روس پر خدائی قہر تو نہیں۰۰۰؟

سعودی عرب میں احتجاج کرنے والے غیر ملکی مزدوروں کو سزا
شام کے معصوم ، بے گناہ اور بے بس مسلمانوں کا قتل عام ،جسے ساری دنیا گذشتہ پانچ سال سے دیکھ رہی ہے اور اس کے خلاف مذمت اور ملامت بھی کررہی ہے اس کے باوجود بشارالاسد اور ولایمیرپوتین اپنی ظالم فوجوں کے ذریعہ مزید حملوں کے مرتکب ہورہے ہیں۔ 30؍ ڈسمبر2016سے روس اور ترکی کوششوں سے بشارالاسد اور اپوزیشن کے درمیان عارضی جنگ بندی کا معاہدہ طئے پایا اس کے باوجود بشارالاسد کی فوج مسلسل خلاف ورزیوں کی مرتکب ہورہی ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق شامی اپوزیشن کی تنظیم صقور الشام کے ترجمان مامون موسیٰ نے ایک ٹیلی ویژن چینل سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ شامی فوج جنگ بندی معاہدہ کی مسلسل خلاف ورزیاں کررہی ہے، انہوں نے بتایا کہ بشار الاسد کی فوج، شیعہ ملیشیاحزب اﷲ اور دیگر اسد نواز گروپ جنگ بندی معاہدہ کو ناکام بنانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں ان کی جانب سے مسلسل بمباری کے نتیجہ میں اپوزیشن کو وادی بردی میں مذاکرات روکنا پڑے ہیں ۔بشارالاسد نے شام میں بھیانک مظالم کے ارتکاب کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ صاف ستھری جنگ کوئی بھی نہیں لڑتا۔ فرانسیسی میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو کے دوران گذشتہ پانچ سال سے شام کے مختلف شہروں اور علاقوں اور حلب پر شدید ترین بمباری اور ہلاکتوں کی بڑی تعداد پر بشارالاسد نے کہا کہ یقینا کبھی کبھار ایسی قیمت ادا کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ شام کے کئی علاقوں میں بشارالاسد کی فوج ، شیعہ ملیشیا کی جانب سے ظالمانہ کارروائیوں کا سلسلہ اب بھی جاری رہنے کے اطلاعات ہیں۔ولایمیر پوتین کے حکم پر روسی فوج کی خطرناک ظالمانہ فضائی کارروائیوں کے نتیجہ میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے ہیں روس اور بشارالاسد کی ظالم افواج نے شام میں ہاسپتلوں، اسکولوں پر بھی حملے کرکے معصوم انسانیت کا قتل عام کیا۔ ان معصوم بچوں،مرد و خواتین اور ضعیف افراد کی درد و کرب اور موت و زیست کے درمیان کراہتی آہیں بیکار نہ جائیں گی۔ بشارالاسد ہو کہ بوتین یا ایران کے ظالم حکمراں، انہیں ان ظالمانہ کارروائیوں کی انجام دہی کا بدلہ ضرور ملے گا۔ جس طرح ماضی میں عراق اور افغانستان پر ظلم و زیادتی کرنے والے اتحادی ممالک نے دیکھاکے ان کے ملکوں میں کئی ماہ تک کس طرح سینکڑوں میل آگ کی لپیٹ نے قہرالٰہی برپا کررکھی تھی۔ کہیں پر طوفان تو کہیں پر آگ کی لپیٹ۔ اسی طرح شام میں روس کی ظلم و زیادتی اور درد و کرب بھری آہوں نے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا ہے ان سمجھدار لوگوں کے پاس روس میں 120سال بعد ہونے والی سردی کو خدائی قہر ہی کہا جائے گا۔ یورپ بھر میں منجمد کرنے والے درجۂ حرارت کے باعث کئی افراد ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق یونان کے جزیروں سے لے کر اٹلی تک برف کی چادر بچھ گئی ہے۔ اٹلی میں بحری اور فضائی سفر کی سہولیات تعطل کا شکار ہوئی ہیں جبکہ جنوبی علاقوں میں اسکولس بند کردیئے گئے ہیں۔ روس میں رات کے وقت درجۂ حرارت منفی 30ڈگری تک پہنچ گیا ہے ۔ ان قدر خطرناک سردی سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ کو نہ دیکھا جائے بلکہ روس کی معیشت کی طرف نظر ڈالیں کیونکہ قہر الٰہی کا مطلب یہ نہیں کہ ہلاکتیں ہوں بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے اس خطرناک ٹھٹرا دینے والی سردی اور منجمد ہونے والے برف کے نتیجہ میں کاروبار زندگی ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے روس کو کروڑوں یورو کا نقصان ہوگا اور یہ قہر الٰہی نہیں تو اور کیا ہوسکتا ہے۔ شام کے حالات ابھی کب معمول پر آئیں گے اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ دولت اسلامیہ (داعش) کے خاتمہ کے لئے بھی امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک بھی شام میں فضائی کارروائیاں انجام دے رہے ہیں اس طرح بشارالاسد ، روس ، ایران ، شیعہ ملیشیا، حزب اﷲ و دیگر اسدی گروپ ایک طرف تو دوسری جانب اپوزیشن کے مختلف تنظیمیں اور اسی طرح داعش اور دیگر جہادی تنظمیں تو اسکے مقابل امریکہ و دیگر اتحادی ممالک اس طرح ان تمام ایک دوسرے کے خلاف ظالمانہ کارروائیاں کررہے ہیں جس کے نتیجہ میں شام کے معصوم ، بے گناہ مسلمانوں کا قتلِ عام ہورہا ہے یا لاکھوں کی تعداد میں زخمی ہوچکے ہیں اور لاکھوں بے گھرو سامان ہوکر در بدر کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔

داعش کو آئندہ سال تک کچل دیا جائے گا۔ امریکہ
امریکہ نے اس سے قبل داعش (دولت اسلامیہ ) کے خاتمہ کیلئے لمبے عرصہ کی بات کی تھی اور اسکی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا ذکر کرکے عالمی سطح پر خوف ہراس بھی پیدا کیا تھا اب جبکہ امریکہ میں نئے منتخبہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ 20؍ جنوری کو صدارت کی باگ ڈور سنبھال لیں گے ۔ موجودہ امریکی صدر بارک اوباماکے دورِ اقتدار میں دولت اسلامیہ (داعش) جس تیزی سے عراق اور شام کے علاقوں پر قبضہ کرکے اپنی خلافت کا اعلان کیا اور اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہوئے عراق اور شام کے کئی قصبوں، علاقوں اور شہروں پر قابض ہونے کے بعد دوسرے ممالک میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے بعد ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی اس سے سمجھا جارہا ہے کہ عالمی سطح پر داعش کا پھیلاؤ ہورہا ہے ۔داعش کی سرگرمیوں میں اضافہ کے باوجود امریکہ اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ داعش کی سرگرمیوں کو آئندہ سال تک کچل دیا جائے گا۔ تفصیلات کے بموجب امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ داعش نے انسانی تہذیب کے خلاف جنگ مسلط کر رکھی ہے ٗ آئندہ سال پوری طرح اسے کچل ڈالیں گے ۔۔واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جان کیری نے کہا کہ داعش پرانے مراکز سے محروم ہو رہی ہے مگر ساتھ ہی تنظیم نئے اڈوں کے قیام کے لیے کوشاں ہے اور زیادہ سے زیادہ حملے کرنا چاہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ داعش کے خلاف جنگ کا عالمی پلان کامیاب اور نتیجہ خیز ثابت ہوا ہے۔ایران کے تعلق سے جان کیری نے کہا کہ ایران جوہری بم تیار نہیں کر سکتا کیونکہ تہران اپنے 98فی صد افزودہ یورینیم سے دست بردار ہو چکا ہے۔ جان کیری نے خبردار کیا کہ ایران کے جوہری پروگرام پرطے پائے سمجھوتے سے پیچھے ہٹنا انتہائی خطرناک اقدام ثابت ہو سکتا ہے۔شام میں جاری بحران کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں جان کیری نے کہا کہ بشارالاسد اور ان کے حلیف دانستہ طور پر بحران کو طول دے رہے ہیں۔ امریکہ اب بھی شام کے مسئلے کا فوج کے بجائے سیاسی حل چاہتا ہے۔

سعودی عرب میں احتجاج کرنے والے غیر ملکی مزدوروں کو سزا
سعودی عرب میں گذشتہ برس ہزاروں تارکین وطن بشمول ہندو پاک اور بنگلہ دیش کو روزگار سے محروم کردیا گیا ۔ان تارکین وطن کو کئی کئی ماہ کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی نے احتجاج کرنے پر مجبور کردیا گیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی عرب میں کئی درجن ایسے غیر ملکی ورکرز کو قید اور کوڑوں کی سزا سنائی گئی ہے جنھوں نے گذشتہ برس تعمیراتی کمپنی'بن لادن گروپ اور سعودی اوگر کی جانب سے اپنے ملازمین کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر احتجاج کیا تھا۔خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مکہ کی ایک عدالت نے 49 ایسے مزدورں کو قید اور کوڑوں کی سزا سنائی ہے جنھوں نے چند ماہ قبل تنخواہ نہ ملنے پر احتجاج کیا تھا۔