نوٹ بندی کے ساٹھ دن بعد بھی:بجھی بجھی سی یہ باتیں دھواں دھواں لہجہ

بندر ایک دلچسپ جانور ہے ۔ جنگل کے اندر اس کی بے ضرر اچھل کود سے کسی کا نہ کوئی نقصان ہوتا ہے اور نہ فائدہ ۔ اسی بندر کو جب کسی چڑیا گھر میں لاکر رکھ دیا جائے تو تفریح کا سامان بن کر وہ بچوں کا دل بہلاتا ہے ۔ یہ جب کسی مداری کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اس کا تماشہ لگا کر اس سےاپنا پیٹ پالتا ہے اس طرح گویا وہ ایک مفید جانور میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ استرا ایک کارآمد آلہ ہے جس کی مدد سے ماہر حجام کے بندر کو بھی سجا سنوار کر اس طرح انسان نما بنا دیتا ہے کہ ڈارون اس اپنے آباواجداد میں شامل کرلیتا ہے۔حجام کے استرے کو اگر بندر کے حوالے کر دیا جائے تو اس کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جو نوٹ بندی کے بعد وزیراعظم سمیت پوری قوم کا ہوا ہے۔ اس احمقانہ فیصلےنے پورے ملک کی حجامت بنادی ہے۔ اس سے نہ صرف بندر خودزخموں سے چور ہے بلکہ اس نے جنگل کے دیگر جانوروں کو، چڑیا گھر کے زائرین کو اور مداری کے ساتھ ساتھ تماشائیوں کو بھی لہو لہان کردیا ہے۔ نوٹ بندی سے سب سے زیادہ اندر ہی اندر وہ بھکت پریشان ہیں جنہوں نے بڑے ارمانوں کے ساتھ ایک بندر کے ہاتھ میں استرا تھمادیا تھا لیکن کیا کریں سہہ تو سکتے ہیں کہہ نہیں سکتے۔ان بےچاروں کی حالت زار اس شعر میں ملاحظہ فرمائیں ؎
آیا تھا شوق چارہ گری میں کوئی مگر
کچھ اور دل کے زخموں کو گہرائی دے گیا

اچھے دن کا خواب دکھانے والے وزیراعظم نے انتخابی مہم کے دوران ۶۰ماہ یعنی ۵ سالوں کی مدت مانگتے ہوئے گہار لگائی تھی آپ نے کانگریس کو ۶۰ سال دیئے اب مجھے ۶۰ مہینے دیں میں ملک کی تقدیر بدل دوں گا۔اس مدت کار کانصف حصہ گزر چکا ہے۔اس دوران مودی جی نےسب سے پہلے سوچھتاّ ابھیان کے تحت اپنے بھکتوں کو جھاڑو تھما یا اورگائے کی سیوا میں لگا کردنیا بھرکی سیر کیلئے نکل گئے۔ اس سفر میں وہ کسی پڑھے لکھے آدمی کو اپنے ساتھ رکھتے تو ان کا اور ملک کا بھلا ہوتا لیکن ان کے آس پاس تو اڈانی جیسے اناڑی ہی نظر آیا۔ سوئزرلینڈ سے آنے والے ۱۵ لاکھ کو ان کے دستِ راست امیت شاہ نے انتخابی جملہ بازی قرار دے کر مسترد کردیا۔ اس طرح جب مودی کے رام راجیہ کے انٹرویل ا ٓ یا تو باہر کے بجائے اندر کے کالے دھن پر حملہ بولتے ہوئے۵۰۰ اور ۱۰۰۰ کی نوٹ کے خاتمہ کا مضحکہ خیز اعلان کردیا گیا۔

