حسین پہاڑوں کا ضلع تور غر

پاکستان کاشمالی صوبہ خیبر پختونخواایک پہاڑی صوبہ ہے جس کو اﷲ تعالیٰ نے بے انتہاخوبصور تی عطاکی ہیں ۔صوبہ خیبر پختونخوا پاکستان کا واحدصوبہ ہے جس کے ہر ضلع کو اﷲ رب العزت نے حسین پہاڑوں سے نوازا ،ان ہی میں ایک ضلع تور غر بھی ہے ۔ضلع تور غر، پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کا پچیسواں ضلع ہے․ یہ پہلے ضلع مانسہرہ کے تحت ایک نیم قبائلی علاقہ ہوا کرتاتھا۔ بعد میں اس کو ضلع کا درجہ دیاگیا۔ پہلے اس کا نام کالاڈھاکہ تھا۔ ضلع کا درجہ ملنے کے بعد اس کانام تور غر رکھ دیاگیا۔ اس کو ضلع کا درجہ 2011؁ء میں ملا۔تور غر پشتو زبان کا لفظ ہے جس میں ’’تور‘‘ کا مطلب ’’کالا،سیاہ‘‘ اور ’’غر‘‘ کا مطلب ’’پہاڑ‘‘، چونکہ اس علاقے میں کچھ ایسے پہاڑ ہیں جو سیاہ لگتے ہیں اسلئے اس کا نام تور غر پڑگیا۔پاکستان کی آزادی سے قبل بہت سے علاقے جو آزاد تھے ،جن میں قبائل،سوات جس میں اُس وقت بونیراور شانگلہ کے علاقے بھی شامل تھے ایک اور علاقہ جس کو ہم آج ضلع تور غر کے نام سے جانتے ہیں،پاکستان کی آزادی سے قبل بھی یہ ایک آزاد علاقہ ہو اکرتا تھا ۔آزادی پاکستان کے بعد اس کو علاقے کو ضلع مانسہرہ کے ساتھ جوڑ دیا گیا اور نیم قبائلی نظام کے تحت چلنے دیا گیا ۔کچھ عرصہ قبل جب صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے صوبہ خیبر پختونخوا رکھ دیا گیا تو اس وقت خیبر پختونخوا کے مشرقی ڈویژن ہزارہ کے لوگوں نے شدید احتجا ج شروع کردیا او ر الگ صوبہ، صوبہ ہزارہ کی مانگ کی تب ہی خیبر پختونخوا کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کی بھرپور کوششوں سے کالا ڈکہ کو ضلع کا رتبہ ملاجس کی وجہ سے صوبہ ہزارہ تحریک کو کمزور پڑھ گئی ،ضلع تور غر کے رہائشی مہمان نواز ملن ساز اور خوش اخلاق و محبت پرس ہیں ۔

ضلعے میں آباد سب کے سب یوسف زئی پٹھان ہیں ۔ضلع میں جو قومیں آباد ہے ان میں سب سے زیادہ تعداد بسی خیل قوم کی ہیں دیگر قوموں میں مدا خیل،نصرت خیل، اخون خیل، حسن زئی ،اور سید ،آباد ہیں ۔اباسین(دریا سندھ) بھی ضلع تور غر سے ہوتا ہوا گزرتا ہے ۔تربیلا ڈیم کو جب بندکردیا جاتا ہے تو پانی کا ٹہراؤ ضلع تور غر میں واضح محسوس ہوتا ہے ۔تور غر رقبے کے لحاظ سے تو اتنا بڑا نہیں پر یہاں کی آبادی پانچ لاکھ سے بھیزیادہ ہیں ۔ضلع 90 فیصد پہاڑی اور صرف دس فیصد میدانی علاقوں پر مشتمل ہے ۔ضلع کی خصوصیات اباسین ہائی وے جو تاکوٹ سے شروع ہوکراور دریا سندھ کے ساتھ ساتھ ہوتے ہوئے دربن پر ختم ہو جاتا ہے ۔ جو 78 کلو میٹر بنتا ہے ۔ اس روڈکی خاصیت یہ ہے کہ اس کو بھی شاہرائے قراقرم کی طرح پہاڑوں کو کاٹ کر بنایا گیا ہے ۔یہ روڈ منظور سابق صدر ایوب خان کے دور میں ہواتھا ،بنا جنرل ضیاء الحق دور میں اور کارپیٹ کیا تو مشرف دور میں یہاں جمہوری حکومتیں ناکام نظر آتی ہے ۔ضلع تین تحصیلوں پر مشتمل ہے ۔جدباء نصرت خیل،کاروڑ مدا خیل،کنڈارو حسن زئی جبکہ ضلع کا ہڈ کواٹر جدبا ء ہے ۔ضلع تورغر کا شمار سب سے پر امن اضلع میں ہوتا ہیں ۔یہاں ایک ہی مسلک کے لوگ آباد ہے ۔تور غر کے لوگ رزق حلال کی تلاش کیلئے زیادہ تر کراچی میں آباد ہے ۔ یہاں کی عوام اگر چہ زیادہ پڑھی لکھی تو نہیں پر شعوربہت رکھتی ہے ووٹ صرف خدمت کے بنیاد پر دیتی ہیں ۔2002 میں مجلس عمل ،2007میں عوامی نیشنل پارٹی،خدمت میں ناکامی کی صورت میں اب کے انتخابات میں جمعت کو ووٹ دیا ۔ جبکہ قومی سیٹ پاکستان مسلم لیگ کے پاس ہے جو میاں محمد نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر ہے ۔ مذہبی اور دینی لحاظ سے اس علاقے کے طلبا ملک بھر کے مدارس میں اپنی علمی پیاس بجھانے میں مصروف، مذہبی لحاظ سے یہ علاقہ کافی ذرخیز بھی ہے۔ضلع تو رغر مسائل کے لحاظ سے پورے پاکستان میں نمبر ایک ہے ،قدرت نے اس علاقے کے باسیوں کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے یہاں ضروریات زندگی تقریبا ناپید ہے۔ پورے ضلع میں چند محدود پرائمری لیول کے سکول ہیں۔ جہاں تعلیم کا حصول کم اور بچوں کو گھریلو خدمتوں سے چھپنے کا خفیہ پناہ گاہ صبح تا دوپہر باآسانی مل جاتی ہے۔

