوں میں یا فلموں میں کام ملتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملازمتوں کے ان نئے راستوں کے لیے اردو کے طلبہ کی باضابطہ تربیت کی جائے ۔ یو نی ورسٹیوں کو بالخصوص شعبہ ہاے اردو کو ایسے نصابِ تعلیم وضع کرنے چاہیے جن سے ایسی ملازمتیں آسانی سے حاصل ہو سکتی ہیں ۔ ہمیں مغلیہ عہد کے اس واقعے کو یاد رکھنا چاہیے جب ٹوڈر مل کے زمانے میں محصولیات کی زبان کے طور پر فارسی کا استعما ل شروع ہوا اور دیکھتے دیکھتے آگرہ اور اطراف کے کھتری برہمن پہلی فرصت میں سنسکرت چھوڑ کر فارسی سیکھنے پر آمادہ ہوے اور پلک جھپکٹے وہ ملک کے طول و عرض میں حکومت کے کارندوں کے طور پر پھیل گئے ۔ اسے صحیح معنوں میں پروفیشنلزم کہتے ہیں ۔ آج اردو والوں کو اسے دل میں اتار لینا چاہیے ۔

زبان اور ادب دونوں کو الگ الگ خانے میں رہ کر غور کیا جائے تو ایسا محسوس ہو تا ہے کہ ادب کے مقابلے زبان کے سلسلے سے جس قدر زیادہ کام ہو نا چاہیے ، اس میں کوتاہیاں ہو رہی ہیں۔ اردو کے تعلیمی اداروں اور حکومت کی سر پرستی میں چلنے والی تنظیموں نے زبان کے پھیلانے اور اسے نئے حالات کے تحت کارگر بنانے کی سمت کچھ زیادہ کوششیں نہیں کیں ۔ اس سے مسائل پیدا ہو تے جارہے ہیں آج سے سو اور ڈیڑھ سو برس پہلے جب خواندگی کی شرح براے نام تھی ، اردو کی کتابیں باالعموم تین ہزار اور پانچ ہزار کی تعداد میں شایع ہو تی تھیں ۔ نذیر احمد کا ناول مر ۃ العروس پہلی اشاعت میں تین ہزار کاپیاں شایع ہوا تھا ۔ آبِ حیات دو اور تین ہزار پھر چھ ہزار کر کے ابتدائی دو تین برسوں میں دس ہزار سے اوپر کی تعداد میں شایع ہو ئی تھی۔ آج جب کہ اعداد و شمار یہ واضح کرتھے ہیں کہ اردو پڑھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے لیکن اب اس زمانے کی مشہور کتابیں پانچ سو یا تین سو یا دو سو کاپیوں تک محدود ہیں ۔ رسائل و جرائد کی تعدادِ اشاعت بھی اسی انداز کی ہے ۔ پاکستان میں بھی کتابیں دس ہزار اور پانچ ہزار کی تعداد میں نہیں چھپتیں ۔شاید ہی کوئی رسالہ ہندو پاک میں نظر آئے جس کی تعدادِ اشاعت پانچ ہزار سے زیادہ ہو (ماسوا ادبِ اطفال کے)سوال یہ ہے کہ ہمارے قارئین کہاں کھو گئے ؟ کل کم پڑھنے والے تھے تو ہماری کتابیں زیادہ فروغ ہو تی تھیں اور آج زیادہ پڑھنے والے ہیں تو کم کتابیں شایع ہو تی ہیں ۔ کتابوں کی دوسری تیسری اشاعت کے بارے میں موجودہ دور کے مصنّفیں شاید ہی سوچتے ہوں جنھیں یہ خوش نصیبی حاصل ہوئی ان کا حال بھی یہی ہو گا کہ بیس برس کے بعد کسی کتاب کی دوسری اشاعت کا موقع عطا ہو ۔