وزیراعظم کے اس اعلان حیرت کن ضرور تھا لیکن ان کے طریقۂ کار کے عین مطابق تھا جس پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کانگریسی رہنما جئے رام رمیش نے کہا تھا کہ اگر مودی جی نے دہلی میں بھی گجرات کی مطلق العنانیت اور تفریق و امتیاز کو جاری رکھا تو ملک پر بہت مشکل دن آئیں گے۔ جئے رام رمیش کی یہ پیشن گوئی حرف بحرف درست ثابت ہوئی اور مودی جی کو اعتراف کرنا پڑا کہ اس سے بھی مشکل دن آنے والے ہیں ۔ اچھے دنوں کی آس میں جینے والوں نے جب مشکل دنوں کی بات سن کر تعجب سے وزیراعظم کی جانب دیکھا تو وہ مسکرا کر بولے یہ مشکل دنکالا دھن رکھنے والوں ، نقلی نوٹ چھاپنے والوں اور دہشت گردوں کے لئے ہوں گے۔ عام آدمی کا اس سے کچھ نہیں بگڑے گا ۔

راہل گاندھی کو اے ٹی ایم کی قطار میں دیکھ مودی نے یہ فقرہ کس دیا کہ لوگ اپنی ماں کے کالے دھن کو اجلا بنانے کیلئے لائن میں لگا دئیے گئے ہیں لیکن دوسرے ہی دن مودی جی کی والدہ بھی بنک کے اندر نظر آئیں اور لوگ سوچنے لگے کہ اگر صرف بدعنوان بنکوں کے چکر کاٹ رہے ہیں ۹۷سالہ ہیرا بین کس کے کالے دھن کی خاطر پریشان ہیں؟ کیجریوال نے مودی جی کی ماتا پرستی پر ٹویٹ کیا’’ ہندو مذہب اورہندوستانی ثقافت کے مطابق آپ کو اپنی ضعیف والدہ اور اپنی شریک حیات کو ساتھ رکھنا چاہیے۔ وزیر اعظم کی رہائش گاہ بہت بڑی ہے، تھوڑا سا دل بھی بڑا کیجئے۔ میں اپنی ماں کے ساتھ رہتا ہوں۔ ان کی دعائیں لیتا ہوں لیکن اس کی تشہیر نہیں کرتا۔ میں ماں کو سیاست کے لئے بینک کی لائن میں بھی نہیں لگاتا‘‘۔

اروند کیجریوال کے طنز و تشنیع سے قطع نظر یہ بات اظہر من الشمس ہےکہ نوٹ بندی کے باوجود بدعنوان ریڈی اور گڈکری نے کروڈوں روپئے خرچ کرکے اپنی اپنی بیٹیوں شادی دھوم دھام سے منعقد کی مگر عام لوگوں سے ان کی زندگی بھر کی چھین کر انہیں خوشی منانےسے محروم کردیا گیا۔ مودی جی نے جیسا بھونڈا مذاق غریبوں کے ساتھ کیا ویسا تو کسی حکمراں نے نہیں کیا ہوگا ۔ انہوں نے کہا آپ جن لوگوں کا لا دھن اپنے نام سے جمع کرائیں اسے واپس نہ کریں ۔ جب غریب دوسروں کا کالا دھن لے کر بنک پہنچے تو دھر لئے گئے بتاو کس کا روپیہ ہے یہ تو سراسر دھوکہ دھڑی ہے اسی لئے شیوسینا کو یہ کہنا پڑا کہ ایسی نااہل حکومت پچھلے دس ہزار سال میں بر سر اقتدارنہیں آئی۔

