دو روزے

میرے بھائیوں! سب سے پہلے تو آپ کو رمضان المبارک کی سعادت ملنے اور رمضان المبارک میں روزے رکھنے اور اس کام کے لئے توفیقِ الٰہی پر مبارک باد دیتا ہوں۔ یہ معمولی نعمت نہیں ہے‘ اس لئے اللہ تعالیٰ نے بڑے وعدے فرمائے ہیں‘ اور اللہ کے رسول نے بڑی بشارتیں سنائی ہیں‘ آپ نے فرمایا:
”من صام رمضان ایماناً واحتساباً غفر لہ ما تقدم من ذنبہ“۔ (مشکوٰة:۱۷۳)
ترجمہ:”کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے‘ اللہ کے وعدوں پر یقین کرتے ہوئے اور اس کے اجر وثواب کی امید میں‘ تو اس کے سب پچھلے گناہ معاف ہوگئے“۔ اور یہ بظاہر آخری جمعہ ہے‘ جمعة الوداع ہے‘ اس کے بعد جو روزے باقی ہیں‘ اللہ تعالیٰ ان کو رکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور شب قدر کی دولت ونعمت بھی عطا فرمائے‘ ہماری اور آپ کی عاجزانہ دعاؤں کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے‘ جو اس مہینہ میں کی گئیں۔

اب میں آپ کے سامنے بظاہر ایک نئی بات کہنے والا ہوں‘ لیکن وہ نئی بات نہیں ہے‘ وہ اللہ اور اس کے رسول ِ کی تعلیم سے ماخوذ ہے‘ اور قرآن مجید پر مبنی ہے‘ لیکن بہت سے بھائیوں کے لئے نئی ہوگی‘ اور نئی چیز کی ذرا قدر ہوتی ہے اور اس سے آدمی کا ذہن ذرا تازہ‘ بیدار اور متوجہ ہوجاتا ہے۔ وہ نئی بات یہ ہے:
”روزے دو طرح کے ہیں‘ ایک چھوٹا روزہ‘ ایک بڑا روزہ“۔

چھوٹے روزے کی تحقیر مقصود نہیں‘ صرف زمانی اور وقتی لحاظ سے کہہ رہا ہوں۔ چھوٹا روزہ کتنا ہی بڑا ہو‘ ۱۳ گھنٹہ ‘ ۱۴ گھنٹہ کا روزہ ہوگا‘ بعض ملکوں میں جہاں دن اس زمانہ میں بڑا ہوتا ہے اس سے کچھ زیادہ۔ یہ وہ روزہ ہے جو بلوغ پر مسلمان پر فرض ہوجاتا ہے‘ وہ صبح صادق سے شروع ہوتا ہے اور غروب آفتاب تک قائم رہتا ہے۔ اس روزہ کا ایک قانونی ضابطہ اور اس کے کچھ شرعی احکام ہیں جو آپ کو معلوم ہیں‘ آپ جانتے ہیں کہ اس روزہ میں آدمی کھا پی نہیں سکتا اور ان تعلقات ومعاملات کا لطف نہیں حاصل کرسکتا‘ جن کی اور دنوں میں اجازت ہے‘ یہ روزہ چاہے ۲۹ دن کا ہو یا ۳۰ دن کا‘ اس میں محدود پابندیاں ہیں‘ رمضان کے اس روزے سے لوگ واقف اور اس کے قوانین واحکام پر عامل ہیں‘ میں چاہتا ہوں کہ آپ غور کریں کہ اس روزے کے علاوہ اور کون سا روزہ ہے جو اپنے وقت اور رقبہ میں اس سے بڑا ہے‘ گرمی کے روزے اور بڑے ہوتے ہیں اور اس روزے کے علاوہ اور کون سا بڑا روزہ ہوگا‘ کیا شش عید کا روزہ بتانے والا ہوں‘ یا پندرہویں شعبان کا؟ کون سا روزہ بتانے والا ہوں۔ بڑا روزہ ہے: اسلام کا روزہ! اسلام خود ایک روزہ ہے اور یہ سب روزے اور عیدین بھی‘ بلکہ روزہ‘ نماز یہاں تک جنت بھی‘ جو اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا‘ وہ سب اس کے طفیل ہی ہے۔ اصل بڑا روزہ اسلام کا روزہ ہے‘ وہ کب ختم ہوتا ہے‘ کب شروع ہوتا ہے‘ یہ بھی سن لیجئے!

