ناول’’حضرت خالد بن ولید ؓ ‘‘

تجزیہ:شیخ اقبال حسین
ریگزار تھل میں بیٹھا ہوا ایک انسان جسے نہ تو کسی بڑی لائبریری استعمال کرنے کا موقع ملا ہے اور نہ ہی طباعت کی سہولیات میسر آئی ہیں مگر اس کے باوجود بائیس کتابیں چھپوانے کا اعزاز حاصل ہے جس میں آٹھ ناول،سات شعراء قدیم کے دوادین کی شرح اور باقی کتب اس کے اپنے دو سرائیکی مجموعہ ہائے کلام اور ایک اردو مجموعہ کلام سرائیکی علم البیان اور علم العروض پر جامع کتاب اور سرائیکی زبان کی صرف ونجو پر ایک مربوط اور مضبوط کتاب پر مشتمل ہیں ۔
جہاں تک ناول کا تعلق ہے اس میں پائے جانے والی مندرجہ ذیل خوبیاں انہیں دوسرے ناولوں سے ممتاز رکھتی ہیں ۔
۱۔امان اﷲ کاظم کے ناولوں کے سرورق کی شخصیت کی پیدائش سے موت تک کی مکمل داستان ملتی ہے ۔
۲۔کوئی غیر تاریخی یا روایتی واقعہ ان میں شامل نہیں ۔
۳۔اسلامی مشاہیر پر مشترقین نے جو الزامات لگائے ہیں ان کا ٹھوس جواب موجود ہے ۔
۴۔ان ناولز میں کوئی فرضی داستان نہیں ہے ۔
۵۔سرورق کی شخصیت کے ارد گرد جتنے بھی کردار ہیں وہ تاریخی ہیں فرضی نہیں ہیں ۔
۶۔تحریر میں زبان و بیان کی لطافت اور ادبی رنگ موجود ہے کوئی ایسا جملہ موجود نہیں جو ادب اور اخلاقیات سے گراہوا ہو۔
۷۔ہر نئے عنوان کے بعد کسی نامور شاعر کا ایسا قطعہ دیا گیا ہے جو دیئے گئے عنوان پر پورا اترتا ہے ۔
’’خالد بن ولید‘‘بھی انہی خوبیوں سے آراستہ پیراستہ ناول ہے ۔اس ناول میں جہاں حضرت خالد بن ولید ؓ کے عظیم کارنامے ہیں ۔وہاں حضور اکرم ؐ کی حیات مبارکہ اور حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ کے ادوار کے چند اہم واقعات پر بھی تفصیلی روشنی ڈالنے کی سعی کی گئی ہے اور کتاب کے آخر میں حضرت خالد بن ولید ؓکے متعلق چند معترفین کے سوالات کا بھی ٹھوس دلائل کے ساتھ جواب موجود ہے
سیدنا ابوسلیمان خالد ؓ سیف اﷲ کی کتاب کا سب سے جلی عنوان اور سب سے روشن باب ’’جہاد فی سبیل اﷲ ‘‘ہے ۔آپ ؓ کی حیات مبارکہ کا ایک بڑا حصہ جہاد فی سبیل اﷲ میں ہی گزرا۔آپ نے تاریخ اسلام میں فتوحات کا ایک باب رقم کیا ۔عراق و شام کی سلطنت اسلامیہ میں شمولیت آپ ہی کی مرہون احسان ہے آپ کے اعلیٰ درجے کی مجاہدانہ صلاحیتوں کے پیش نظر ہی محبوب دو عالم ؐ نے آپ کو ’’سیف اﷲ ‘‘کا خطاب عظیم مرحمت فرمایا تھا ۔اتنا بڑا خطاب آپ کو یونہی نہیں دیا گیا تھا بلکہ آپ کی سرفروشانہ اور مجاہدانہ کاوشوں کو مد نظر رکھ کر کیا گیا تھا ۔دولاکھ رومیوں کے گھیرے میں آئے ہوئے تین ہزار مجاہدین اسلام کو صحیح و سالم دشمنوں کے نرغے سے نکال لانا اور میدان کا رزار میں ’’نو تلواروں ‘‘کا توڑ نا ایک مجاہدانہ کارنامہ ہی نہیں بلکہ جرات و جوانمردی کا ایک لازوال کرشمہ ہے ۔یہ ایک معجزہ قدرت تھا کہ جس نے مسلمانوں کو اعدائے اسلام کے شر سے محفوظ و مامون رکھا اور یہ معجزہ سید نا خالد بن ولید ؓ کی مجاہدانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے آپ ؓ نے تقریباً سوا سو جنگوں میں اپنی شمشیر خاراشگاف کے جوہر دکھائے ۔تاریخ عالم میں یہ واحد سپہ سالار ہے (جرنیل )جس نے کبھی شکست کا منہ نہ دیکھا تھا ۔آپ کے جسم اطہر پر ایک بالشت بھی ایسا نہ تھا جہاں تیر یا تلوار کا کوئی زخم نہ ہو۔آخری وقت میں آپ فرماتے تھے ’’افسوس میری ساری زندگی میدان جنگ میں گزری مگر مجھے مرتبہ شہادت نصیب نہ ہوا ‘‘۔