دوہزار کے نئے نوٹ سے عام لوگ کا کھدرا کیلئے پریشان ہوگئے لیکن نقلی نوٹ بنانے والوں کا دل خوش ہوگیا۔ یہ لال نوٹ تو چہرے ہی سے جعلی لگتی ہےاور پھر اس کو گنتے وقت لعاب دہن کا استعمال کرنے سے ہونٹوں پر مفت میں لالی بھی لگ جاتی ہے۔ نقلی نوٹ بنا نے والوں کی مشکل سرکار نے آسان کردی۔ ویسے بھی آر بی آئی کے مطابق ہندوستان کے اند جعلی نوٹ کل ۵۰۰ کروڈ ہیں ۔ اس عظیم معیشت میں ایک کھٹمل مارنے کیلئے حکومت نے کئی بے قصورلوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جہاں تک دہشت گردی کا سوال ہے جس دن وزیردفاع منوہر پریکر نے اعلان کیا کہ نوٹ بندی کے سبب دہشت گردی کی کمر ٹوٹ گئی ہے اسی دن کشمیر میں بی ایس ایف کیمپ پر حملہ ہوگیا اور ہنوز نہ صرف جموں بلکہ چھتیس گڑھ اور آسام تک میں آئےدن حملے جاری ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے گرفتار ہونے والے عسکریت پسندوں کے پاس نئے دوہزار کے اصلی نوٹ برآمد ہوگئے۔ اس طرح کالے دھن کے علاوہ نقلی نوٹ اور دہشت گردی کے خاتمہ کا دعویٰ بھی کھوکھلا ثابت ہوگیا۔

نوٹ بندی کی آفت سے وزیراعظم خود اپنے آپ کو بھی محفوظ نہیں رکھ سکے ۔پہلی مرتبہ ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے گئے اور یہ سناگیا کہ میرا کیا ہے میں جھولا اٹھا کر چل دوں گا۔ اب لوگ اچھے دنوں کے بجائے اس مبارک دن کا انتظار کرنے لگے ہیں ۔ گوا میں نوٹ بندی کے فوراً بعدمودی جی نےبلک بلک کر کہا تھا ’’میں نے ملک سے صرف پچاس دن مانگے ہیں، ۳۰ دسمبر تک کا وقت دیجیے،اس کے بعد اگر میری کوئی غلطی نکل آئی، غلط ارادے نظر آ جائیں، کوئی کمی رہ جائے تو جس چوراہے پر کھڑا کریں گے اور جو سزا دیں گے اس کو بھگتنے کے لئے تیار ہوں‘‘۔ ۵۰ کے بجائے ۶۰ دن گزر چکے ہیں ۔ غلطیوں اور کمیوں کے انبارمیں دھنسے لوگ ہر چوراہے پر وزیراعظم کو تلاش کررہے ہیں کہیں تو وہ زیڈ پلس سیکیورٹی کے بغیر نظر آجائیں تاکہ وہ اپنے ارمان نکال سکیں اور وزیراعظم ایسے چوراہے ڈھونڈ رہے ہیں جہاں لوگ ان پرہزار اور ۵۰۰ کے نوٹ برساسکیں ۔

اس دوران بھکتوں کی چشم گنہگار نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جب عوام بنک کے باہر لائن میں اور افسر اندر کام کے بوجھ سےتوڑ رہےتھے مودی جی اعلان فرمارہے ہیں ’’وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ وہ مجھے برباد کر دیں گے۔ انہیں جو کرنا ہے، کرنے دیجئے‘‘۔ ایوان پارلیمان سے وزیراعظم منہ چھپاتے پھر رہے ہیں اور پھر عوام میں جاکر ٹسوے بہا رہے ہیں کہ مجھے ایوان میں بولنے سے روک دیا گیا ہے اس لئے میںعوام سے براہ راست رابطہ کررہا ہوں ۔ یہ کیسی کسمپرسی کا عالم ہے کہ ملک کےمنتخب شدہ وزیراعظم پارلیمان میں بولنے سے روک دیا جائے اور باہر آکر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کیلئے مجبور ہوجائے۔ دراصل بات وہ نہیں تھی جو وزیراعظم نے کہی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم ایوان میں دیگر ارکان کے اعتراضات کوسننے اور اس کا جواب دینے کی نہ صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ حوصلہ اس لئے ایوان کی کارروائی کے دوران تو عوامی جلسوں میں تقریر کرتے پھرتے ہیں اور اسی سلسلے کو دراز کرتے ہوئے پارلیمان میں ایک رٹا رٹایا بھاشن دے دینا چاہتے تھے جس سے انہیں بجا طور پرروک دیا گیا ۔ امریکہ کے میڈیسن چوک پر راک اسٹار کی مانند ٹھمکنے والے وزیراعظم کی اس حالت زار پریہ شعرصادق آتاہے کہ ؎
بجھی بجھی سی یہ باتیں دھواں دھواں لہجہ
کسی عذاب میں اندر سے جل رہے ہو کیا؟