جو خوش قسمت انسان مسلمان گھر میں پیدا ہوا‘ اور وہ شروع سے کلمہ گو ہے‘اس پر بلوغ کے بعد ہی یہ طویل مسلسل روزہ فرض ہوجاتا ہے اور جو اسلام لائے‘ کلمہ پڑھے‘ یہ روزہ اس پر اسلام قبول کرنے کے وقت شروع ہوتا ہے اور یہ روزہ کب ختم ہوگا‘ یہ بھی سن لیجئے!رمضان کا روزہ اور نفلی روزہ تو غروبِ آفتاب پر ختم ہوجاتا ہے‘ مگر اسلام کا یہ روزہ تو آفتابِ عمر کے غروب ہونے پر ختم ہوگا۔

رمضان کے روزہ ونفلی روزہ کا افطار کیا ہے‘ آپ عمدہ سے عمدہ مشروب اور لذیذ سے لذیذ غذا سے افطار کرسکتے ہیں۔ زیادہ مشروبات اور ماکولات کا نام سن کر آپ کے منہ میں پانی آجائے گا اور شوق پیدا ہوجائے گا‘ اس لئے میں ان کا نام نہیں لیتا۔ وہ روزہ زمزم سے کھلتا ہے‘ وہ روزہ ٹھنڈے پانی سے کھلتا ہے‘ یا دوسرے مشروبات سے یا کھجور وغیرہ سے کھلتا ہے‘ اور زندگی کا یہ طویل ومسلسل روزہ کس سے کھلے گا؟ حضرت محمد رسول اللہ‘ محبوب رب العالمین‘ شفیع المذنبین‘ سید المرسلین ا کے دست مبارک سے جام طہور‘ جام کوثر سے کھلے گا۔اگر وہ روزہ پکا ہے اور آپ نے اس روزے کی شرائط پوری کردی ہیں اور محض اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کے فضل سے ہم دنیا سے کلمہ پڑھتے ہوئے گئے‘ ہماری روح اس حال میں نکلی کہ ہماری زبان پر کلمہ تھا اور ہم ”لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ کہہ رہے تھے‘ ہمارے دل میں نور ایمان تھا‘ ہمارے دماغ میں اللہ سے ملاقات اور حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کرنے کا شوق تھا‘ تو وہ روزہ اس وقت ختم ہوتا ہے۔ اس کا افطار کیا ہے اس کی ضیافت کیا ہے؟ وہ ہے جس ضیافت پر آدمی اپنی جان دے دے۔ اور اللہ کے بندوں نے جان دی ہے‘ سینکڑوں اور ہزاروں لاکھوں آدمیوں نے اس شوق میں جان دی ہے‘ کہ اللہ کے رسول اکا دیدار نصیب ہو‘ اللہ کے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہم جب ہوں تو وہ ہم سے خوش ہوں‘ راضی ہوں‘ جہاد کے واقعات‘ غزوات اور جنگوں کے واقعات پڑھئے! لوگوں نے خوشی خوشی جانیں دیں‘ بلکہ ایسا شوق تھا کہ:
ایک بچہ احد کی جنگ کے موقع پر آیا‘ اس نے کہا: یا رسول اللہ! مجھے بھی جہاد کرنے کی اجازت دیجئے! حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابھی تم چھوٹے ہو۔ اس نے کہا: نہیں چھوٹا نہیں‘ میں لڑ سکتا ہوں۔ اس نے بڑی خوشامد کی‘ کسی نے سفارش بھی کی تو آپ انے اجازت دے دی‘ دوسرے صاحبزادے آئے جو ذرا چھوٹے تھے‘ کہنے لگے: آپ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اجازت دی تھی‘ مجھے بھی اجازت دے دیجئے!آپ انے فرمایا: تم ابھی بچے ہو‘ اس نے عرض کیا: آپ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہماری کُشتی کرا کر دیکھ لیجئے‘ اگر میں اس کو پچھاڑ دوں تو مجھ کو اجازت دے دیجئے‘ یہ بچوں کا شوق تھا‘ کُشتی ہوئی‘ اس نے واقعی پچھاڑ دیا اور آپ نے ان کو بھی اجازت دے دی اور وہ شہید بھی ہوئے‘ ابو جہل کو دیکھ کر دونوں بھائیوں نے حضرت عبد الرحمن بن عوف سے کہا کہ ہمیں ابو جہل کو دکھایئے! ہم نے سنا ہے کہ اس نے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے‘ میں یہ شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں‘ ابوجہل کے بتانے پر دونوں لپک پڑے اور اس کا کام تمام کردیا۔

