دشمن سے لڑیں یا بھوک سے؟

تیج پرتاپ نے اپنی ویڈیو عوام کے سامنے پیش کرکے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے، انہوں نے تو محض اپنے اوپر ہونے والی نا انصافیوں کا تذکرہ کیا ہے ۔ انہوںنے اپنے ویڈیو بیان میں تو صرف یہی کہا ہے کہ ہم صبح چھ بجے سے شام پانچ بجے تک برف میں کھڑے رہتے ہیں اور ہمیں ناشتے میں صرف ایک جلی کٹی روٹی اور چائے کا ایک کپ دیا جاتا ہے اور دوپہر میں ہلدی اور نمک ملی ہوئی دال کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ حکومت نے فوج کیلئے بہت سارے بہتر اقدامات کیے ہیں لیکن وہ اعلی فوجی افسران ہمارے لیے جمع ذخیرے کو اونے پونے داموں بیچ کر ہمیں بھکمری جیسی زندگی گذارنے پرمجبورکررہی ہے … ! ان افسران کی تحقیقات کی جائے کہ وہ کیوں اس طرح کا رویہ اپناتے ہیں ،ان کے اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد حکومت کو بڑے پیمانے پر کارروائی کرتے ہوئے ان اعلی افسران سے رپورٹ طلب کرنی چاہیے تھی نہ کہ ان افسران کے ذریعے دئے گئے الزامات پر بھروسہ کرنا چاہیے اور انہیں پلمبر بنانے پر خاموش رہنا چاہیے …
ہندوستان کثیرآبادی والا ملک ہے؛ جس کی حفاظت کے لیے بڑے پیمانے پر فوجی اپنی خدمات انجام دیتے ہیں … لیکن جب ان ہی فوجیوں کو بنیادی سہولیات پہنچانے میں کوتاہی برتی جائے … انہیں سینئر افسران کی غلامی کرنی پڑے تونہایت ہی افسوس ہوتا ہے۔ وہ فوجی جو ہماری حفاظت کی خاطر کشمیر و لداخ جیسی سرد جگہوں پر جمی ہوئی برف کی سلوں پر بارہ بارہ گھنٹے تک کھڑے ہوکر اپنی نیندیں تیاگ کر برفباری سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی ڈیوٹی انجام دیں …محض اس لیے کہ ہمارے ملک میں کوئی دراندازی نہ کرے ؛ہمارے ملک پر کوئی غلط آنکھ نہ اٹھاوے …انہیں فوجیوں کو بنیادی سہولیات سے دور کرنا …انہیں بہترین کھانا فراہم نہ کرنا کسی المیہ سے کم نہیں؟ وزیر اعظم ابھی ملک کو ڈیجیٹل بنانے میں مصروف ہیں انہیں اس بات کی کیا فکر ہے کہ ہمارے فوجی کس حالت میں ہیں انہیں تو بس سینہ ٹھونک کر ان فوجیوں کو غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ حالیہ بی ایس ایف کے جوان تیج بہادر کی ویڈیو نے جہاں ملک میں اعلی فوجی کمانڈروں کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ہے وہیں اس جانب سوچنے پر بھی مجبور کر دیا ہے کہ کیا یہی ہماری فوجیوں کی زندگی ہے؟ کیا یہ ان کی قیمتی زندگی کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہے؟ کیا یہ ان نیتاوں سے بھی کمتر ہیں کہ انہیں دو وقت کی روٹیاں بھی صحیح ڈھنگ سے میسر نہ ہوسکے ؟…کہاں گئے وہ نیتا ؟ جو یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ فوج سرحدوں پر گولیاں کھارہے ہیں تم بینک کی لائن میں کچھ دیرکھڑے نہیںرہ سکتے؟ ان نیتاوں اور بھکتوں سے سوال ہے کہ فوج ہلدی میں پانی ملی ہوئی دال اور آٹے میں نمک ملی ہوئی روٹیاں کھانے پر مجبور ہیں تم کیوں مرغ مسلم کی رانیں اڑانے میں مصروف ہو؟ کیا وہ تم سے کم تر ہیں؟ کیا انہیں وہ حق نہیں ہے کہ وہ تمہاری طرح فائیو اسٹار ہوٹلوں جیسا کھانا کھاسکیں؟ کیا یہی ان کی قسمت میں ہے کہ وہ رات ودن پہرے داری بھی کریں اور روکھا سوکھا کھاکر خاموش رہیں …اگر آواز اٹھائے تو انہیں خاموش کردیا جائے …ان پر الزامات و اتہامات کی بارش کی جائے …فوج کے عہدے سے برطرف کرکے انہیں ایک ادنی سا پلمبر بنادیا جائے …اور اس پر بھی بس نہ ہو تو اسے غائب کر دیا جائے ،کیا یہی ان فوجیوں کا مستقبل ہے ؟

تیج پرتاپ نے اپنی ویڈیو عوام کے سامنے پیش کرکے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے، انہوں نے تو محض اپنے اوپر ہونے والی نا انصافیوں کا تذکرہ کیا ہے ۔ انہوںنے اپنے ویڈیو بیان میں تو صرف یہی کہا ہے کہ ہم صبح چھ بجے سے شام پانچ بجے تک برف میں کھڑے رہتے ہیں اور ہمیں ناشتے میں صرف ایک جلی کٹی روٹی اور چائے کا ایک کپ دیا جاتا ہے اور دوپہر میں ہلدی اور نمک ملی ہوئی دال کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ حکومت نے فوج کیلئے بہت سارے بہتر اقدامات کیے ہیں لیکن وہ اعلی فوجی افسران ہمارے لیے جمع ذخیرے کو اونے پونے داموں بیچ کر ہمیں بھکمری جیسی زندگی گذارنے پرمجبورکررہی ہے … ! ان افسران کی تحقیقات کی جائے کہ وہ کیوں اس طرح کا رویہ اپناتے ہیں ،ان کے اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد حکومت کو بڑے پیمانے پر کارروائی کرتے ہوئے ان اعلی افسران سے رپورٹ طلب کرنی چاہیے تھی نہ کہ ان افسران کے ذریعے دئے گئے الزامات پر بھروسہ کرنا چاہیے اور انہیں پلمبر بنانے پر خاموش رہنا چاہیے …ان پر اب الزامات عائد کیے جارہے ہیں کہ وہ بیس سالوں سے فوج میں بھرتی ہے اور عادی مجرم ہے ،شراب پیتا ہے ۔ یہ ایک بھونڈا مذاق ہے اور فوج پر تہمت ہے، اگر عادی مجرم ہے تو اسے اتنے دنوں تک کیوں فوج میں رکھا گیا ؟ اگر وہ ڈسپلن کا پابند نہیں تھا تو کیوں اسے سرحدکی حفاظت کی اہم اورحساس ذمہ داری سونپی گئی ۔ یہ اپنے اوپر پڑنے والی افتاد سے بچنے کی بھونڈی اور فحش حرکت ہے ۔ خبر آرہی ہے کہ تیج پرتاپ کو غائب کر دیا گیا ہے حالانکہ انہوں نے خودبھی اس خدشہ کا اظہارکیا تھا اور پرسکون لہجے میں کہاتھاکہ ہوسکتا ہے کہ مجھے نقصان پہونچایاجائے لیکن اگر میرے نقصان سے کسی دوسرے سپاہی کا بھلاہوسکتا ہے تو مجھے یہ بسرو چشم منظور ہے۔ دنیا کے تمام ممالک کی تاریخ اس حقیقت کو عالم آشکارہ کرتی ہے کہ وہ اپنی سرحد کے محافظوں کی تمام تر ضروریات کو پائیہ تکمیل تک پہونچاتی ہیں ،اعلی ترین اشیاء خوردنی مہیا کی جاتی ہیں ،تفریح طبع کا خیال رکھا جاتا ہے ،زندگی میں پیش آمدہ تمام مسائل کا حل پیش کیا جاتا ہے ،اور ملک کی فکر میں غرق رہنے والا یہ سپاہی دنیا کے تمام افکار سے یکسر بے نیاز کردیا جاتا ہے ،اور جب یہ فوجی میدان میں قدم رکھتا ہے ،اس کے حاشیہ خیال پر کوئی اور شئی نہیں ہوتی ،لہو کا ایک ایک قطرہ اپنی مٹی کے لئے پیش کردیتا ہے ، جام شہادت نوش کرتا ہے ،اور ملک کی حفاظت میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے ،دنیا بھر میں کوئی ملک ایسا نظر نہیں آتا جو سپاہیوں کا بھرپور خیال نہ رکھتا ہو، مگر ہمارے ملک میں تیج بہادر کے واقعہ نے عوام و خواص سب کو حیرت زدہ کردیا ہے ،اپنے اعزاء واقرباء سے دور ،ماں کی شفقت ،بیوی کی محبت سے دور ،بچوں کی مسکراہٹوں کی قربانی پیش کرتے ہوئے ،سینکڑوں آرزوؤں اور امنگوں کو قربان کرتے ہوئے ،گھر سے دور دوستوں ہمسایوں سے دور ملک کی خاطر اپنی جان کو دائو پر لگائے۔ لیکن جب وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو دنیا کے سامنے پیش کرے ،اپنی بھکمری کی داستان الم ویڈیو کے ذریعے ظاہر کرے تو بی جے پی کے لیڈران انہیں خنزیر سے تشیبہ دیں اور اپنے فیس بک پر لکھیں کہ ایسے سوروں کے لئے فوج میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ سر حد کی حفاظت کرنے والے تیج بہادر نے جو انکشاف کیاہے اس نے سب کے ہوش اڑا دئے ہیں ،دشمن سے لڑنے والوں کو بھوک سے لڑنا پڑ رہا ہے ، پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے فکر مند رہنا پڑ رہا ہے ،قوت میں اضافہ کرنے والی اشیاء سے محرومی یقینا تشویشناک ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تیج بہادر کو ادنی پلمبرکاکام کرنے کے لیے کیوں مجبور کیا گیا؟ تیج بہادر کو مسلسل غیر معیاری کھانا کیوں دیا جاتا رہا؟ یقینا یہ امرجواب طلب ہے ۔ مودی جو اس بدعنوانی کے خاتمہ کی بات کرتے نہیں تھکتے شاید امید ہے کہ اس کے خلاف بھی مؤثر اقدام کریں ۔ ورنہ یوں ہی جوتیوں میں دال تقسیم ہوگی ۔اور تو اور یہی وہ جوان ہیں جن کے دم پر سرجیکل اسٹرائیک کا ڈھنڈورا پیٹا گیا تھا ۔ اب ان ہی جوانوں کی یہ صورتحال ہے کہ وہ بھوکے سو رہے ہیں ۔ اگر یہ جوان بھوکے سو رہے ہیں تو پھر ہماری دفاعی قوت کیسے مستحکم ہوگی ؟ یوں تو دوسالوں سے یہی کہا جارہا ہے کہ ملک بدل رہا ہے؛ لیکن ملک کیسے بدل رہا ہے وہ سبھی جانتے ہیں ، اب وہ وقت آگیا ہے کہ اندھ بھکت اینڈ کمپنی ہنگامے چھوڑ کر معقول امور انجام دینے پرتوجہ مبذول کرے … ورنہ مزید ابتری ملک کے تعاقب میں دیوانہ وار دوڑ رہی ہے ۔ اور ابھی صرف تیج پرتاپ نے ہی اجاگر کیا ہے، کئی شعبوں سے بھی آوازیں اُٹھ رہی ہیں اگر اسی طرح کا ماحول رہا ،ان کی سہولیات کا دھیان نہ رکھا گیا تو شاید انجام بھیانک بھی ہوسکتاہے۔
 
NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 68456 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.