پورے ضلع کی سطح پر میٹرک اور ہائی سکولز کی تعداد 3,4سے زیادہ نہیں۔جہاں معیار تعلیم انتہائی ناقص ہے تعلیم کے میدان میں حکومت کا ہاتھ بٹانے میں با اثر افراد کو مداخلت ضروری ہوا کرتی ہے وہ بھی تقریبا نہ ہونے کے برابر، ۔ ان تمام مصائب و مشکلات کے باوجود یہاں کے لوگ اپنی تقدیر کے تبدیلی میں تعلیم کے حصول کو خشت اول تسلیم کرتے ہیں اور انتہائی کسمپرسی کے حالت میں اپنے علاقے سے تعلیم کے حصول کے لیے دوسرے شہری علاقوں کے طرف ہجرت کرجاتے ہیں۔چاہے وہ تعلیم دینی ہو یا عصری،ان میں سے جو طلبہ گرتے پڑتے میٹرک تک تعلیم حاصل کر بھی لیتے ہیں۔ تب سہولت کے بجائے ان کے لیے امتحانات اور آزمائشوں کا نیا دور شروع ہوجاتا ہے۔ چونکہ یہاں اعلیٰ ثانوی تعلیم کے لیے کوئی کالج موجود نہیں اور اس کا قیام محض ایک خواب دکھائی دیتا ہے۔ اس لئے انہیں مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے یا تو کراچی جانا پڑ تا ہے یا تو ملک دیگر حصوں میں ،تعلیم کی طرح صحت کے میدان میں بھی یہ لوگ گو درگوں مسائل کا شکار ہیں،بلکہ اس کی ناگفتہ بہ حالت کو قلم کے نوک پر لانے سے بھی انسانی دماغ گریز کرہا ہے،پورے ضلع میں معیاری ہسپتال موجود ہے ہی نہیں، آپ کو معمولی بیماری بخار وغیرہ کے لیے بھی معالج کی تلاش عنقاء پرندے کی مانند ہوا کرتی ہے۔کسی بھی علاقے کے ترقی یہاں تک پہنچنے کے لیے سہل راستوں پر منحصر ہوتی ہے، یہاں کے باسی چونکہ کئی لحاظ سے اوگئی ،بٹگرام سے ملحق ہیں اس لیے یہاں ان کا آنا جانا سب سے زیادہ ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اباسین ہاوئے پر جو بھی کام ہوا ہے فوجی حکومتوں میں ہوا ہے جس کے بعد پورا روڈ جگہ جگہ سے ٹوٹ پوٹ کا شکار ہے اگر آپ تاکوٹ سے جدباء جاتے ہو جو 33 کلومیٹر کا راستہ بنتا ہے اس کو آپ دو گھنٹوں میں طے کر پاؤ گے ۔ اگر آپ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک کا سفر طے کرتے ہوتو آپ پیدل جلدی طے کرلوگے، با نسبت گاڑی کے ہائی وے کو چھوڑ کر، جب کالا ڈاکہ کو ضلع بنانے کیلئے علاقائی عمائدین سے مذاکرات ہو ئے تو حکومت انہیں یقین دلایا کی حکومت انہیں بجلی اور پختہ سڑک کی سہولیات فراہم کرے گی، لیکن جو سڑک بنائے گئی فوجی دور میں بنی تھی آج اس کا پرسان حال کوئی نہیں تو مزید کیا امید رکھی جاسکتی ہے ۔ اگر بجلی کی بات کی جائے تو اس سے نہ ہونا ہی اچھا تھا 24 گھنٹے میں صرف آٹھ گھنٹے اور وہ بھی سو سے کم ،عوامی نمائندوں کی غفلت و لاپر وائی کے باعث اس دور جدید میں بھی عوام پتھر کے دور کی زندگی گوزارہے ہیں ۔اسی طرح زندگی کی بنیادی ضروریات میں سب سے اہم چیز پانی ہے۔۔ اس علاقے کے لوگ اس نعمت سے بھی تقریبا محروم ہیں،کچھ عرصہ پہلے تک پہاڑوں میں موجود چشموں کا پانی ایک جگہ جمع کرکے پائپوں کے ذریعے گھروں میں تقسیم کیا جاتا تھا، لیکن وہ پانی بھی اب دن بہ دن کم ہوتا جارہا ہے، جس کے باعث پانی لینے کے لیے صنف نازک باحیا خواتین دور دور سے سروں پر وزنی مٹکے بھر کر پانی لاتی ہے۔

حکومت اپنے وعدے کے مطابق ضلع تور غر کے ترقی کیلئے جلد از جلد کام شروع کردیں تاکہ یہاں کے باسیوں کے لیے آمدورفت ،تعلیم ،اور شعبہ صحت میں آسانی پیدا ہو۔اﷲ ہم سب پر اپنا کرم فرمائے (آمین)
 
Inayat Kabalgraami
About the Author: Inayat Kabalgraami Read More Articles by Inayat Kabalgraami: 16 Articles with 18920 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.