اس چھوٹے روزہ کا حکم اور اس کی پابندیاں سب کو معلوم ہیں‘ سب روزہ دار کھانے پینے سے اور ان تمام چیزوں سے بچتے ہیں جو ممنوع ہیں‘ لیکن اس بڑے روزہ کا خیال بہت کم لوگوں کو ہے‘ حالانکہ یہ روزہ ہم لوگوں کو اس بڑے روزہ کے طفیل ہی ملا ہے‘ اس بڑے روزہ کی برکت سے ملا ہے‘ یوں سمجھئے! کہ اس بڑے روزہ کے انعام میں ملا ہے‘اور عید بھی اسی روزے کے طفیل میں ملی ہے‘ اگر اسلام نہ ہوتا تو نہ نماز ہوتی‘نہ روزہ ہوتا اور دیکھ لیجئے! جہاں اسلام نہیں‘ وہاں نہ نماز ہے نہ روزہ‘ نہ کلمہ ہے‘ نہ اللہ پر یقین ہے‘ نہ اس کے واحد ہونے کا یقین ہے‘ نہ حشر کا نہ روزِ قیامت کا‘ نہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا‘ یہ سب دولتِ ایمان ہم کو اسلام کے طفیل ملی ہے‘ ہم گن بھی نہیں سکتے کہ کیا کیا دولتیں ہم کو اسلام کے طفیل میں ملی ہیں‘ اسلام کے طفیل میں آدمیت ملی ہے‘ انسانیت ملی ہے‘ عزت ملی ہے‘ طاقت ملی ہے‘ روحانیت ملی ہے‘ اور مرنے کے بعد قیامت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت ملے گی‘ اس کا تو پوچھنا ہی کیا جس کے بارہ میں فرمایا گیا: ”مالاعین رأت ولااذن سمعت‘ ولاخطر علی قلب بشر“ نہ کسی آنکھ نے دیکھا‘ نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی کے دل میں اس کا خیال گزرا‘ تو اس (طویل ومسلسل) روزے کا لوگوں کو کم خیال آتا ہے۔ اب ہم آپ کو بتاتے ہیں‘ معلوم نہیں پھر کبھی ہماری آپ کی ملاقات ہو یا نہ ہو اور ہمیں کچھ کہنے سننے کا موقع ملے یا نہ ملے‘ بڑے کام کی بات آپ سے کہہ رہا ہوں کہ اس روزہ (رمضان کے روزہ یا نفلی) میں پانی پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے‘ کھانا کھانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے‘ یہ روزہ ٹوٹ جائے تو ساٹھ روزے رکھنے چاہئیں‘ تب ان کی قضا ہوگی‘ لیکن وہ روزہ جو اسلام کا روزہ ہے‘ اس کا بہت کم لوگوں کو خیال ہے‘ ہم بتاتے ہیں کہ اس میں کیا کیا چیزیں منع ہیں‘ اس میں کھانے پینے کی محدود چیزیں جو حرام ہیں‘ منع ہیں‘ اس میں شرک منع ہے‘ سب سے بدتر چیز جو اللہ کو ناپسند ہے‘ وہ یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’ان اللہ لایغفر أن یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشاء“۔ (النساء:۴۸)
یعنی قرآن مجید میں صاف آتا ہے کہ: اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں فرمائے گا‘ باقی جس کو چاہے گا‘ معاف فرما دے گا۔