اس ناول میں حضرت خالد بن ولید ؓ کی داستان شب و روز کو چھ ادوار میں منقسم کیا گیا ہے پہلا دور بچپن سے بلوغت تک(583ء تا622ء )آپ کے اس انتالیس سالہ دور زندگی کو ابتدائی دور زندگی کہا جاسکتا ہے ۔دوسرا دور جوانی سے قبول اسلام تک کا دور ہے (622ء تا 628ء بمطابق 1ھ تا7ھ)تیسرا دور عرصہ رسالت میں مجاہدانہ کارناموں کا دور ہے (628ء تا632ء )پانچواں دورخلافت صدیق اکبرؓ کے دور میں مجاہدانہ سرفروشوں کی داستان لازوال کا زمانہ ہے ۔623ء تا 633ء پانچواں دورخلافت فاروق اعظم ؓ میں معزولی کا دورہے (634ء تا 638ء )اور آخری دور مجاہدانہ خدمات سے علیحدگی سے وفات حسرت آبا ت تک کا ہے ۔(638ء تا534ء ) بمطابق 17ھ تا24ھ ۔
آپ ؓ کی تاریخ پیدائش سے متعلق کتب تواریخ میں کوئی مستند اور متفقہ حوالہ نہیں ملتا ہے ایک موہوم سی جھلک ہے جو ہمیں تاریخ پیدائش کے تعین میں مدد دیتی ہے ۔وہ یہ کہ اپنے دور لڑکپن میں حضرت خالد بن ولید ؓ اور حضرت عمر ابن الخطابؓ نے ایک کشتی لڑی تھی جس میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے حضرت عمر ابن الخطاب ؓ کی پنڈلی توڑ ڈالی تھی ۔جو ایک طویل معالجے کے بعد درست ہوئی تھی ۔یہ دونوں ہم عمر ٹھہرتے ہیں تو اس حساب سے ان کا سن پیدائش تقریباً 583ء بنتا ہے ۔
سیدنا خالد کے والدہ بن مغیزہ کی اپنے قبیلے بنو مخزوم میں بلکہ قریش مکہ میں ایک ممتاز حیثیت حاصل تھی ۔وہ سربر آوردوہ سردان قریش میں شمار ہوتے تھے ۔حضرت خالدؓ کی پرورش بڑے نازو نعم میں ہوئی تھی ۔اس لئے آپ کے مزاج میں تندی ،خودرانی ،اکھڑاپن اور شاہانہ انداز پایا جاتاتھا ۔اس کے علاوہ آپ ؓ نے شروع ہی سے شہ سواری ،نیزہ بازی اور شمشیر زنی میں بھی مہارت نامہ حاصل تھی ۔قبول اسلام سے قبل مسلمانوں کے خلاف ہر جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ۔جنگ بدر میں بھی شریک ضرو ر ہوئے تھے مگر کوئی نمایاں کارنامہ نہ دکھا سکے تھے ۔
جنگ احد کے موقع پر دوبارہ خالی پہاڑی دیکھ کر خالد بن ولید کا دستہ مال غنیمت سمیٹتے ہوئے خو ش و خرم اور غافل و بے خبر مسلمانوں پر عقب سے ٹوٹ پڑا اور مسلمانوں کی فتح کو تکلیف میں بدل ڈالا۔اس جنگ میں خالد بن ولید ؓ ہی کی دو ر اندیشی اور فنی مہارت تھی جس نے مسلمانوں کو ستر مجاہدین اسلام سے محروم کر دیا تھا ۔غزوہ خند ق کے موقع پر خالد بن ولیدؓ مسلسل خندق کا کمزور حصہ تلاش کرنے میں مگن تھے ۔بالآخر کی امید برآئی اور اسے وہ جگہ ذہاب کی پہاڑی کے مغرب اور سلع خندق کا کمزور حصہ تلاش کرنے میں مگن تھے ۔