ساری پارلیمنٹ صادق وامین کیسے ہو گی؟

اﷲ کے رسول ﷺ نے جب دعوت حق کا آغاز کیا تو فاران کی چوٹی پرکھڑے ہوکر ایک سوال سب حاضرین سے کیا کہ"میں نے تمھارے اندرایک عرصہ گزرا، اے مکہ والو! تم نے مجھے سچاپایا جھوٹا "تو سب نے مل کر جواب دیا کہ" ہم نے بار بار تجربہ کیا آپ کو سچا پایا "پھر اﷲ کے رسول ﷺ نے اسلام کی دعوت سب حاضرین کو دی۔ایک بار ابوجہل سے کسی نے پوچھا کہ محمد (ﷺ) سچے ہیں یا جھوٹے تو ابو جہل جیسے دشمن نے بھی اعتراف کیا کہ محمد ﷺ سچے ہیں ۔نبی ٔ کریم ﷺنے سچے دین کی اشاعت کی اور سچ بولنے کا حکم دیا ،قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ہے کہ جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت ہے ۔اﷲ کے رسول ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کی انقلابی جماعت تیار کی اس کی تربیت بھی سچ کی بنیاد پر فرمائی ۔پیغمبر اسلام ﷺ کا ہر صحابی ؓ صادق وامین ہے ،جو نظام زندگی،نظام حکومت پیغمبر اسلام ﷺ نے دیا اس کی بنیاد بھی سچ پر ہی ہے ،جھوٹ کا اس میں بھی تصور تک نہیں ۔یعنی اسلامی نظام خلافت کے علمبردارسچے اور کھرے ہوتے ہیں ۔لیکن آج جو نظام جمہوریت ساری دنیا پر مسلط ہے اس کی خصوصیت ہی عجیب ہے۔اس کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام پرہے کوئی بھی عام آدمی اس نظام کے تحت کسی بھی درجے میں اقتدار کو نہیں پہنچ سکتا اقتدار کی راہداری تک جانے کیلئے کثیر سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے جو صلاحیت رکھنے والے اکثر لوگوں کے پاس نہیں ہوتا ،اسی لئے یہ نظام سرمایہ داروں اور ان کے سرمایہ کی لونڈی بن کر رہ گیا ہے ،اس نظام میں غریب عوام کا نام اور اس کے ووٹ کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا جاتا ہے اورذمہ داری کے طور پر عوام کو سودی قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کیلئے قیامت خیز مہنگائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے ،سرمایہ داروں کا سرمایہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ان کے کتے دیسی گھی اور مربے کھا رہے ہیں اور غریب بھوک سے مر رہے ہیں اگر یہ کہہ دیا جائے کہ موجودہ نظام میں غریب عوام کو جرمانے ادا کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں تو بے جا نہیں ہوگا۔ اس نظام کے تراشنے والے کہتے ہیں کہ جو سیاستدان سب سے زیادہ جھوٹ بول کر لوگوں کو اس قدر گمراہ کردیں کہ لوگ اس کے جھوٹ کو سچ سمجھنا شروع کردیں تو وہ کامیاب ترین سیاستدان ہیں ۔جس کی عکاسی پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے جسٹس کھوسہ کے ریمارکس کررہے ہیں سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اگر آرٹیکل 62,63لگاتا تو امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے سوا کوئی نہیں بچے گا یعنی سراج الحق کے سوا سب کاذب اور بددیانت ہیں ۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کہ سب چلے جائیں کوئی پروا نہیں لیکن آرٹیکل کا اطلاق ہر حال میں ہونا چاہیے ۔عمران خان شائد یہ سوچ رہے ہیں کہ اس میں ان کو بھی رگڑا نہیں لگے گا تو ان کی خدمت میں گذارش ہے کہ سپریم کورٹ کا بیان دوبارہ غور سے پڑیں ،اس ریمارکس کی زد میں سب سے پہلے تو عمران خان خود آ رہے ہیں کیونکہ جب سراج الحق کے سوا کوئی پارلیمنٹ میں صادق وامین نہیں ہے تو پھر عمران خان بھی کاذب اوربددیانت ہی ہیں ۔