شرک کیا ہے؟ آپ سن لیجئے‘ اس کو سب برا سمجھتے ہیں‘ آپ بھی برا سمجھتے ہوں گے‘ عقیدہ یہ ہے کہ کار خانہ عالم اللہ کا بنایا ہوا ہے اور وہی چلا رہا ہے: ”الا لہ الخلق والامر“ اسی کا کام ہے پیدا کرنا‘ اسی کا کام ہے جلانا‘اسی کو مانتے ہیں کہ خالق ارض وسموات اور کائنات چلانے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے‘ لیکن بہت سے بھائی ایسے ہیں جن کے دل میں اور کبھی ان کے دماغ میں یہ بات پورے طور سے جذب نہیں ہوتی ہے کہ کائنات کا چلانے والا بھی اللہ تعالیٰ ہے‘ وہ ایسا سمجھتے ہیں کہ کارخانہ عالم تو اللہ نے بنایا‘ ”کن فیکون“ کہہ دیا بس بن گئی‘ لیکن چلانے میں دوسری ہستیاں شریک ہیں‘ جیسے کوئی بادشاہ اپنی مرضی سے کوئی کام کسی کے سپرد کر دے‘ کسی کے ذمہ کردے‘ بھائی تم خیرات بانٹا کرو‘ تم دیکھو کھانے پینے کا خیال رکھنا‘ غلہ پہنچادو‘ وہ کچھ پہنچا دو جس کی ضرورت ہو‘ کوئی بیمار ہو‘ اس کو شفا دے دو‘ کسی کے اولاد نہیں ہے‘ اس کو اولاد عطا کرو‘ کوئی مصیبت میں گرفتار ہے‘ اس کی خلاصی کر دو‘ کسی کا مقدمہ جتا دو وغیرہ وغیرہ۔اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے مقبول بندوں کے ذمہ کچھ کارخانے کردیئے ہیں تو اس میں اللہ کی شان کے خلاف کوئی بات نہ ہوگی‘ ان کی قبولیت اور بزرگی کی وجہ سے اور اپنے ارادہ سے سپرد کیا ہے اور جب چاہے گا‘ لے لے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے‘ میرا ہی کام ہے پیدا کرنا‘ اور میرا ہی کام ہے چلانا‘ اور حکم دینا: ”الا لہ الخلق والامر“یہ دنیا تاج محل نہیں ہے کہ شاہجہاں بنا کر چلے گئے‘ اب اس کے بعد کوئی چاہے دیوار پر کچھ لکھ دے‘ دھبہ لگا دے‘ کھونچا لگا دے‘ کوئی حصہ توڑ دے‘ وہ کچھ نہیں کرسکتے‘ ان کے بس میں کچھ نہیں‘ اور شاہجہاں کیا خواہ بڑے سے بڑا بادشاہ اور حکمراں ہو۔

لیکن وہ کارخانہ یعنی کارخانہ عالم پورے طور سے اسی کے قبضہ اور اختیار میں ہے‘ وہی خالق کائنات ہے‘ ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور وجود بخشنے والا ہے‘ اور وہی حکمراں‘ سیاہ سفید کرنے والا‘ جلانے مارنے والا‘ روزی اور اولاد دینے والا ہے: ”انما امرہ اذا أراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون“ اولاد دینا‘ روزی دینا‘ قسمت اچھی بری کرنا‘ ہرانا جتانا اور کسی کو عزت دینا‘ کسی کی آئی ہوئی بلا کو ٹال دینا یہ سب اللہ کے قبضہ میں ہے اور ہمیشہ سے ہمیشہ رہے گا‘ اس دنیا کا ایک پتہ بھی اور ایک ذرہ بھی اس کے حکم کے بغیر ہل نہیں سکتا‘ پوری باگ ڈور عنان حکومت اور کنجی اس کے ہاتھ میں ہے۔

ایک بات تو یہ ہے کہ توحید کامل ہونی چاہئے۔ اولاد وہی دے سکتا ہے‘ روزی وہی دے سکتا ہے‘ عزت وہی دے سکتا ہے‘ جلانا مارنا اسی کا کام ہے‘ یہ نہ کسی ولی کے قبضہ میں ہے‘ نہ کسی قطب کے قبضہ میں ہے‘ نہ کسی غوث کے قبضہ میں ہے‘ نہ کسی ابدال کے قبضہ میں ہے‘ ایک بات یہاں سے لے کر جایئے‘ پہلے عقیدہٴ توحید کو جانچئے! کہ آپ اللہ ہی کو مسبب الاسباب سمجھتے ہیں اور خالق ورزاق سمجھتے ہیں۔ دوسری بات‘ قیامت کا یقین وآخرت کا یقین ہے اور اس کے بعد حضور اقدس ا کو آخری پیغمبر ماننا‘ خاتم النبیین‘ سید المرسلین‘ شفیع المذنبین کا محبوب رب العالمین ماننا‘ اور یہ ماننا کہ شریعت انہی کی چل رہی ہے اور قیامت تک چلے گی‘ اور آخرت میں کام کرے گی۔ قیامت تک اور کسی کی شریعت نہیں چلے گی‘ اگر کوئی آپ ا کے بعد نئی شریعت لے کر آئے تو وہ کذاب اور دجال ہے‘ ملحد ہے‘ دین کا باغی ہے‘ اور واجب القتل ہے‘ شریعت‘ شریعت محمدی ہے اور وہی قیامت تک چلے گی اور ہرجگہ چلے گی‘ اس پرجو چلے گا وہ ہی فلاح یاب ہوگا‘ اور سرخرو ہوگا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم حبیب خدا ہیں‘ جو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرے خدا اس سے محبت کرتا ہے اور آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”لایومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین“۔
ترجمہ:”تم میں سے کوئی مومن نہیں جب تک کہ میں اسے اپنے باپ سے‘ بیٹے سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں“۔

یہ مرتبہ اور کسی بزرگ‘ ولی کیا چیز‘ کسی نبی اور رسول کو بھی نہیں ملا‘ یہ مرتبہ خدا نے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے لئے رکھا تھا‘ ایک تو یہ کہ آپ پر ایمان بھی ہو‘ عقیدہ بھی ہو‘ محبت بھی ہو‘ اور شفاعت کا شوق بھی ہو‘ اس کے ساتھ ساتھ آپ میں شریعت پر چلنے کا اہتمام بھی ہو‘ آپ پوچھیں‘ آپ کے اندر جذبہ اور جستجو اس بات کی پیدا ہو کہ مسئلہ بتایئے! لیکن افسوس ہے کہ مسلمانوں میں یہ بات پورے طور پر نہیں ہے‘ شادی بیاہ کس طریقہ پر ہو؟ حضور ا اور صحابہ کرام کا کیا طریقہ کار تھا‘ خوشی کا اظہار اور غم کا اظہار بھی شریعت وسنت کے مطابق ہونا چاہئے۔ ماتم کرنا‘ گانا بجانا‘ یہ تزک واحتشام‘ دھوم دھام اور شادیوں میں وہ سب کام کرنا‘ چاہے سود لے کر اور زمینیں بیچ کر‘ رشوت لے کر ہو‘ بس جس سے نام ہو‘ ہماری حیثیت عرفی بلند ہو‘ لوگوں میں اونچے سمجھے جائیں‘ اور یہ جہیز کا مطالبہ اور نہ دینے پر نازیبا سلوک‘ کہ گردن شرم سے جھک جائے‘ کیسی بری بات ہے‘ یہ سب شریعت کے خلاف ہے‘ اللہ کو ناپسند ہے‘ ان سب باتوں میں ہم شریعت کے پابند ہیں‘ صرف نماز وروزہ میں ہی پابند نہیں ہیں‘ بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں پابند ہیں‘ ہرچیز میں ہمارے لئے نمونہ‘ اسوہٴ رسول ا ہے‘ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
”قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ“ ۔ (آل عمران:۳۱)
ترجمہ:”اے پیغمبر! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو‘خدا بھی تمہیں دوست رکھے گا“۔

تو ایک بات یہ ہے کہ شریعت اسلامی پر عمل ہو اور شریعت کو آپ سمجھیں کہ وہ پوری زندگی میں نافذ ہے‘ پوری زندگی پر اس کا سایہ ہے‘ پوری زندگی اس کے ماتحت ہونی چاہئے‘ یہ نہیں کہ بس نماز وروزہ شریعت کے مطابق ہوں‘ اس کے لئے مسئلہ پوچھیں‘ اور نکاح وطلاق‘ تجارت اور کاروبار میں آزاد ہیں‘ لاٹری بھی چل رہی ہے‘ جوا بھی چل رہا ہے“ ٹیلی ویژن بھی دن رات چل رہا ہے (جو لہو الحدیث کی بہترین تشریح ہے) اسراف اور فضول خرچی بھی چل رہی ہے‘ نمود ونمائش بھی جاری ہے‘ ہمسایہ قوم کی نقالی بھی چل رہی ہے۔ روزہ میں جیسے غیبت منع ہے‘ ایسے ہی اس روزہ میں بھی غیبت منع ہے‘ اسی طرح جھوٹ بولنا‘ فحش بکنا‘ رشوت لینا اور رشوت دینا‘ سود خوری‘ اسراف اور فضول خرچی ممنوع ہے۔ تو آپ یہ سمجھ کرجائیں روزہ کے بعد ہم آزاد ہیں ہرگز نہیں؟ ہم آزاد نہیں ہیں‘ وہ روزہ اس روزہ کا جزو ہے جو آپ رکھ رہے ہیں‘ وہ روزہ چلتا رہے گا‘ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل وکرم سے ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے‘ یہی سب سے بڑی اور تمنا کرنے کی چیزہے‘ بلکہ جس کے لئے جان کی بازی بھی لگا دینا چاہئے‘ ہماری آزادی‘ غریبی‘ مفلسی‘ دوستی‘ دشمنی‘ کامیابی اور ناکامی‘ یہ سب گزر جائے گی‘ بس خاتمہ ایمان پر فرمائے‘ اولیاء اللہ کو اس کی بڑی فکر تھی‘ ان کے حالات پڑھئے‘ جن کا نام لینے سے ایمان تازہ ہوتا ہے‘ ان کو یہ فکر ہوتی تھی‘ بلکہ دوسروں سے دعا کراتے تھے کہ خاتمہ بخیر ہو‘ سب کے دل کو یہ لگی ہوئی تھی‘ اور اللہ تعالیٰ نے خاتمہ بخیر فرمایا‘ ان کا ذکر خیر باقی رکھا۔

رمضان ختم ہونے کے بعد آپ یہ نہ سمجھیں کہ چھٹی ہوگئی اب ہم آزاد ہیں جو چاہیں کریں‘ ہرگز ایسا نہیں‘ آپ آزاد بالکل نہیں ہیں‘ آپ کے گلے میں اسلام کا طوق پڑا ہوا ہے‘ آپ کی تختی‘ آپ کے شناختی کارڈ پر لکھا ہے کہ آپ مسلمان ہیں‘ اللہ تعالیٰ کے یہاں اس روز کا حساب ہوگا اور اس روزہ کا بھی حساب وکتاب ہوگا‘ ہم نے آپ کے سامنے آیت پڑھی:
”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً“۔ (المائدہ:۳۰)
میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا‘ چاہے کوئی تبدیلی لانا چاہے‘ سلطنت کہے بادشاہ کہے کہ ایسا کرو اور ویسا کرو‘ بڑے سے بڑا مسلمان اور علم کا دعویٰ کرنے والا کہے‘ کچھ ہونے کو نہیں‘ جو چیز حرام ہے‘ قیامت تک حرام رہے گی‘ دنیا میں کسی کو یہ اجازت نہیں اور نہ اس کی مجال ہے کہ اس میں ترمیم کرے‘ شریعت میں اب کوئی ترمیم نہیں ہوسکتی‘ وہ چیزیں جو حرام ہیں‘ حرام ہی رہیں گی۔ یہاں سے آپ ارادہ کرکے جایئے کہ اگر کسی کی جائیداد آپ کے قبضہ میں ہے اور آپ کی نہیں ہے تو اس روزہ کا تقاضا ہے کہ آپ اس جائیداد کو چھوڑ دیں‘ اللہ تعالیٰ اس پر بڑا خوش ہوگا‘ آپ اللہ کے خوف سے ایسا کریں اور کہیں کہ لو اپنی جائیداد‘ اپنا ترکہ یہ تمہیں مبارک ہو‘ اب ہم نے توبہ کی ہے‘ تم جھوٹ بولنا‘ جھوٹی گواہی دینا‘ دل آزاری کرنا‘ گالی بکنا‘ ناجائز‘ حرام ذرائع آمدنی رشوت وغیرہ جن سے پیسے ملتے ہیں‘ حرام ہی ہیں‘ اور قیامت تک ناجائز ہی رہیں گی‘ اسی طرح سود ہے کہ بعض لوگ اس دور پرفتن میں اس کے جواز کی شکلیں نکال رہے ہیں‘ کس قدرافسوس ناک بات ہے جس چیز کو شریعت ودین نے حرام قرار دے دیا‘ قیامت تک حرام ہی رہے گی۔ کوشش یہ کیجئے کہ آپ کا روزہ صحیح طریقہ پر اس کا افطار ہو‘ شاہ غلام علی صاحب مجددی دہلوی رحمة اللہ علیہ نقشبندیہ سلسلہ کے کبار مشائخ میں تھے‘ نواب میر خان جو ان کے مرید تھے‘ ارادہ کیا جب انہوں نے سنا کہ حضرت کے یہاں پانسو پانسو آدمی رہتے ہیں اور کھانا کھاتے ہیں اور آپ ہی کو ان کی ضروریات پوری کرنا پڑتی ہیں‘ کوئی آمدنی نہیں‘ کوئی جائیداد نہیں تو انہوں نے ایک بڑی رقم پیش کرنی چاہی اور کہا کہ حضرت اس کو قبول فرمالیں‘ فرمایا کہ: فقیر نے روزہ رکھا تھا اور جب آفتاب ڈوبنے لگے تو کوئی روزہ نہیں توڑتا۔ اب میرا آفتاب عمر ڈوبنے کے قریب ہے‘ اب کوئی جتنا کہے کہ یہ چیزیں لے لو‘ یہ دوا کھالو‘ میں روزہ نہیں کھولوں گا کہ تمام دن روزہ رکھا اور اب جب افطار کا وقت قریب ہے تو توڑ دوں۔ ہر شخص کو یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ اسلام کا روزہ ہے‘ ساری عمر کا روزہ ہے‘ کبھی نہیں ٹوٹ سکتا‘جو چیزیں حرام ہیں‘ حرام ہیں‘ غلط ہیں‘غلط ہیں‘ عقیدہ خالص ہونا چاہئے‘ سمجھ لیجئے‘ نہ کوئی قسمت بری بھلی بنا سکتا ہے‘ نہ کوئی آئی ہوئی بلاکو ٹال سکتاہے‘ نہ اولاد دے سکتاہے‘ نہ نوکری دلاسکتاہے کہ آپ کسی اور سے مانگیں‘ جو کچھ مانگناہو‘ اسی سے مانگیں جو سمیع ومجیب ہے‘ وہ فرماتاہے:
”واذا سألک عبادی عنی فانی قریب أجیب دعوة الداع اذا دعان فلیستجیبوا لی ولیؤمنوا بی لعلہم یرشدون“۔ (البقرہ:۱۸۶)
یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اپنے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے کہ بندہ تجھ سے میرے بارے میں پوچھے تو کہہ دیجئے کہ میں قریب ہوں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ دعا کرے۔ آپ یہاں سے بڑے روزے کا خیال لے کر جایئے‘ خوش ہویئے‘ اللہ کا شکر ادا کیجئے ‘ یہ روزہ ختم ہورہا ہے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اور رمضان نصیب کرے‘ مگر زندگی کا اعتبار نہیں‘ صحت کا اعتبار نہیں‘ ہاں وہ مسلسل وطویل روزہ رہے گا‘ وہ روزہ مبارک ہو‘ اس روزہ کا خیال رکھئے‘ وہ روزہ نہ توڑیئے گا‘ وہ روزہ اگر ٹوٹا تو سب کچھ ٹوٹ گیا‘ سب کچھ بگڑ گیا۔ بس یہی دو روزے ہیں‘ ایک روزہ ہے قریب المیعاد‘ وہ ہے رمضان کا روزہ اور دن بھر کا روزہ ہے‘ ایک روزہ وہ ہے جو زندگی کے ساتھ رہے گا‘ اور مسلمان کے لئے جب سے وہ بالغ ہوا‘ اس دن تک جب تک سانس اور جان میں جان ہے‘ اور وہ شخص جس نے اسلام قبول کیا‘ اس کا بھی جب تک بدن میں اس کے جان اور روح ہے‘ اس وقت تک باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو توفیق دے کہ ہم اس روزے کو برقرار رکھیں‘ اس روزے کی حفاظت کریں اور قدر کریں‘ اور اس روزے پر جئیں اور مریں۔
ربنا توفنا مسلمین‘ والحقنا بالصالحین
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, رمضان المبارک۱۴۲۷ھ اکتوبر۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 9
Mohammad Mubeen
About the Author: Mohammad Mubeen Read More Articles by Mohammad Mubeen: 24 Articles with 79073 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.