کیا اردو میں اچھی کتابیں یا بہترین رسائل شایع نہیں ہو رہے ہیں ؟ کیا ہماری زبان کی صلاحیتیں معدوم ہو گئیں ؟ کیا ہماری زبان کے قارئین کہیں کھو گئے یا دوسری زبانوں نے انھیں کہیں ہم سے چھین تو نہیں لیا تکنیک کے اس زمانے میں تھوڑی دیر کے لیے چھاپے کو نظر انداز کریں اور ان لائن کتابوں کی خریداری یا پڑھنے کے عمل پر غور کریں تو سچائی یہ ہے کہ ہندستان کی کسی بھی یو نی ورسٹی کے شعبۂ اردو نے اپنے طلبہ کے لیے محدود پیمانے پر ہی سہی ، کوئی ای۔ لائبریری نہیں قائم کی ۔ دنیا بھر کے ملکوں میں چھوٹے بڑے ویب سائٹ اردو زبان کے تعلق سے کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن قارئین کی ضرورت اور دنیا کے نئے حالات کے پیشِ نظر ان کی مقدار کو اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی کہنا نا زیبا ہو گی۔ بہت مشکل سے ریختہ نے ایک کار گر اور نئے عہد کے تقاضو ں کو سامنے رکھتے ہوئے کثیر لسانی ویب سائٹ بنایا لیکن اس میں موجود ادبی سرماے کا اردو کے مجموعی سرماے سے مقابلہ کریں تو ہمارا حوصلہ نہیں بڑھتا ۔ اردو کتابوں کا ان لائن کاروبار تقریباً ناپید ہے یا ابھی بالکل ابتدائی مراحل میں ہے ۔ اردو طلبہ کو سامنے رکھ کر سنجیدگی سے ایک بھی ایسی ویب سائٹ نہیں بنائی گئی جس سے مدد لے کر اردو درس و تدریس میں مضبوطی دی جا سکے ۔ ہماری مشہور ڈکشنریوں میں تھوڑی سی ایسی ہیں جنھیں آن لائن پڑھا جا سکے ۔

سوال یہ ہے کہ اگر اردو کو زندہ رہنا ہے تو نئے حالات اور تقاضو ں کے تحت ، قومی اور بین الاقوامی مسائل او ر امکانات کو سمجھتے ہوئے نئی حکمتِ عملی قائم کرنی ہو گی ۔ یہ صرف سرکاروں ، اردو اکادمیوں یا شعبہ ہاے ارد و پر چھوڑ دینے سے کام نہیں چلے گا ۔ان طبقوں نے مل جل کر ہماری زبان کو بہت نیچے پہنچا دیا ہے ۔ ارد و کے مصنّفین اور عام قاری اور شایقین کو اس طرف خاص توجہ کر نی پڑے گی جو جس کام میں ہے ، وہیں سے اپنی مادری زبان کے لیے وابستگی اور عشق و محبت کے پیمانے چھلکائے تو ہزار مسائل اپنے آپ ختم ہو جائیں گے ۔ خواندگی کے سلسلے سے بڑا مشہور انگریزی مقولہ :Each One Teach One کیا یہ اتنا مشکل ہدف ہے جسے ہم آزمانہیں سکتے ؟ کیا اس میں یہ اضافہ نہیں کیا جائے کہ اردو آبادی کے ساتھ ساتھ غیر اردو آبادی سے بھی ایک ایک فرد چن کر اس مہم کا حصّہ بنائے۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی جامع مسجد کا وہ تقریر یاد کیجیے اور اپنے دل میں یہ سوال پیدا کیجیے کہ میر و غالب اور حالی اور شبلی کی کتابیں تو رہ جائیں گی لیکن اگر ان کے پڑھنے والے نہیں ہو ں گے تو کتب خانوں کی الماریوں میں ایک نہ ایک دن کیڑے پڑ جائیں گے او ران کتابوں کا کوئی پڑھنے والا نہیں ہو گا ۔ ہماری نئی نسل جس جس طرح سے اردو زبان اور ادب کی راغب ہو ، اس کی کوششیں عملی طور پر سامنے آنی چاہیے ۔ اگر ہم نے اپنی پچھلی کوتاہیوں سے خود کو آزاد نہ کیا اور نئے خواب اور تصورات کو نیک جذبے کے تحت پوری لگن کے ساتھ تصخیر کرنے کے لیے میدان میں نہ آئے تو اردو کے سلسلے سے اندیشے بڑھیں گے اور مستقبل کی متوقع تابناکی میں خلل پڑے گا ۔ ہمیں فصیلِ وقت کی عبارت کو ہو ش مندی اور دل جمعی کے ساتھ ملاحظہ کرنا چاہیے اور نئی حکمتِ عملی کے ساتھ اپنی مادری زبان کو نئے ماحول کے لیے تیار کرنا چاہیے ۔
Safdar Imam Qadri
About the Author: Safdar Imam Qadri Read More Articles by Safdar Imam Qadri: 50 Articles with 136755 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.