وزیراعظم بار بار نوٹ بندی کی مخالفت کو بدعنوانی کی حمایت قرار دے کر عوام کو ورغلا رہے ہیں ۔ اول تو ہندوستان کے کالے دھن کا کل ۳ سے ۵ فیصد حصہ نقد ی کی شکل میں ہے باقی زمین جائیداد اور زیورات وغیرہ میں پوشیدہ ہے۔ اس ۴ فیصد کو باہر نکالنے کیلئے جس مصیبت میں قوم کو گرفتار کیا گیا تو اس میں سے ۹۷ فیصد نوٹ بنک میں واپس لوٹ آئےمطلب ۴ فیصد کا ۳ فیصد یعنیکل کالادھن اگر ۱۰۰ روپیہ تھا تو اس میں سے ۱۲ پیسے باہر رہے اور ۹۹ روپیہ ۸۸ پیسے اجلے ہوکر بنکوں میں جمع ہوگئے۔ دراصل اس فیصلے میں اصل جرم یہ ہے کہ ملک کی معیشت میں ۵۰۰ اور ۱۰۰۰ کے نوٹ کا چلن ۸۶ فیصد تھا۔ ریزرو بنک آف انڈیا جون ۲۰۱۶؁ سے ۲۰۰۰ کی نوٹ چھاپ رہا تھا اور نوٹ بندی کے فیصلے تک وہ صرف ۶ فیصد نوٹ چھاپ سکا تھا ۔ اب اگر کوئی احمق ۸۶ فیصد کو ۶ فیصد سے بدلنے کی جرأت کرڈالے تو اس کا نتیجہ وہی ہوگا جو ہوا۔ آپ ۶ افراد کا کھانا بناکر ۸۶ لوگوں کو دعوت پر بلالیں تو بھگدڑ مچے گی ہی مچے گی اورمیزبان کا وہی حال ہوگا کہ جو وزیراعظم کا ہوا ہے۔

ای معیشت کا نعرہ بلند کرکے ۵۶ انچ کا سینہ پھلانے والی حکومت کیلئے یہ شرمناک بات ہے نوٹ بندی کے بعد ۵۰ویں دن جب وزیرخزانہ اور ریزروبنک سے پوچھا گیا کہ کتنا روپیہ آیا اور کتنا واپس کیا گیا تو دونوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ دراصل مسئلہ اس ۸۰ فیصد کی کھائی کا ہے جس میں یہ حکومت آنکھ بند کر کود گئی ہے اور جسے پاٹنے کی لئے اسے ۵۰ دن کے اندر ۶۲قوانین اور ضابطے وضع کرنے پڑے مگر نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش۔ آئے دن بدلنے والے احکامات نے سرکار کی اعتباریت پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔پٹرول پمپ والوں نے مودی جی کی مانند یکطرفہ اعلان کردیا کہ ۱۵ جنوری سے ڈیبٹ کارڈ نہیں لیا جائیگا اور اس طرح ای معیشت کا خواب اچانک نذرِ آتش ہوگیا۔ اس کے بعد جیٹلی جی آگ بجھانے کیلئے دوڑے اور فیصلہ بدلوادیالیکن یہ فیصلہ نہیں کروا پائے کہ آخر سروس چارج صارف برداشت کرے گا یا پٹرول پمپ کا مالک ، یہ ریفائنری کے حصے میں جائیگا یا اس کا بوجھ سرکار ی خزانے پر پڑے گا؟ کسی نہ کسی کو تو اس بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنی ہی ہوگی ۔