بالآخر ان کی امیدبرآئی اور اسے وہ جگہ ذہاب کی پہاڑی کے مغرب اور سلع کی پہاڑ ی کے مشرق میں مل گئی جہاں سے خندق کو عبور کیا جاسکتا تھا ۔مگر مسلمانوں کی شید مزاحمت کی وجہ سے یہ اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہوسکے محاصرے کی طوالت اور طوفان بادتند نے مشرکین مکہ کو بدحواس کر دیا تھا چنانچہ ابو سفیان نے واپسی کی ٹھانی ۔خالد بن ولیدؓ نے ابو سفیان کی طر ف سے اختیار کی گئی پسپائی کی بھر پور مخالفت کی اور بعد ازاں اکثر اوقات ابو سفیان کی بزدلی کے طعنے دیتے رہتے تھے ۔یہ جنگ سن05ہجری میں ہوئی ۔آپ ؐ نے اگلے سال حج کا ارادہ فرمایا ۔چنانچہ 06ہجری میں سرور کائنات پندرہ سو کے لگ بھگ صحابہ ؓ کے ساتھ بغرض حج بجانب بیت اﷲ روانہ ہوئے ۔کفار نے خالد بن ولید ؓ کو تین سو سواروں کیساتھ روانہ کیا تاکہ اس قافلہ کو راستہ میں ہی روک لیا جائے ۔مگر اﷲ نے آپ کو پہلے ہی مطلع فرمادیا ۔آپ ؐ نے راستہ تبدیل کر دیا اور حدیبیہ کے مقام پر خیمہ زن ہوئے ۔جہاں کفار کے ساتھ ’’صلح حدیبیہ ‘‘ہوا ۔جس کی رو سے مسلمان اگلے سال یعنی 07ہجری کو آئینگے ،مگر اس سال واپس چلے جائیں گے جب اگلے سال مسلمان بغرض ادائے عمرۃ القضاء مکہ داخل ہوئے تو اہل مکہ کو روکنے کی جرات نہ ہوئی ۔خالد بن ولید اور دوسرے سردار اسی اثناء میں شہر سے نکل گئے تاکہ مسلمانوں کے مکہ میں داخلے کا منظر نہ دیکھ سکیں ۔خالد بن ولید کا بھائی ولید بن ولید جو کہ مسلمان ہوچکا تھا عمرۃ القضاء میں حضور اکرم ؐ کے ہمراہ تھا ۔آپ ؐ نے ولید ؓ ہی کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ
’’اگر خالد میرے پاس آجاتا تو میں اس کی تکریم کرتا،مجھے حیرت ہے کہ ایسا ذہین فتین آدمی ابھی تک اسلام سے بیگانہ ہے ‘‘۔حضرت خالد بن ولید نے حضوراکرمؐ کے احساسات و خیالات الفاظ کا جامعہ پہنا کر ایک خط کے ذریعے اپنے بھائی خالد تک پہنچایا اسی خط نے انہیں اسلام کی جانب مائل کیا ۔چنانچہ خالد بن ولید ؓ نے یکم صفر08ہجری یعنی فتح مکہ سے چھ ماہ غزوہ موتہ سے دو ماہ قبل اپنا سینہ نور اسلام سے منور کر لیا تھا ۔آپ ؓ حضرت عمر و بن العاص ؓ اور حضرت عثمان طلحہ ؓ کے ہمراہ مدینہ منورہ داخل ہوئے اور حضور اکرم ؐ کی خدمت میں پہنچ کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔
غزوہ موتہ پہلا غزوہ ہے جس میں یہ ایک مسلمان سپہ سالار کی حیثیت سے دشمنان اسلام کے خلاف لڑے اسی جنگ میں ان کے ہاتھوں میں نو تلوار یں ٹوٹیں اسی دن سے حضرت خالد بن ولیدؓ کو ’’سیف اﷲ ‘‘کے لقب سے پکاراجانے لگا ۔صلح حدیبیہ کے ٹوٹنے کے بعد فتح مکہ میں بھی آپ ؐ کفار کے خلاف سینہ سپر رہے ۔فتح مکہ کے پانچ روز گزرجانے کے بعد آنحضور کریم ؐ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو تیس سواروں ہمراہ عزیٰ (معبد)کو منہدم کرنے کے لئے روانہ فرمایا۔جب آپ ؓ وہاں پہنچے تو بت کے قدموں میں لوہان جل رہا تھا اور ایک حسین و جمیل دوشیزہ برہنہ حالت میں حضرت خالد بن ولیدؓ کے سامنے آگئی اور بانہیں پھیلا کر آپ ؓ کا راستہ روکنا چاہا مگر تلوار کی ایک ہی ضرب سے دو لخت ہوگئی اور نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے بت کدے پر پرچم اسلام لہر ادیا ۔