تو پھر عمران خان کو اپنی حیثیت معلوم ہو جانے کے بعد اس پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے کر اگر ہوجانا چاہیے کیونکہ سپریم کورٹ کا بیان آگیا عمران خان سب سے پہلے خود پر بذات خود آرٹیکل 62,63 لگائیں۔سراج الحق اور جماعت اسلامی کیلئے ہماری یہ رائے ہے کہ وہ اس جدید دور کی جدید صادق اور امین نہ رہنے والی پارلیمنٹ سے فوری الگ ہو جائیں۔جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق اور جماعت کو اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ کیا پیغمبر اسلام ﷺ نے جھوٹ،باطل سے الگ رہ کر نظام حق قائم نہیں کیا تھا؟کیا اﷲ رسول ﷺ اپنے دور کی باطل،انسان ساختہ اورکاذب پارلیمنٹ دارلنندوہ کا حصہ بنے تھے ؟ ہر گز ہرگز نہیں ۔تو پھر صادق اور امین لیڈران اور جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی مسنون طریقے سے اسلامی نظام قائم کرنے کا طریقہ اختیار کریں ۔جھوٹوں،فراڈیوں کے غول سے الگ رہ کر اسلامی نظام قائم کرناہوگا ۔سپریم کورٹ میں جاری پانامہ لیکس کیس کی سماعت ہر روز ہو رہی ہے۔ عدالت کے فیصلہ سے قبل از ہی قیاسی آرائی کرنا ضروری نہیں سمجھتے کرتے ۔مگر اس حوالے سے عدلیہ بھی مایوس ہے کہ طاقت ور قانون ضابطے کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔متعدد بار عدلیہ کے ججز نے ریمارکس دئیے کہ مسائل اس قدر ہیں کہ حل مشکل ہے ،سب سے بڑا مسٔلہ پاکستانی قوم کا کرپشن ہے جو آئے روز بڑھتی ہی جا رہی ہے ،ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ،کرپشن اسی وقت ہی ہوتی ہے جب کو ئی بددیانت ہو جائے اور غیر قانونی طریقے سے مال وجائیداد بناناشروع کردے ۔اس دھندے میں تو سب ملوث ہیں یعنی کرپشن کے اس حمام میں سوائے سراج الحق کے سب ننگے ہیں۔عمران خان کے ساتھ کھڑے ہونے والوں نے بھی تو کرپشن کی ہے اور آج وہ تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر آکر کرپشن کے خلاف آواز بلندرہے ہیں مگر ان کا دامن بھی کرپشن سے پاک نہیں ہے وہ بھی غیر قانونی دولت جمع کرنے میں ملوث رہے ہیں ان کے نام بھی پاناما لیکس میں آئے ہیں ۔معزز عدالت کے معزز جج نے اپنے ریمارکس واپس لے لئے مگر حقیقت واضح ہے کہ پہلے دئیے گئے ریمارکس بالکل درست ہیں اس قوم کی بد قسمتی ہے کہ وہ ایک مخلص صادق اور امین قیادت سامنے نہیں لا سکے ۔اسکی کئی وجوہات ہیں ان وجوہات میں سب سے بڑی وجہ اسلام،اسلامی نظام کے شعوری ولاشعوری طور پر دور رہنا ہے ۔ اسلام اور اسلامی نظام کو سمجھ کر اپنائے بغیر مسائل کاحل ناممکن ہے جس کی طرف قوم کا دھیان ہی نہیں جارہا سب وقتی،ذاتی مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں ،ہر بار عوام جاننے کے باوجود دھوکے کا شکار ہو رہے ہیں ۔قوم اور لیڈران کو چاہیے کہ وہ نظریہ پاکستان سے وفا کرتے ہوئے سچے نظام (خلافت ) کے قیام کیلئے اپنی کوششیں بروئے کار لائیں سارا معاشرہ سچ کی تسبیح میں پرو کر سچائی کا پیکر بن جائے گا پھر عدالت عالیہ کو یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ پارلیمنٹ میں ایک ہی ممبر صادق اور امین ہے ۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 244246 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.