مودی جی کے اقتدار سنبھالنے کےدو ماہ بعد جس موسم باراں کو آنا تھا اس نے منہ پھیر لیا۔ لگاتار ۲ سالوں تک ملک کا بڑاحصہ قحط زدہ رہا ۔ اس سال خدا خدا کرکے خوب بارش ہوئی اور کسان خوش ہوگئے لیکن جب وہ اپنی فصل کو لے کر بازار میں پہنچے تو مودی جی نے نوٹ بندی کا قہر برسا دیا۔ نقدی کے غائب ہوجانے کے سبب اچانک اناج اور سبزیوں کی کھپت میں ۳۰ تا ۵۰ فیصد کی کمی واقع ہوگئی۔ کسان اونے پونے داموں پر اپنا مال بیچنے پر مجبور کردیئے گئے۔ہندوستان کے تقریباً ۱۲ کروڈ کسانوں میں ۸۰ فیصد ایسے غریب ہیں جن کو اپنی پیداوار کو بیچ کر فوراً روپیہ حاصل کرنا ہوتا ہے ان کا کہنا ہے کہ دوسال کا قحط ہمیں نہیں مار سکا لیکن نوٹ بندی نے بے موت ماردیا۔ یہی حال ان مزدوروں کا ہوا جو شہروں میں یومیہ مزدوری کرکے اپنا پیٹ بھرتے تھے۔ وہ بیچارے بھی پریشان ہوکر اپنے گاوں کی جانب لوٹنے پر مجبور ہوگئے۔ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے حال میں کہا ہے کہ نوٹ بندی کے سبب اور برے دن آنے والے ہیں قومی پیداوار کی شرح میں ۲ فیصد کی گرواٹ کا اندازہ لگایا جارہا جس کے نتیجے میں غیرروایتی شعبوں میں بیروزگاری بڑھے گی اور زراعتی پیداوار متاثر ہوگی۔ اس سے قومی آمدنی ۴۵ فیصد تک متاثر ہوگی۔یہی وجہ ہے سابق وزیر خزانہ چدمبرم نے اس خودساختہ سونامی سےمتاثرہ غریبوں کیلئے سرکار سے نقصان بھرپائی کا مطالبہ کیا ہے۔

نوٹ بندی کے زلزلے نے شہروں کو بھی ہلاکر رکھ دیا ہے۔ ہندوستان میں صنعتی پیداوار کی سب سے بڑی تنظیم ایمو کے مطابق چھوٹی کمپنیوں میں ۳۵ فیصد لوگ بیروزگار ہوئے ہیں اور ۵۰ فیصد کا مالی خسارہ ہوا ہے نیز مارچ تک اعدادوشمار ۶۰ فیصد کی بیروزگاری اور ۵۵ فیصد کے مالی خسارے تک پہنچ سکتےہیں ۔ ایمو کی جانب سے وقفہ وقفہ سے تین مرتبہ اس طرح کا جائزہ لے کر اس کی رپورٹ وزارت مالیات کو بھجوائی گئی لیکن بے حس حکومت نے اس پر توجہ دینا تو کجااس کی رسید تک روانہ کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اب تو بی جے پی کی اپنی بھارتیہ مزدور سنگھ کے سربراہ رائے نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کردیا ہے۔گاڑیوں کی فروخت دسمبر میں گزشتہ ۱۶ سال میں سب سے نچلے درجہ پر رہی یعنی ۱۹ فیصد کی کمی اور دوپہیہ گاڑیاں ۲۲ فیصد نیچے پہنچ گئیں۔ اسی کے ساتھ گاڑیوں کی پیداوار بھی ۲۵ فیصد کم کردی گئی اس طرح گویا میک ان انڈیا کا شیر بھیگی بلی بن گیا ۔ ایس بی آئی کے ایک جائزے کے مطابق ممبئی اور پونہ جیسے شہروں کے ۶۹ فیصد تاجروں نے نوٹ بندی کے سبب ہونے والی پریشانی کی شکایت کی۔ ہندوستان کے ۸ سب سے بڑے شہروں میں مکانات کی فروخت میں ۴۴ فیصد کی کمی آئی جس سے تعمیری صنعت مکمل جمود کا شکار ہوگئی۔