تنخواہ کی عدم ادائیگی پر احتجاج کرنے کی پاداش میں سزا پانے والے ورکرز کی قومیت کو مخفی رکھا گیا ہے۔سعودی عرب کے الوطن اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کچھ احتجاجی مزدوروں کو چار ماہ قید اور 300 کوڑوں کی سنائی گئی ہے جبکہ کچھ کو بدامنی کو ہوا دینے کے الزام میں ڈیڑہ ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔'بن لادن گروپ جو سعودی عرب کی ایک بڑی تعمیراتی کمپنی ہے نے سعودی حکومت کی جانب سے تیل کی کم قیمتوں اور ترقیاتی اخراجات میں کمی کے بعد اپنے 70ہزار ملازمین کو ملازمت سے نکال دیا تھا۔عرب نیوز کے مطابق تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف احتجاج کرنے والے ورکرز نے مکہ میں بن لادن گروپ کی کئی بسوں کو نذر آ تش کر دیا تھا۔القاعدہ کے سابق رہنما اسامہ بن لادن کے والد نے 80 برس قبل ’’بن لادن گروپ‘‘ نامی تعمیراتی کمپنی قائم کی تھی۔ کمپنی کو سعودی عرب میں بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے ملتے رہے ہیں۔لبنان کے وزیر اعظم سعد ہریری کی کمپنی ’’سعودی اوگر‘‘ کے ہزاروں ملازمین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا اور ملازمین کو کئی کئی ماہ تنخواہیں نہیں دی گئی تھیں۔سعودی عرب کی معیشت خطہ میں دہشت گردانہ کارروائیوں اور جنگی حالات خصوصاً شام اور یمن کی جنگ کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں کئی کمپنیاں جو اپنے ملازمین کو نکال دے رہی ہیں اور ان کی کئی کئی ماہ کی تنخواہیں روکے رکھی ہے ایک اسلامی ملک ہونے کے باوجود یہاں پر ہزاروں ورکرز روزگار سے محروم ہی نہیں بلکہ جومحنت مزدوری انہوں نے کی ہے اس کا صلہ یعنی تنخواہوں سے محروم کرتے ہوئے انہیں احتجاج کرنے پر مجبور کیا اور یہ احتجاج ایسی صورت اختیار کرلیا تھا جس کی وجہ سے بن لا دن کی بسوں کو احتجاجیوں نے جلادیا جس کی وجہ مکہ کی ایک عدالت نے ان احتجاجیوں کو سخت سزا دینے کا فیصلہ کیا اب دیکھنا ہے کہ شاہی حکومت اپنے فرمان کے ذریعہ ان پریشان حال بیروزگار تارکین وطن کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرتے ہوئے انہیں معاف کردیتی ہے یا پھر سزا کے ذریعہ دیگر تارکین وطن جو بیروزگارہوچکے ہیں اور پریشان کن صورتحال سے دوچار ہیں انہیں سبق سکھانے کے لئے سزا پر تعمیل کی جائے گی۔

ہم انتہائی مشکل دور سے گزر رہے ہیں،سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اینٹونیو گوئیٹرس نے کہا ہے کہ ہمیں انتہائی مشکل حالات درپیش ہیں جس بنا پر ضرورت اِس بات کی ہے کہ عالمی ادارہ کثیر ملکی کوششوں کو فروغ دے۔ سکریٹری جنرل کے مطابق ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی مشکلات کا جواب دیا جائے، دنیا کے ہر شخص کی تشویش کو مدِ نظر رکھا جائے، خواہشات کا خیال رکھا جائے، اور یہ کام آسان نہیں۔ اور ہمیں ایمانداری سے کہہ دینا چاہیئے کہ اس کے لیے ابھی ہم مکمل طور پر تیار نہیں ہیں۔گوئیٹرس نے اقوام متحدہ کی خامیوں اور ناکامیوں کو تسلیم کیا اور اس بات پر زور دیا کہ تبدیلی، اصلاح اور بہتری کے لیے اجتماعی کوششیں درکار ہیں، جس میں نوکرشاہی کی پیدا کردہ مشکلات حائل ہیں، جن کے باعث اقوام متحدہ کی جانب سے عملہ بھرتی کرنے اور عالمی بحرانوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے بروقت اقدام میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ انھوں نے اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ دنیا کو عالمی مسائل درپیش ہیں، جن کا عالمی حل درکار ہے۔انھوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ کثیر ملکی کوششیں اپنانے پر زور دیا جائے اور اقوام متحدہ اس کثیر ملکی اندازِ فکر کا منبہ ہے۔
**
Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209043 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.