اس مہم کے بعد حضور اکرم ؐ نے خود خالد بن ولید ؓ کو پرچم اسلام دے کر کئی علاقوں کی جانب روانہ کیا۔جن میں بخران ،بنو مصطق، بنو جذیمہ اور یمن کے علاقے شامل ہیں ۔امان اﷲ کاظم نے ان مہمات کو بڑی خوبصورتی اور جامعیت کیساتھ بیان کیا ہے ۔اس تاریخی ناول میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے دور میں ام زمل کی سرکوبی ،بزاخہ،بطاح ،ایران ،روم ،عراق کی لڑائیاں اور تداد مسلیمہ کذاب کے احوال کو بھی نہایت خوبصورتی مگر اختصار کیساتھ بیان کیا گیا ہے ۔اسکے بعد آخری دورکے احوال ہیں ۔حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے اس دار فانی سے کوچ کر جانے کے بعد حضرت عمر فاروقؓ خلیفہ نامزد ہوئے۔سیدنا فاروق اعظم ؓ نے مستند خلافت پر جلوہ نما ہونے کے بعد سے پہلا کام یہ کیا کہ شام میں رومیوں کے ساتھ بر سر جنگ اسلامی کے سالار اعظم سیدنا خالدبن ولید ؓ کو عہدہ سالاری سے جنگ سے معزول کر دیا ۔سیدنا خالد بن ولید ؓ نے اپنی معزولی پر کوئی معاندانہ رد عمل ظاہر نہ کیا بلکہ اپنی بقایا مجاہدانہ عمر ایک سپاہی کی طرح لڑتے ہوئے گزار دی ۔
حضرت خالد بن ولید ؓ کی معزولی دو وجوہات بیان کی گئیں ۔پہلی یہ کہ ایک کامیاب مہم کے بعد حضرت اشعت نے آپ ؓ کی شان میں زور دار قصیدہ لکھا آپ ؓ نے خوش ہو کر اسے دس ہزار درہم بطور انعام عطا کر دیئے ۔یہ خبر سید نا عمر فاروق تک پہنچ گئی ۔دوسری یہ کہ آپ ؓ جب کبھی کسی مہم سے لوٹتے تو عموماً ایک نفیس قسم کا غسل فرمایا کرتے تھے ۔پانی میں چند خوشبودار آمیزے شامل کرتے تھے جن میں کچھ مقدار ایک خاص قسم کے الکوحل کی بھی ہوتی تھی ۔الکوحل شراب کے زمرے میں آتا ہے اس آمیزے سے غسل کرنے سے جسم میں تازگی اور چستی پیدا ہوجاتی ہے ،ساری تھکان دور ہوجاتی تھی ۔خیر اس واقعہ کے بعد سید عمر فاروق ؓ اور سیدنا خالد بن ولید ؓ میں دوبار محبت پید ا ہوگئی تھی ۔سیدناخالد بن ولید ؓ اپنی معزولی کے بعد کم و بیش چار سال زندہ رہے ۔سیدنا خالد بن ولید ؓ کی عمر مبارک بوقت وصال اٹھاون سال کے لگ بھگ تھی اور642ء میں حمص میں وفات پائی ۔پوراتاریخی ناول’’خالد بن ولید‘‘کی پیدائش سے وفات تک تمام واقعات سے مزین ہے اور ہر واقعہ یا مہم میں آج کے نوجوانوں کے لئے ایک مثبت پیغام ہے یہ پیغام بڑی خوبصورتی سے واضح ہوجائے گا جب یہ کتاب ہماری لائبریری کی زینت بنے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Shaikh Iqbal Hussain
About the Author: Shaikh Iqbal Hussain Read More Articles by Shaikh Iqbal Hussain: 23 Articles with 20381 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.