ہندوستان کی جمہوریت میں جہاں ایوان زیریں اور ایوان بالا کی اپنی اہمیت ہے وہیں سرکار کے کام کاج پر نظر رکھنے کیلئے ایک پبلک اکاونٹس کمیٹی یعنی پی اے سی بھی ہے۔ یہ ادارہ ۱۹۳۰ ؁ سے کام کررہا ہے ۔ آزادی کے بعد ۱۹۶۷؁ تک اس کا سربراہ حکومت کا نمائندہ ہوتا تھا لیکن پھر اس کی سربراہی حزب اختلاف کیلئے مختص کردی گئی۔ فی الحال گوکہ اس میں بی جے پی کے ارکان اکثریت میں مگر اس کے سربراہ کانگریس کے وی کے تھامس ہیں ۔ اس ادارے کو تمام پارلیمانی کمیٹیوں کی ماں کہا جاتا ہے ۔ حکومت کی موجودہ بے حسی کو عوام کی تکالیف کو فی الحال پی اے سی کی ممتا نے محسوس کیا ہے اور اس نے پہلے مرحلے میں آر بی آئی کو ایک سوالنامہ روانہ کیا ہے جس میں تلخ سوالات کئے گئے ہیں ۔ اس سے قبل جبکہ بی جے پی کے مرلی منوہر جوشی پی اے سی کے سربراہ ہوا کرتے تھے اس نے ۲جی گھوٹالا، کوئلہ کانوں کی تقسیم میں ہونے والی بدعنوانی اور سی ڈبلیو جی کے معاملات میں تحقیق و تفتیش کی ہے ۔ سچ تو یہ ہے اسی رپورٹ کی بنیاد پر کانگریس کو بدعنوانی کا سرچشمہ قرار دے کر بی جے پی اقتدار میں آئی ہے لیکن اب اسی پی اے سی کا شکنجہ بی جے پی پر تنگ ہونے لگا ہے۔

پی اے سی کو تشویش کہ ایک ایسے ملک میں جہاں ۹۸ فیصد لین دین نقد میں ہوتا ہو نوٹ کی پابندی نے بے شمار مشکلات کوجنم دیا ہے۔ اس نے آر بی آئی سے سوال کیا کہ آخر اس نے یہ فیصلہ کس کے مشورے سے کیا؟ مودی جی کے ادنیٰ غلام ارجت پٹیل نے آزمائش کی اس نازک گھڑی میں اپنے آقا سے پلہ ّ جھاڑ لیا اور ایوان پارلیمان میں دیئے گئے حکومت کے اس بیان کو جھوٹا قرار دے دیا کہ ریزرو بنک کی سفارش پر نوٹ بندی کی گئی۔ ارجت پٹیل کے مطابق یہ تجویز حکومت کی جانب سے آئی تھی ۔بورڈ آف ڈائرکٹرس نے تو صرف اس کی تائید کی جو لازماً سرکاری دباو کا نتیجہ تھا ۔ وی کے تھامس کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم ۵۰ دن والے اپنے وعدے کو وفا کرنےمیں ناکام ہوچکے ہیں۔ اپنی انا کی خاطروہ ایک غلط فیصلے کی تائید کرکے ملک کو گمراہ کررہے ہیں ۔ تھامس نےجب کا کہ وزیراعظم کو بھی تفتیش کیلئے بلوا یاجاسکتا ہےتو بی جے پی والے شور مچانے لگے لیکن جو وزیراعظم چوراہے پر اپنے آپ کو سزا کیلئے پیش کرچکا ہے اسے پی اے سی کے سامنے حاضر ہونے میں کیوں کر عار محسوس ہو سکتی ہے۔ مشکلات کی راہوں پر گامزن مایوس عوام اور پی اے سی حکمران ِوقت سے بزبان عزیز نبیل (ترمیم میں معذرت) سوال کرتے ہیں ؎
یہ کیا سفر ہے کبھی ختم ہی نہیں ہوتا
وزیر سمت مخالف میں چل رہے ہیں کیا؟
 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1218308 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.